ColumnTajamul Hussain Hashmi

بڑے بڑوں کی شکست

تجمل حسین ہاشمی
عمران خان کے ساتھ عوامی رومانس کو ختم کرنے کا کون سا فارمولا بہتر رہے گا۔ صدا بہار حکومت میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو جوڑ توڑ کیلئے مفید مشورے دستیاب ہیں۔ لیکن سیاست دان کیا کریں جمہوریت کیلئے کرنا تو بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن اپنے ہی ہاتھوں مجبور ہیں۔ ویسے انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے لیکن کیا کریں عمر کے جس حصہ میں یہ تمام سیاست دان ہیں اس عمر میں مال کی ہوس پہلے سے زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے مطابق دین میں واضح احکام ہیں۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے جب تک خود کوئی ٹوٹنے کیلئے تیار نہ ہو تو کوئی کسی کو نہیں توڑ سکتا۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ جمہوری پارٹی کو ہر طاقتور اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ماضی اور حال کے حکمران طاقتوروں کے ہاتھ استعمال ہوئے نہیں بلکہ اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے آئے ہیں اور طاقتور بھی ہنسی خوشی استعمال ہوتے رہے۔ کئی ایسی باتیں بظاہر کچھ اور بیک سائیڈ سے کچھ اور نظر آتی ہیں۔ط الیکشن پراسیس مکمل ہوچکا ہے اور میاں نواز شریف اپنی کامیابی کی سپیچ کر چکا ہے۔ ماضی کے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے کے طریقہ کار پر بات چیت جاری ہے۔ اقتدار چوتھی باری لینے کیلئے جوڑ توڑ کا عمل شروع ہے۔ میں اپنے کالمز میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ میاں نوازشریف کی چوتھی باری ممکن نہیں۔ الیکشن ہوچکے اور حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ بڑے بڑے نام اس بار دوڑ سے باہر ہیں۔ کئی پارٹی سربراہوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی رہنمائوں نے شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ سب سے بڑا اپ سیٹ مانسہرہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر ہوا، جہاں مسلم لیگ ن کے قائد اور تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہزادہ گشتاسپ خان کے ہاتھوں 25ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی۔ تاہم وہ لاہور میں اپنے آبائی حلقے این اے 130سے پی ٹی آئی کی امیدوار یاسمین راشد کو شکست دینے میں کامیاب رہے لیکن میڈیا ذرائع کے مطابق نتیجہ کو چیلنج کیا گیا ہے۔ دوسرا بڑا سرپرائز جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ان کی آبائی نشست این اے 44پر شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ انہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار علی امین گنڈا پور کے ہاتھوں بڑی ہار ہوئی تاہم وہ بلوچستان کے علاقے پشین سے اپنی دوسری نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو لاہور کے حلقہ این اے 127میں مسلم لیگ ن کے امیدوار عطا اللہ تارڑ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ تاہم وہ بھی سندھ سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب قرار پائے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اپنی آبائی نشست این اے 6لوئر دیر سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار بشیر خان سے بڑی لیڈ کے ساتھ شکست کا کھا کر میدان سے باہر ہوگئے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین ملتان اور لودھراں میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 149اور این اے 155سے ہار گئے۔ عمران خان کی کامیابی کا سہرا جہانگیر ترین کو سمجھا جاتا رہا۔ ہار نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا دیا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد راولپنڈی این اے 56سے مسلم لیگ ن کے امیدوار حنیف عباسی سے ہار گئے۔ شمالی وزیرستان سے قومی اسمبلی کی نشست 42سے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ نے ایکس پر بتایا کہ انہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اقبال وزیر کے مقابلے میں شکست ہوئی مگر ابھی تک اس نشست کا الیکشن کمیشن نے نتیجہ جاری نہیں کیا۔ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی بھی راولپنڈی کی نشست این اے50سے ہار گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان این اے 25سے ہار گئے۔ بڑے برج الٹ گئے۔ وجہ کیا بنی؟ آج اس وجہ کو 25کروڑ جانتے ہیں۔ ان انتخابات میں کئی حلقوں میں ناقابل یقین بڑے امیدوار بھی ہارے ہیں۔ فیصل آباد سے ن لیگ پنجاب کے صدر سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، لاہور سے سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، روحیل اصغر، شیخوپورہ سے جاوید لطیف، گجرانوالہ سے خرم دستگیر، خیبر پختونخوا سے اے این پی کے امیر حیدر ہوتی، غلام احمد بلور، سابق وزیراعلیٰ کے پی محمود خان، راولپنڈی سے غلام سرور خان، چودھری نثار علی خان، ملتان سے شاہ محمود قریشی کی صاحب زادی مہر بانو کو حالیہ الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار ماضی کی سیاست کا پردہ چاک ہوچکا ہے، بچہ بچہ الیکشن کی شفافیت کو جان چکا ہے۔ گولی اب بندوق سے نکل چکی ہے۔ اینکر و مصنف رئوف کلاسرا نے اپنے ایکس پر کہا کہ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر وزیراعظم ہائوس پہنچنے کا فیصلہ لے ڈوبا کہ وہ تو بنے بنائے وزیراعظم ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کو لوگوں نے ایک ایسے victimیا مظلوم کے طور پر دیکھا جو اپنے سے بڑی اور طاقتور قوتوں کیخلاف اکیلا لڑ رہا تھا۔ مقامی اور عالمی طاقتیں خلاف تھیں۔ عمران خان کو ان کے مخالفین نے سیاسی طور پر ختم کرنا ہے تو انہیں (عمران خان) دوبارہ اقتدار میں آنے دیں۔ ورنہ وہ ایک ڈرائونا خواب بن کر اپنے سیاسی مخالفیں کو ڈراتے رہیں گے ۔ عوام کا عمران خان سے رومانس صرف خان کا اقتدار ہی ختم کرسکتا ہے۔ پہلے بھی نواز لیگ نے 2022 میں اقتدار لے کر غلطی کی تھی ۔ اب 2024 میں پھر بڑی غلطی کرے گی اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی منڈی سے خرید و فروخت کے ذریعے نواز شریف کو وزیراعظم بنایا گیا۔ لوگوں کی رائے اور مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہئے۔ عمران خان کی پارٹی نے تمام تر مشکلات کے باوجود اچھا پرفارم کیا ہے۔ ہمیں ملکی سلامتی اور سیاسی استحکام درکار ہے تو سعد رفیق والا راستہ اپنانا ہوگا۔ نواز شریف کو سعد رفیق سے سیکھنا چاہئے۔ شکست مان کر آصف زرداری اور عمران خان کو الائنس بنا کر حکومت کرنے دیں۔
جناب کلاسرا صاحب کے مشورے کا بے حد احترام کیوں کہ کلاسرا صاحب صاف اور عوامی سوچ کے ترجمان ہیں لیکن خواجہ سعد رفیق کے حوالہ سے میرا ذاتی خیال ہے کہ خواجہ صاحب کی صاف گوئی ان کے اپنے سیاسی لوگوں کو اچھی نہیں لگی۔ پوری قوم خواجہ سعد رفیق کے عمل کی قدر کرتی ہے حقیقت میں خواجہ جیسے رہنمائوں کی اس وقت ضرورت ہے۔ کلاسرا صاحب نے بالکل درست کہا کہ نوازشریف کو خواجہ سعد رفیق سے سیکھنا چاہئے لیکن صد افسوس ہمارے سیاسی قائدین جمہوری کہلواتے ضرور ہیں لیکن جمہوری طرز عمل ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔ ان میں جمہوری جذبہ ہوتا تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی، الیکشن کمیشن ایسا ادارہ ہے جس کا کام پانچ سال میں ایک دفعہ الیکشن کرانا ہے، اس میں بھی وہ ناکام ہے۔ ماضی اور عمران خان کی حکومت بھی الیکشن کمیشن کی اصلاح نہیں کر سکی۔ اس بار الیکشن کمیشن کی اہمیت اور اہلیت 25کروڑ عوام کے سامنے مزید عیاں ہوچکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button