ColumnRoshan Lal

ایک اور متنازعہ الیکشن کے بعد

تحریر: روشن لعل
8 فروری2024کے عام انتخابات کے انعقاد سے بہت پہلے عام لوگوں نے یہ خیال ظاہر کرنا شروع کردیا تھا کہ اس الیکشن کا نتیجہ چاہے جس کے بھی حق میں یا خلاف آئے، اسے ہر حال میں متنازعہ ہی سمجھا جائے گا۔ مذکورہ خیال کے عین مطابق پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ایک مزید متنازعہ الیکشن کا اضافہ ہو چکا ہے ۔ یکے بعد دیگر منعقد ہونے والے گزشتہ دو متنازعہ انتخابات میں سے ایک کو آر او اور دوسرے کو آر ٹی ایس الیکشن کا نام دیا گیا تھا۔ حالیہ متنازعہ انتخاب کو آنے والے دنوں میں ایسے ہی کسی نام سے پکارا جانا یقینی ہے۔ انتخابی نتائج پر تحفظات کے اظہار کو اب امریکہ میں بھی عجیب نہیں سمجھا جاتا جبکہ روس اور بنگلہ دیش ایسے ملک ہیں جہاں حکمرانوں پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام کھل کر لگایا جاتا ہے مگر انتخابی دھاندلی کے الزامات کی زد میں آنے والا دنیا میں پاکستان جیسا شاید ہی کوئی اور ملک ہو جس میں نہ صرف ہر الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا جاتا ہے بلکہ ایسے لوگ بھی سامنے آجاتے ہیں جو دھاندلی کا الزام قبول کرنے کے باوجود کسی بھی قسم کے احتساب سے محفوظ رہتے ہیں۔ کون بھول سکتا ہے کہ جنرل ( ر) حمید گل نے 1988کے الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی کے خلاف نہ صرف اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کا کھل کر اقرار کیا بلکہ یہاں تک کہا تھا کہ اگر کوئی مجھے کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے تو کر لے۔ اسی طرح جنرل ( ر) اسد درانی نے عدالت میں پیش گئے حلفیہ بیان میں یہ اقرار کیا تھا کہ 1990کے الیکشن کے دوران انہوں نہ صرف بینکوں میں جمع عوام کے کروڑوں روپے ناجائز طریقے استعمال کرتے ہوئے نکلوائے بلکہ انہیں جنرل ( ر) حمید گل کے بنائے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل سیاستدانوں میں تقسیم بھی کیا تاکہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف بھر پور انتخابی مہم چلا سکیں۔ پاکستان کے میں منعقد ہونے والے انتخابات میں 1988اور 1990کے انتخابات میں دیدہ دلیری سے کی گئی دھاندلیوں کے تسلسل میں 2013کے آر او اور 2018کے آر ٹی ایس زدہ الیکشن منعقد ہوئے۔ مذکورہ الیکشنوں میں ہونیوالی دھاندلی کا یہ فرق ہے کہ اولذکر انتخابات میں دھاندلی کرنے والے کھل کر سامنے آئے جبکہ وقت اور حالات تبدیل ہونے کی وجہ آخرالذکر انتخابات میں ہونیوالی دھاندلی میں مرکزی کردار ادا کرنے والوں میں سامنے آنے کی ہمت پیدا نہ ہو سکی۔
حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف سے وابستہ اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے جن امیدواروں کے گروپ نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں وہی گروپ ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دینے میں سب سے آگے ہے۔ پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والے کسی سیاسی گروپ نے دھاندلی کا الزام لگایا ہو۔ قبل ازیں پیپلز پارٹی کو یہاں مختلف انتخابات میں مخالف سیاسی جماعتوں کی نسبت سب سے نشستیں حاصل کر کے اتحادی حکومت بنانے کے تین مواقع ملے ، ایسے ہر موقع پر پی پی پی کی طرف سے یہ الزام سامنے آیا کہ اسے اسمبلی میں کم از کم سادہ اکثریت حاصل ہو سکتی تھی مگر اس کے خلاف ہونے والی دھاندلی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ جن انتخابات میں پیپلز پارٹی بری طرح شکست سے دوچار ہوئی ان میں بھی اس کے رہنمائوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات سامنے آتے رہے۔ موجودہ انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کی 93اور مسلم لیگ ن کی 78سیٹوں کے بعد پیپلز پارٹی 54نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں تیسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے مگر اس مرتبہ بھی تحریک انصاف کی طرح پیپلز پارٹی سامنے آنے والے انتخابی نتائج اور ان کی ٹائمنگ پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ ہر سابقہ انتخاب کی طرح موجود انتخابی نتائج پر تحفظات کے اظہار کے باوجود پیپلز پارٹی اس مرتبہ بھی پارلیمنٹ میں اسے جو کچھ دستیاب ہو چکا ہے اسے چھوڑنے کی بجائے جس طرح بھی ممکن ہو استعمال کرنے کے لیے تیار نظر آرہی ہے جبکہ تحریک انصاف کے متعلق کچھ بھی واضح نہیں کہ آنے والے دنوں میں اس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف سے وابستہ جو امیدوار آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے انہوں نے انتہائی نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا۔ نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف انتخابات میں حصہ لے کر منتخب ہونے والے امیدوار بلکہ ایسے ہی حالات میں انہیں اپنے ووٹوں سے منتخب کرنے والے ووٹر بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مایوس ہو کر گھر بیٹھنے کی بجائے پولنگ سٹیشنوں پر جا کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ منتخب آزاد امیدواروں کے حامی ووٹروں نے موجودہ انتخابات میں جس طرح سے اپنی رائے کا اظہار کیا شاید پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کو نہ اس کی توقع تھی اور نہ وہ اس کے لیے تیار تھی۔ شاید ایسی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے ہی پی ٹی آئی کی قیادت کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کر پا رہی۔ انتخابی نشان ’’ بلا‘‘ نہ ملنے پر پی ٹی آئی نی جس وقت اپنے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابی میدان میں اتار، اسی وقت اس کی طرف سے یہ منصوبہ بندی ہو جانی چاہیے تھی کہ جس بھی تعداد میں اس کے امیدوار منتخب ہوئے اس تعداد کے مطابق اس کی آئندہ کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کے حالیہ رویے سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اس نے آئندہ حکمت عملی تیار کیے بغیر اپنے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے الیکشن میں اتارا۔
پی ٹی آئی نے 2018کے آر ٹی ایس زدہ انتخابات میں 116کے قریب سیٹیں حاصل کی تھیں ۔ پیپلز پارٹی نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دینے کے باوجود پی ٹی آئی کو تعاون کی پیش کش کی تھی ۔ پیپلز پارٹی کی پیش کش کو بھونڈے مذاق کرتے ہوئے ٹھکرا کر پی ٹی آئی نے اتحادی حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم اور اسی طرح کے دیگر سیاسی گروہوں کو ترجیح دی ۔ آج بھی پی ٹی آئی 2024کے انتخابات میں 93سیٹیں حاصل کر کے کم و بیش وہاں ہی کھڑی نظر آرہی ہے جہاں 2018میں 116سیٹیں لے کر کھڑی تھی۔
حالیہ انتخابات پر پی ٹی آئی کے چاہے جیسے بھی تحفظات ہوں مگر سامنے آنے والے انتخابی نتائج سے یہی نظر آتا ہے کہ مجموعی طور پر عوام نے کسی ایک سیاسی جماعت پر اعتماد کرنے کی بجائے قومی حکومت کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ الیکشن کے متنازعہ ہونے کی وجہ سے اس پر ہر کسی کے اپنے تحفظات ہیں۔ ان تحفظات کی وجہ چاہے کسی کا یہاں ایک نیا 9مئی برپا کرنے کو دل کیوں نہ کر رہا ہو مگر دل کی باتیں ماننے کی بجائے ذہن کو استعمال کرتے ہوئے یہ سوچنا زیادہ بہتر ہے کہ موجودہ حالات میں کس حکمت عملی کے تحت بہتر طور پر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اس وقت بہتر طور پر آگے بڑھنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انتخابی نتائج کے متنازعہ ہونے کے باوجود ہر سیاسی گروہ ہر صورت، مارچ میں سینیٹ الیکشن کا انعقاد یقینی بنائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button