Column

کمیونیکیشن سے ’ ڈویلپمنٹ ‘ کیسے ممکن ہے !

تحریر : ظہیر احمد سلہری
الفاظ تو سانچے ہیں۔ ان کے اندر معانی معاشرہ بھرتا ہے۔ اور پھر زبان وجود میں آتی ہے ، اس میں تنوع اور ثقافتی رنگا رنگی ہوتی ہے۔ جو زبان جتنے زیادہ کلچرز کو چھو کر گزرے وہ اتنی زیادہ قابل قبول ہوجاتی ہے۔ جیسے پاکستان میں چاروں صوبوں کی الگ الگ علاقائی زبانیں ہیں۔ کشمیر کی اپنی زبان ہے۔ مگر اردو سب کو اپنے دامن میں یوں سمو لیتی ہے کہ قومی زبان کا درجہ اسے حاصل ہے۔ ابلاغ زندگی کی وجہ بھی ہے اور ضرورت بھی۔ معاشرے اسی کے ذریعے وجود میں آتے، تشکیل پاتے اور پھر پھلتے پھولتے ہیں۔ ابلاغ یعنی کمیونیکیشن ہر ذی روح کرتا ہے۔ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک۔ باتوں سے لے کر اشاروں کنایوں تک، سب ابلاغ کے زمرے میں آتا ہے۔ جو جس قدر زبان کا ماہر ہو وہ اس قدر ڈھنگ سے اپنی بات سمجھا سکتا ہے۔ ایسے افراد کو ماہر ابلاغیات کہتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے زمانے میں ادیب ہی صحافی ہوا کرتے تھے۔ صحافت کی زبان بھی ادبی زبان تھی۔ کم پڑھے لکھے شخص کے لئے اس کو پڑھنا اور سمجھنا ذرا مشکل تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سہل اور عامیانہ زبان میں پیغام کی ترویج و اشاعت کی ضرورت کو محسوس کیا گیا تو صحافتی زبان وجود میں آئی۔ یہ اس قدر خوبصورتی سے وجود میں آئی کہ پھر اخبار پرائمری پاس شخص سے لے کر پی ایچ ڈی تک سب پڑھ سکتے تھے اور کسی کو ناگوار نہ گزرتا۔
میڈیا کو سب سے پہلے کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس کے ذریعے بیوپاریوں نے لوگوں کی ذہن سازی کی۔ اپنی پراڈکٹ بنائی۔ اس کو استعمال کرنے بارے لوگوں کو بتایا۔ اس کے فائدے گنوائے اور لوگ تجربہ کرنے سے شروع کرتے اور بعد ازاں اس کے عادی ہوجاتے۔ یوں میڈیا کے ذریعے کاروبار کو فروغ ملا۔ صنعتی انقلاب کے بعد خاص طور پر جب مشینیں چوبیس گھنٹے چلنے لگیں تو ان سے پیدا ہونی والی مصنوعات کی کھپت کے لئے ضروری تھا کہ لوگوں کے طرز زندگی پر وار کیا جائے اور انہیں مجبور کیا جائے کہ صنعت کار کی بنائی ہوئی اشیاء کو استعمال کریں ۔ اس پر فخر کریں ۔ برینڈڈ کا کانسپٹ فروغ پایا، آپسی مقابلے بازی شروع ہوئی۔ پبلک امیج کی فکر ہوئی ۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ کار کی جیبیں ا بھرنے لگیں۔ تجوریاں کھنکنے لگیں۔ ابلاغ کے ماہرین نے اس پر غور و خو ض کیا کہ اگر میڈیا کے پیغامات کے ذریعے چیزیں بیچی جاسکتی ہیں تو آئیڈیاز بھی کسی کمیونٹی کے اندر سرایت کر سکتے ہیں۔ چنانچہ لوگوں کے رویوں کو بدلنے کے لئے میڈیا کی بندوق کے اندر ڈالے جانے والے میسجز خاص مصالحہ لگا کر ڈیزائن کئے گئے کہ جب وہ میسجز ٹارگٹ تک پہنچیں تو ان کی
زندگیوں کو بالکل اسی طرح متاثر کریں یا بدل دیں جیسا کہ میسج بنانے والے نے سوچا تھا۔ اب اس قسم کے میسج یا پیغامات کون بنائے گا۔ اور یہ جو جرنلزم ہوگی اس کو کیا نام دیا جائے گا۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں سے ’ ڈویلپمنٹ جرنلزم ‘ کا وجود قائم ہوا۔ کسی بھی معاشرے میں لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کی ذہنی سے لے کر معاشی ترقی کے لئے جو کوششیں رویوں کی تبدیلی کے لئے کی جاتی ہیں۔ ان کو ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کہا جاتا ہے ۔
آغاز میں سمجھا جا تا تھا کہ یہ کام تو کوئی بھی کر سکتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ بطور سائنس اس کمیونیکیشن کی اہمیت کو سمجھا گیا۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے نام سے باقاعدہ ڈگریاں اور سپیشلائزیشن کا آغاز ہوا۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے ماہرین کی سب سے زیادہ ضرورت ترقی پذیر ممالک کے اندر ہے ۔ جہاں لوگوں کو فرسودہ روایات اور خیالات کے چنگل سے نکالنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اس کے بغیر جتنی مرضی سرمایہ کاری کی جائے یا انفرا سٹرکچر بنایا جائے وہ سب تباہ ہوجائے گا۔ ذہن سازی کی بہت اہمیت ہے ۔ زندگی بارے مثبت ذہن سازی کے بناکسی کے پاس بہت زیادہ پیسہ آجائے تو وہ اس سے اسلحہ خریدے گا اور اس کی نمائش کر کے فخر کرے گا جبکہ اگر ڈویلپمنٹ کیمپینز کے ذریعے سرمائے کے بہترین استعمال پر لوگوں کی تربیت ہو تو وہ اسی رقم سے اپنے علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے کام کرنے لگ جائیں گے۔ پاکستان میں اس وقت سب سے خطرناک مسئلہ آبادی کا ہے ۔ آبادی کو بڑھنے سے تب تک روکا ہی نہیں جاسکتا جب تک لوگوں کی ذہن سازی نہ کی جائے ۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی مثالیں دیکھنا ہوں تو موجود ڈی جی محکمہ بہبود آبادی پنجاب محترمہ ثمن رائے صاحبہ کی زیر قیادت بننے والی میڈیا کیمپینز کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ابلاغیات کے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے پورے پنجاب میں شعور پھیلانے کا جو عزم کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ لیکن آبادی کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں کہ جن کا حل صرف اور صرف رقم خرچ کرنے میں نہیں بلکہ عوام الناس کے رویے اور ذہنوں کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے نام سے ایک الگ شعبہ قائم کیا ہے جس کی قیادت ڈاکٹر عائشہ اشفاق کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کی علمبردار ہیں۔ پراگریسو اپروچ کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبہ میں وسیع علم رکھتی ہیں۔ انہوں نے مشرق و مغرب کے تعلیمی اداروں سے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ پڑھایا بھی ہے ۔ آپ کتاب اور کی بورڈ کے درمیان حائل خلیج سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ وقتا فوقتا ایسے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کراتا رہتا ہے کہ جس سے اکیڈیمیا اور پریکٹیکل فیلڈ میں حائل پردے بھی ہٹتے جارہے ہیں۔ ماہرین اپنے تجربات بیان کرتے ہیں اور طالب علم ان سے اپنے تجسس کے مطابق سوالات
کرتے ہیں۔ حال ہی میں ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات میں یوتھ کے کردار پر بلاگ لکھنے اور ویڈیو بنانے کا مقابلہ ہوا۔ ادارہ کے حمید نظامی ہال میں سائبر قوانین اور خواتین کے لئے محفوظ سائبر سپیس کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کرایا گیا جس میں دانشور سلمان عابد، ڈاکٹر عائشہ اشفاق، ڈاکٹر سویرا شامی اور صحافی شیراز حسنات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ حکومت پنجاب کے اربن یونٹ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اشتراک سے ڈیجیٹل ورلڈ میں میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔ طالب علموں کی ریسرچ میں سمجھ بوجھ اور مہارت کو بہتر بنانے کے لئے دو روزہ ایس پی ایس ایس ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی جس راہ پر چل پڑا ہے ، یہاں سے ایسے ماہرین پیدا ہوں گے جو معاشرے میں حقیقی تبدیلی کے علمبردار بنیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button