ColumnImtiaz Aasi

بشریٰ بی بی ، بنی گالہ منتقلی اور وسوسے

امتیاز عاصی
عمران خان اوران کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی خصوصی عدالت سے سزا یابی کے بعد ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے آیا بشریٰ بی بی کی بنی گالہ منتقلی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ اس سے قبل میاں نواز شریف اور مریم نواز کو عدالت نے سزا سنائی تو دونوں کو سنٹرل جیل اڈیالہ میں رکھا گیا لہذا بشریٰ بی بی کو جیل میں رکھنے کی بجائے بنی گالہ کی رہائش کو سب جیل کیوں قرار دیا گیا ہے؟ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ایک جیل میں ویسے نہیں رکھا گیا بعض حلقوں کی طرف سے ان کے لئے یہ نرم گوشہ کا نتیجہ تھا تاکہ دونوں ہفتہ میں ایک دو مرتبہ آسانی سے ملاقات کر سکیں۔ پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان ماسوائے عوام کے اس وقت تمام حلقوں کے لئے ناپسندیدہ ہیں لہذا دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کا مقصد کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں بلکہ عمران خان کو زیادہ سے زیادہ کوفت پہنچانے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے البتہ ان خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا بشریٰ بی بی اور عمران خان کو ایک جیل میں نہ رکھنے کا مقصد ان کی اہلیہ محترمہ سے خصوصی باز پرس ہو سکتی ہے ورنہ جیل مینوئل میں کہیں نہیں لکھا میاں بیوی کو الگ الگ جیل میں رکھا جائے۔ پنجاب کی جیلوں میں عام طور پر کوئی خاتون حوالاتی عمرقید یا دس سال تک قید ہو جائے تو ایسی خواتین کو سنٹرل جیل ملتان میں بھیجا جاتا ہے تاکہ ان سے قانون کے مطابق مشقت کرائی جا سکے۔ توشہ خانہ کیس کے فیصلے کی نقل ہمارے پاس موجود نہیں ہے دونوں کو قید بامشقت کی سزا دی ہے تو قانونی طور پر بشریٰ بی بی کو مشقت سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک عمران خان کی مشقت کی بات ہے وہ سابق وزیراعظم ہیں لہذا یہ جیل حکام کی صوابدید پر منحصر ہے وہ ان سے مشقت کراتے ہیں یا نہیں لیکن جہاں تک قانون کی بات ہے عدالت کسی کو قید بامشقت کی سزا دے تو اس سے مشقت کرائی جاتی ہے۔ ایسے قیدی جو جیل والوں سے سب اچھا کر لیں انہیں مشقت سے بری الزمہ قرار دیا جاتا ہے ۔
ایک سابق وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان کو وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جو سابق وزیراعظم نواز شریف کو قید کے دوران میسر تھیں۔ کئی سال پہلے تک ایسے قیدیوں کے لئے اے کلاس کی سہولت ہوا کرتی تھی جو ختم کرکے صرف بی کلاس ( یعنی بہتر کلاس) رکھی گئی ہے۔ آزاد حیثیت میں انسان کیا کچھ نہیں کرتا ہے قید کی صورت میں خواہ کوئی بڑے سے بڑا ہو اس کے معمولات میں بڑی تبدیلی آجاتی ہے۔ آزاد زندگی میں انسان دنیا کی رنگینوں میں مصروف عمل رہتے ہوئے یاد الٰہی سے غافل رہتا ہے جیل جانے کے بعد اس کے معمولات زندگی بدل جاتے ہیں۔ پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی اور قرآن کریم کی تلاوت سے اسے دلی سکون حاصل ہو سکتا ہے ورنہ بڑی سے بڑی سہولت قیدی کو آرام و راحت نہیں دے سکتی۔ اللہ کے بنی حضرت یوسفٌ نے قید خانے کو ویسے تو جہنم کا ٹکڑا قرار نہیں دیا تھا۔ قید خانہ واقعی ایک طرح سے جہنم کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے جہاں انسان کو ماسوائے حق تعالیٰ کی یاد کے کسی صورت سکون میسر نہیں ہو تا۔ بعض حلقوں کی طرف سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزائوں پر شادیانے بجائے گئے جو کسی طور مناسب نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کسی سیاست دان کو سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے فریق ثانی کی طرف سے بیان بازی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ انسان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے وقت ایک سا نہیں رہتا نہ کسی نے عمر بھر جیل میں رہنا ہے۔ کسی سیاسی رہنما کو سزا کی صورت میں خواہ اس کا تعلق کسی جماعت سے ہو سیاست دانوں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے سیاست کے بے رحم کھیل میں کوئی کسی بھی جیل جا سکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے سیاست دانوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیلوں میں ڈالا گیا۔ چودھری ظہور الٰہی کو جیسے بھینس چوری کرنے کے الزام میں جیل بھیجا گیا۔ ذوالفقار
علی بھٹو نے ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمہ بنا کر انہیں بلوچستان کی مچھ جیل بھجوا دیا۔ ستم ظرفی دیکھئے نواب اکبر خان بگٹی جوان دنوں بلوچستان کے گورنر تھے۔ بھٹو نے ان سے ظہور الٰہی کو جان سے مارنے کی خواہش ظاہر کی، جس کے جواب میں شہید بگٹی نے کہا وہ ہمارے مہمان ہیں۔ بھٹو دور میں سیاسی رہنمائوں کو دلائی کیمپ میں رکھا گیا۔ شیخ مجیب الرحمان، ولی خان، شیر باز مزاری اور اختر مینگل کے والد سردار عطاء اللہ مینگل وغیرہ کو حیدر آباد ٹربیونل میں قید رکھا گیا جس کا مقصد انہیں غداری کے مقدمہ میں پھانسی دینا تھا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد ان تمام رہنمائوں کو آزادی دے دی جس کے بعد بھٹو صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا المناک باب ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے سابق وزیراعظم عمران خان نے جس طرح عوام میں مقبولیت حاصل کی وہ اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکے۔ توشہ خانہ سے گھڑی لینے کے جرم میں سزا یاب نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہیں سزا تحفہ میں ملنے والی گھڑی کی فروخت پر ملی ہے۔ وہ گھڑی نہ بیچتے ان کے خلاف مقدمہ نہیں بن سکتا تھا۔ ان سے پہلے نواز شریف، آصف علی زرداری، سید یوسف رضا گیلانی ، مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی نے کئی ایک قیمتی تحائف توشہ خانہ سے وصول کئے۔ عمران خان کو ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیے جہاں تک ان کی سزائوں کی بات ہے ان کے پاس ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فورم موجود ہیں۔ عمران خان کو اپنے معاملات ٹھیک کرنے میں خاصا وقت لگے گا۔ وزیراعظم ہوتے ہوئے انہوں نے سیاسی رہنمائوں کو چور چور کہہ کر پکار کر کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی الٹا بر ا تاثر قائم کیا ہے۔ وہ کسی کو چور نہ بھی کہتے جن کے خلاف مقدمات تھے عمران خان ان پر توجہ دیتے وہ بھی ان کی طرح جیلوں میں ہوتے ۔ بہرکیف عمران خان کا قید خانے میں جانا سیاست دانوں کے لئے سبق ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button