CM RizwanColumn

وکھری ٹائپ کے انتخابات

سی ایم رضوان
مہنگائی، بیروزگاری اور عدم توجہی کا خطرناک حد تک شکار پاکستانی قوم دیکھ رہی ہے کہ انتخابات 2024 کی اس مہم سے پہلے ہر سٹیک ہولڈر منافقت کے ہمالیہ پہاڑ پر بیٹھا نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف غریبوں کی ہمدرد پارٹی ہے جو بظاہر اس وقت انتخابی مہم میں سب سے زیادہ متحرک نظر آ رہی ہے۔ وہ اپنی اپنی سابقہ اتحادی ن لیگ پر یکطرفہ کڑی نکتہ چینی بھی کر رہی ہے اور جس پارٹی کے قائد کی بندوق کی شست پر اس پارٹی کے روح رواں تھے اس پارٹی کو نہ صرف تنقیدی تیروں کا نشانہ نہیں بنا رہی بلکہ اس کا انداز خطابت بھی اپنائے ہوئے ہے۔ دوسری طرف ن لیگ ہے جو اپنے اوپر تنقید کرنے والوں پی پی پی کے جیالوں کو تو کچھ نہیں کہہ رہی البتہ نسبتاً گم سم انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ تیسری جانب ریاستی مشینری ہے جو ایک ایسی جماعت کے خلاف بھی موثر اور حتمی کارروائی سے گریزاں ہے جو کہ اس وقت خطرناک حد تک ملک کے لئے سکیورٹی رسک بنی ہوتی ہے۔ اوپر سے الیکشن مہم میں ایک گہری تبدیلی یہ آئی ہے کہ روایتی سیاسی ریلیاں، منشوروں کے کتابچے تقسیم کرنے اور گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے کی مہم اب جدید ترین ڈیجیٹل حکمت عملی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈٰیا پر مختلف انتخابی موضوعات پر لائیو سٹریم اور ریکارڈڈ ویڈیوز آڈیوز جاری کی جا رہی ہیں۔ نئے، پرانے جلسے جلوس بھی سوشل میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں۔ متحارب جماعتوں اور ان کے امیدواروں نے بھی اپنی زیادہ تر توجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مرکوز کر دی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس عروج نے سیاستدانوں کی مصروفیات کو بھی نئی شکل دے دی ہے۔ زیادہ تر امیدوار اب فیس بک، ٹویٹرایکس اور انسٹا گرام جیسے پلیٹ فارمز پر ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے مقابلے میں مصروف ہیں۔ سیاسی جماعتیں ووٹرز کے رویے کو سمجھنے، انتخابی مہم کی حکمت عملیوں کی تشکیل اور انتخابی نتائج کی پیش بندی کے لئے مختلف سرویز اور ڈیجیٹل آبزرویٹری سسٹم کی طاقت کا استعمال کر رہی ہیں۔ مختلف ڈیموگرافکس کے ڈیٹا سیٹس کی بڑے پیمانے پر باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جارہی ہے اور حاصل شدہ اعداد و شمار کے تجزیات کے ذریعے سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو توڑ کر نئے سانچے میں ڈھال رہی ہیں، جس سے وہ سیاسی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیوں پر فوری ردِ عمل ظاہر ہونے اور اس کے ادراک کے بھی قابل ہو گئی ہیں۔
انتخابات کے ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں چار سالوں کے دوران 21 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ خواتین ووٹرز کی تعداد 2018 کے مقابلے میں 46.7 ملین سے بڑھ کر 58.5 ملین ہو گئی ہے جو کل رجسٹرڈ ووٹرز کا تقریباً 46 فیصد ہے۔ دوسری طرف مرد ووٹرز کل ووٹرز کے 54 فیصد یا 68.5 ملین پر مشتمل ہیں۔ الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق 18 سے 35 سال کی عمر کے ووٹرز کی تعداد میں 90 لاکھ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے، جس نے انہیں ایک اہم قوت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب جو سیاسی پارٹی اپنے حق میں نوجوانوں کو پولنگ سٹیشن تک لانے میں کامیاب ہو گئی وہ ان انتخابات کے نتائج اپنے حق میں تبدیل کر سکتی ہے۔ گو کہ اس انتخابی معرکے میں جیت کی سب سے مضبوط دعویدار پاکستان مسلم لیگ ن ہے، اس کی ڈیجیٹل ٹیم بھی انتخابات میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہونے کی دعویدار ہے۔ اس پارٹی کے منشور میں ان کا یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ انہیں نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اس جماعت کے بقول اس نے بہت سی اصلاحات بھی نافذ کی ہیں جن میں سے سب سے اہم آنے والی نسل کو ن لیگی قیادت کے ساتھ بحث میں شامل کرنا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد آن لائن سیمینار اور ورکر کنونشن کا انعقاد بھی کیا گیا ہی مگر جو سیاسی ذہن ڈیجیٹل دنیا میں تیز ترین، موثر ترین انداز میں نظر آ رہا ہے وہ ن لیگ کے مخالف ہے۔ لگتا یوں ہے کہ ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم خود اس کے خلاف ہی کام کر رہی ہے اور اس کے مخالف میڈیا کو ذہن سازی کا زیادہ موقع مل چکا ہے اور مل رہا ہے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ خرچہ مسلم لیگ ن کا ہو رہا ہے اور ویڈیو مواد، انفوگرافکس اور آن لائن اشتہارات کے ذریعے ووٹروں تک پہنچنے والا مواد اس کے خلاف ہوتا ہے۔ گو کہ ڈیجیٹل میڈیا پر انٹرایکٹو نوعیت کا مواد بھی نشر کیا جا رہا ہے اور غیر معمولی پیمانے پر ووٹرز کے ساتھ رابطے اور مکالمے کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے مگر اس گرانڈ پر بھی ن لیگ کہیں نظر نہیں آ رہی۔
چونکہ موجودہ انتخابی منظر نامے میں مصنوعی ذہانت بھی ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر ابھری ہے۔ وسیع ڈیٹا سیٹس کا تجزیہ کرنے، ووٹنگ کے نمونوں کی پیش گوئی کرنے اور ممکنہ ووٹرز کی شناخت کرنے کی صلاحیت آنے والے انتخابات میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ پیش کردہ نتائج سے جڑے خدشات بھی دوسری جانب موجود ہیں، ووٹر ڈیٹا کی غلط ہینڈلنگ، جعلی خبروں کا پھیلا اور یکطرفہ تعصب کے امکانات نے بھی اس انتخابی عمل کی صحت کے بارے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ کیمبرج اینالیٹیکا سکینڈل، ڈیٹا پرائیویسی جیسے مسائل کے لئے ایک عالمی ویک اپ کال بھی مضبوط ضابطوں اور حفاظتی اقدامات کی فوری ضرورت کا تقاضا کرتی ہے۔ جمہوری اصولوں اور انفرادی رازداری کے تحفظ کے ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال میں توازن رکھنا بھی پاکستانی انتظامیہ کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔ نہیں لگتا کہ الیکشن کمیشن کی اس حوالے سے کوئی تیاری ہے۔ اس حوالے سے بھی تشویش ہے کہ انفرادی فائدہ کی بنیاد پر بنائی گئی سوشل میڈیا کمپنیاں انتخابات جیسے اہم قومی معاملے کے لئے کس طرح ریئل ٹائم رزلٹ رپورٹنگ جیسے معاملات میں کرپشن اور بے قاعدگی سے پاک ہو گی۔
گو کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے پاکستان میں ووٹر کی شمولیت کو مزید قابل رسائی بنا دیا ہے۔ انتخابی مہم کی نوعیت میں بھی انقلاب برپا کر دیا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی نے بھی ووٹروں کو محدود حد تک ہی بااختیار رکھا ہے کیونکہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی جھوٹ، پروپیگنڈے، مفروضوں، مصنوعی ذہانت اور یکطرفہ الزامات کو ہی گیم چینجر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ جس میں حقیقی جمہوریت اور قوم کی مجموعی اخلاقی اقدار کو موت دے دی گئی ہے۔ سابقہ سیدھے سادھے بالواسطہ تجزیے کی بجائے اب ووٹرز کے ذہنوں میں سوشل میڈیا پر دکھائے گئے پروپیگنڈا پر مبنی تجزیوں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ زمین پر موجود گلیوں، نالیوں، سولنگ، سڑکوں، پینے کے پانی، نکاسی آب، مہنگائی، بیروزگاری، لوٹ مار، رشوت ستانی، لاقانونیت، تعلیم، صحت کی ناکافی سہولیات اور سموگ زدہ ماحولیاتی مسائل سے ہٹ کر ووٹرز کی ترجیحات میں وہ پراپیگنڈا شدت کے ساتھ شامل ہو چکا ہے جو ان پارٹیوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنے اپنے سوشل میڈیا فورمز پر پھیلا رکھا ہے جس میں پسندیدگی کا معیار صرف الزام، گالی کی بنیاد پر پیش کیا گیا مبہم استدلال ہے۔ یعنی سوشل میڈیا پر بھی ووٹروں کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا جا رہا ہے اور ظلم یہ کہ اس سنگین مذاق کو بھی قوم کی اکثریت حقیقت کے بہت قریب سمجھ بیٹھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی ایک طرف وہ سیاسی طاقت ہے جو حقیقت میں کام کرنا چاہتی ہے اور اس کے پاس ایک مکمل ویژن اور تعمیر وطن کا پورا پروگرام ہے مگر سوشل میڈیا پر اس کے حق میں پروپیگنڈہ نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسری طرف وہ شعبدہ باز ہیں جو پہلے دن سے آج تک صرف سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کر کے قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں اور آئندہ بھی اسی طرح سے بیوقوف بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ شعبدہ باز قوم کو بیوقوف بنا کر اپنے حق میں کر لینے کے بعد اب پورے نظام کو ہی مفلوج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان حالات میں خاص طور پر ان انتخابات کو لے کر پوری قوم ایک دوراہے پر آن کھڑی ہے کہ آیا وہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا سے متاثر ہو کر محض مفروضوں کی بنا پر اپنے اگلے پانچ سالوں کی قسمت تحریر کرے گی یا زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سیاسی طاقت کو منتخب کرے گی جو حقیقت میں قوم و ملک کو سنگین مسائل سے نکالنے کا ارادہ اور قابل بھروسہ پروگرام رکھتی ہے۔ ان حالات میں موجودہ وکھری ٹائپ کے انتخابات میں سرکاری مشینری کو شفاف، جامع اور منصفانہ جمہوری عمل کو یقینی بنانے کے لئے کام کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button