ColumnTajamul Hussain Hashmi

جیش العدل کون ہے؟

تجمل حسین ہاشمی
ایران نے منگل کے روز پاکستان میں میزائل اور ڈرون سے حملے کئے۔ ایران کا کہنا تھا کہ ہم نے جیش العدل کے ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون سے حملے کئے ہیں۔ پاکستان نے ان حملوں کی مذمت کی اور اپنے سفیر کو واپس بلا لیا اور ایرانی سفیر کو پاکستان آنے سے منع کر دیا۔ اعلیٰ سفارتی تعلقات بھی منقطع کر دیئے۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان متعدد ذرائع موجود ہونے کے باوجود یہ غیرقانونی عمل ہوا ہے۔ پاکستان کا کہنا تھا نتائج کی ذمہ داری ایران پر عائد ہوگی۔ پاکستان کا بارڈر 4ممالک سے جڑا ہوا ہے، جن میں ایران بھی شامل ہے۔ ٹوٹل بارڈر 6774کلومیٹر ہے، جس میں ایران کا بارڈر 909کلومیٹر ہے۔ جڑے ان تین بارڈرز سے پاکستان کو دہشتگردی کے خطرات درپیش ہیں۔ ایران کو جیش العدل سے خطرات ہیں اور ایسے کئی خطرات پاکستان طویل عرصہ سے برداشت کر رہا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں ریاست پاکستان کو کئی لسانی اور علیحدگی پسند تنظیموں کا سامنا ہے۔ سکیورٹی فورسز کے آپریشن مسلسل جاری ہیں۔ کئی دہشت گرد آپریشنز میں مارے گئے۔ علیحدگی پسندی کی تحریکیں دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی پیدا کر رہی ہیں۔ تین جنوری کو ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر کرمان میں ہونیوالے بم دھماکوں میں 103افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ایران نے 15اور 16جنوری کو شام، عراق اور افغانستان میں میزائل اور ڈرون حملے کئے اور کہا کہ یہ حملے داعش کے ٹھکانوں پر کئے گئے ہیں جبکہ پاکستان میں ہونیوالے حملوں کے بارے میں ایرانی حکومت کا کہنا تھا کہ یہ حملے جیش العدل کے ٹھکانوں پر کئے گئے ہیں۔ پاکستان نے ایرانی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی حملہ سے سرحدوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ یقیناً ایران کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ملکی سالمیت اور سرحدوں کے اصولوں کے مطابق کسی ملک میں کارروائی کرنا ریاست کی سلامتی کو للکارنا ہے۔ خواہ اس کارروائی کا مقصد علیحدگی پسند تنظیموں کیخلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ایران کے اس موقف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کے متعدد ذرائع موجود ہوں۔ بلوچ، جو اب پاکستان، ایران اور افغانستان میں رہائش پذیر ہیں، یہ کبھی عربوں، یونانیوں، ہندوستانیوں، منگولوں، فارس اور ترک سلطنتوں کا بھی حصہ تھے۔ برطانیہ نے 1872ء میں، جب ہندوستان اس کی سلطنت کا حصہ تھا تب ایران، افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ سرحدوں کا تعین کیا تھا۔ اس وقت بلوچستان ایک نیم خودمختار علاقہ تھا۔ 1897ء میں ایک بلوچی سردار حسین خان نے ایران کے قاجار خاندان کیخلاف بغاوت کردی۔ قاجار خاندان 1789ء سے 1925ء تک ایران کا حاکم رہا ہے۔ حسین خان کی بغاوت کے بعد اگلی تین دہائیوں تک بلوچ قبائل خودمختار رہے۔ 1906ء میں ایران میں آئینی بالادستی کے بعد قاجار خاندان کمزور ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں رضا شاہ پہلوی نے 1925ء میں قاجار خاندان کو نکال باہر کیا اور ایران کی باگ ڈور سنبھال لی۔ رضا شاہ پہلوی نے ایران کے صوبوں کی ازسرنو سرحدیں متعین کیں، بلوچستان کو کرمان اور ہرمزگان صوبوں میں تقسیم کر دیا اور بلوچوں کو ایران بھر میں رہنے کی ترغیب دی۔ قاجار سے لیکر پہلوی خاندان اور پھر ایران کے اسلامی انقلاب سے اب تک ایرانی بلوچستان تہران کیلئے ایک مسئلہ بنا رہا ہے۔ کیونکہ ایران کے بلوچ صرف اپنی مسلکی آزادی ہی نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے بلوچ علاقوں پر مشتمل ایک گریٹر بلوچستان کے آرزو مند ہیں۔ اس لئے بلوچستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ایران میں بلوچ قبائل کو قومیتی شناخت کے علاوہ اپنی مسلکی بقا کا بھی مسئلہ درپیش ہے اور سرکاری سکولوں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس پر بھی بلوچوں کو شدید تحفظات ہیں۔ ذریعہ تعلیم بھی فارسی ہے جبکہ بلوچ اپنی زبان پر فخر کرتے ہیں۔ سماجی اور معاشی پسماندگی کی وجہ سی بھی یہاں بلوچ علیحدگی پسندی کی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔ 2003ء میں جنداللہ کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس نے اپنے حقوق کیلئے عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ایران میں جنداللہ کے سربراہ عبد المالک ریگی کی 2010ء میں پھانسی کے بعد سے بلوچ علیحدگی پسند کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، جن میں جیش العدل، انصار الفرقان، حرکت الانصار وغیرہ شامل ہیں۔ ایرانی عسکریت پسند گروہ جنداللہ نے 2012ء میں اپنا نام بدل کر جیش العدل رکھ لیا تھا جو سب سے خطرناک اور منظم گروہ کے طور پر سامنے آیا۔ یہ گروہ ایران میں فوج، سرکاری حکام پر حملوں میں ملوث ہے۔ یہ ایران میں خودکش حملے بھی کر چکا ہے جن میں سے صرف 2009ء میں اس گروہ نے مسجد اور ایک مارکیٹ میں دو خود کش حملے کرکے 70سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اگلے سال اس نے چاہ بہار میں ایک مسجد پر خودکش حملہ کرکے 40افراد کو ہلاک کیا۔ امریکہ نے 2010ء سے اس گروہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ ایرانی بلوچوں کی طرح پاکستان میں بھی کچھ بلوچ عناصر علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ لیکن ان تنظیموں سے دونوں ممالک کو خطرات ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 909کلومیٹر کی طویل سرحد خاصے دشوار گزار علاقوں پر مشتمل ہے۔ سرحد کی مکمل بندش ممکن نہیں۔ بلوچ افراد بھی آر پار جاتے رہتے ہیں اور ان کی آڑ میں سمگلنگ بھی عروج پر ہے۔ اس لئے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کیلئے چیلنج بی ایل ایف جیسی تنظیمیں ہیں، جو کارروائی کرکے ایران چلی جاتی ہیں اور ایران کا موقف یہ ہے کہ جیش العدل جیسی تنظیموں کے ٹھکانے پاکستانی سرحد کے اندر موجود ہیں۔ ماضی میں ایران کی افواج ان کے تعاقب میں پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کر چکی ہیں۔ کلبھوشن جیسے دہشت گرد ایرانی دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہی تھے۔ ایران یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان میں جنداللہ یا جیش العدل کے ٹھکانے ریاست کی سرپرستی میں چل رہے ہیں جوکہ ایک غلط موقف ہے۔ پاکستان نے کبھی بھی دہشت گردوں کی سرپرستی نہیں کی کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا کئی دہائیوں سے شکار ہے۔ پاکستان میں موجود بلوچ علیحدگی پسندوں کے محفوظ ٹھکانے ایران میں ہیں، جس کے ثبوت واضح ہیں۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک میں تنائو بھی ہے اور معاملات بھی چل رہے ہیں لیکن حالیہ حملہ حیران کن ہے۔ پاکستان کی سرحد پر کراس بارڈر فائرنگ کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان بارڈر سکیورٹی کا میکنزم موجود ہے جس کی وجہ سے تنائو آتا بھی ہے تو ڈی فیوز ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسا میکانزم انڈیا اور افغانستان کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ جمعرات 18جنوری 2024ء کی صبح پاکستانی سکیورٹی اداروں نے ایران کے علاقے میں ٹارگٹڈ آپریشن کیا اور دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کر دئیے، جو ایرانی کارروائی کا موثر جواب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button