ColumnRoshan Lal

الیکشن کمیشن ، انتخابات اور انتخابی عملہ

روشن لعل
اس وقت اعلان کردہ شیڈول کے مطابق انتخابات کے انعقاد کو تو عام لوگ یقینی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں مگر اس بات پر یقین کرنے کے لئے تیار دکھائی نہیں دیتے کہ 8فروری کو منعقدہ انتخابات ہر کسی کے لیے شفاف اور قابل قبول ہونگے۔ یہاں گزشتہ دو عام انتخابات میں سے ایک کو آر او الیکشن کا طعنہ دے کر اور دوسرے پر سازش کے تحت آر ٹی ایس سسٹم سست رو بنانے کا الزام لگا کر دھاندلی زدہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بدقسمتی سے اس مرتبہ بھی ایسا ہوتا نظر آرہا ہے کہ نہ تو آئندہ انتخابات کو لوگ آسانی سے شفاف ماننے کے لیے تیار ہونگے اور نہ ہی انتخابی نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کیا جائے گا۔ آئندہ عام انتخابات کے نتائج پر سابقہ انتخابات کا سایہ کس حد تک ہوگا اس کا اندازہ الیکشن کمیشن کو بھی ہے مگر اس کے باوجود یہ ادارہ ان ہی راستوں پر چل کر آئندہ انتخابات منعقد کرانے کی تیاریاں کر رہا ہے جن پر چلتے ہوئے دھاندلی زدہ قرار دیئے گئے تمام سابقہ انتخابات کرائے جاتے رہے۔
گو کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کردار بہت وسیع ہے مگر عام انتخابات منعقد کرانے میں دیگر سرکاری محکموں سے مستعار لیے گئے انتخابی عملے کا کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔ آئندہ انتخابات کے آخری مرحلے کو سرانجام دینے کے لیے جس انتخابی عملے کا کردار انتہائی سمجھا جاتا ہے ، آج کل اس کی تربیت کا عمل جاری ہے۔ تربیت سے قبل الیکشن کمیشن نے یہ تخمینہ لگایا کہ اس مرتبہ عام انتخابات منعقد کرانے کے لیے پورے ملک میں 10لاکھ کے قریب عملہ درکار ہوگا۔ عام انتخابات کے لیے درکار عملہ مختلف قومی و صوبائی محکموں سے مستعار لیا گیا ہے جس میں سب سے زیادہ تعداد شعبہ تعلیم سے وابستہ لوگوں کی ہے۔ اس عملہ میں سب سے اہم کام پریذائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسروں کا ہوتا ہے لہذا ان کی تربیت کے لیے خاص سلیبس اور پروگرام مرتب کیا گیا ہے۔ اس تربیتی پروگرام میں شاید ہی کچھ ایسا ہو جسے ماضی کے تربیتی پروگراموں سے مختلف اور نیا کہا جاسکے۔ حسب سابق اس مرتبہ بھی پریذائیڈنگ افسروں کو تربیت کے دوران صرف یہی بتایا جارہا ہے کہ انتخابی عمل کے دوران انہیں کم و بیش 30ذمہ داریاں پوری کرنا ہونگی۔ ان ذمہ داریوں میں پولنگ سٹیشن پر امن و امان برقرار رکھنا، پولنگ کا عمل بروقت شروع کروانا، صرف رجسٹرڈ ووٹر کو پولنگ سٹیشن کے اندر داخل ہونے کی اجازت دینا، بیلٹ باکس کو مکمل طور پر سیل کرنا، انتخابی عمل شروع ہونے سے دو گھنٹے قبل پولنگ عملے کی موجودگی یقینی بنانا، فارم 45اور فارم 46کا ریکارڈ اپنے پاس رکھنا، سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو فارم 45کا رزلٹ فراہم کرنا وغیرہ شامل ہے۔ جس ملک میں تمام سابقہ عام انتخابات کو دھاندلی زدہ کہا گیا ہو حیرت ہے کہ وہاں انتخابی عملہ کے تربیتی پروگرام میں ایسا کوئی مواد شامل نہیں، جس کے ذریعے انہیں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہو کہ یہاں دھاندلی ہونے یا کئے جانے کے کیا امکانات ہیں اور ان امکانات کی موجودگی میں انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے عملہ کو کیا خصوصی کردار ادا کرنا ہوگا۔
وطن عزیز میں کس حد تک دھڑلے سے دھاندلی کئے جانے کا امکان ہے اس اندازہ قومی اسمبلی کے سابقہ حلقہ 75، ڈسکہ ، سیالکوٹ میں 19فروری 2021ء کو منعقدہ ضمنی الیکشن میں ثابت ہو چکی دھاندلی سے لگایا جاسکتا ہے۔ مذکورہ دھاندلی کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ 20پریذائیڈنگ افسر ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد انتخابی نتیجہ ریٹرننگ افسر کو جمع کرانے کی بجائے رات بھر غائب رہے تاکہ صبح اصل گنتی کی بجائے دھاندلی کے تحت تیار کیا گیا نتیجہ جمع کرایا جائے۔ اس دھاندلی کی انکوائری رپورٹ کے مطابق ، دھاندلی کے عمل میں صرف اس وقت کی حکومتی پارٹی کے لوگ ہی نہیں بلکہ مقامی پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ ترین افسران بھی شامل تھے۔ اس واردات میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے پریذائیڈنگ افسروں نے بعد ازاں یہ بیان دیا تھا کہ ان پر دبائو ڈال کر انہیں دھاندلی کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا۔ ڈسکہ میں ضمنی الیکشن کے دوران ہونے والے دھاندلی کے اس واقعہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئندہ ہر الیکشن سے قبل انتخابی عملہ اور خاص طور پریذائیڈنگ افسروں کو تربیت کے دوران یہ لازمی بتایا جاتا کہ اگر کوئی بڑا حکومتی عہدیدار، کسی ایجنسی کا اہلکار یا پھر کوئی دوسرا صاحب اختیار ، ان پر دبائو ڈال کر دھاندلی کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے تو انہیں کیا رد عمل ظاہر کرنا چاہیے ۔ افسوس کہ یہاں ہر الیکشن دھاندلی زدہ قرار دیئے جانے کے بعد بھی انتخابی عملہ کو تربیت کے دوران یہ بتانا ضروری خیال نہیں کیا جاتا کہ ممکنہ دھاندلی کے سدباب کے لیے ان کا کردار کیا ہونا چاہیے۔
ممکنہ دھاندلی کے سد باب کے لیے انتخابی عملے کی ضرورت اور جواز کے مطابق تربیت کرنا دور کی بات، یہاں تو الیکشن کمیشن یہ تک طے نہیں کر سکا کہ وفاقی و صوبائی محکموں سے لیے گئی جن لوگوں کو انتخابی عمل کے لیے تعینات کیا جاتا ہے ان کی اہلیت اور صلاحیت کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیے۔ اس مرتبہ الیکشن کمیشن کی طرف سے مختلف محکموں سے جو عملہ طلب کیا گیا اس کے لیے انہیں صرف یہ کہا گیا کہ انتخابی ڈیوٹی کے لیے گریڈ ایک سے گریڈ انیس تک کے تمام سرکاری ملازموں کی فہرست بھیجی جائے۔ شاید گریڈ بیس ، اکیس اور بائیس کے افسروں کو دیگر سرکاری ملازموں سے بہت زیادہ افضل سمجھ کر الیکشن ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے جو عملہ تعینات کیا ہے ان میں سب سے زیادہ تعداد شعبہ تعلیم سے وابستہ لوگوں کی۔ محکمہ تعلیم میں اچھی خاصی تعداد میں بصارت سے محروم اساتذہ بھی موجود ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن نے جس چٹھی کے تحت دیگر محکموں سے انتخابی عملہ طلب کیا اس میں بصارت سے محروم یا سپیشل لوگوں میں شمار سرکاری ملازموں کو واضح طور پر استثنیٰ دیا جاتا مگر نہ جانے کیوں ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ سرکاری ملازموں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60برس ہے مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ ریٹائرمنٹ سے ایک یا دو سال پہلے نہ صرف ان کی کام کرنے کی استعداد انتہائی کم ہو جاتی ہے بلکہ ان کی بڑی تعداد شوگر اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ الیکشن کی ڈیوٹی انتہائی محنت طلب اور تھکا دینے والی مشقت کرنے جیسا کام ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی بے نیازی کی انتہا ہے کہ اس نے ان لوگوں کو بھی الیکشن ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جن کی ریٹائرمنٹ میں ایک یا دو سال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ کیونکہ انتخابی عملہ کی اہلیت اور استعداد کے لیے کوئی ایس او پی نہیں بنایا گیا اس لیے اگر ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکا کوئی سرکاری ملازم اپنی ڈیوٹی ختم کرانے کے لیے کسی ضلعی الیکشن کمیشن کے دفتر جاتا ہے تو وہاں کا عملہ اس کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن چاہے کچھ اور نہ کرے مگر اس کی طرف سے ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچ چکے سرکاری ملازموں کو الیکشن ڈیوٹی سے مستثنیٰ ضرور قرار دیا جانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button