Column

زخموں سے چُور ننھے عمر کی کہانی

تحریر : سیدہ عنبرین
امریکیوں کی کتوں سے محبت دنیا بھر میں مشہور ہے، امریکی عورت زندگی میں اپنے خاوند یا دوستوں کا منہ جتنی بار چومتی ہے، اس سے دوگنا مرتبہ وہ اپنے پالتو کتے کا منہ چومتی ہے۔ یہ معاملہ صرف ایک کتے تک نہیں رکتا، کتے کی عمر 7سے 9برس تک ہوتی ہے، ایک کتے کے مرنے کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کتا اس کی زندگی میں اسی طرح آتا ہے جس طرح ایک خاوند کے بعد دوسرا یا ایک دوست کے بعد دوسرا، تیسرا۔ دنیا بھر کے کتوں میں امریکی کتوں کو دنیا کا خوش قسمت کہا جا سکتا ہے، جس کے اتنے ہی ناز اٹھائے جاتے ہیں جتنے امریکی خاوند یا دوست کے، امریکی کتے کو مالکن کے ساتھ سونے کا شرف بھی حاصل ہوتا ہے، ایک معقول تعداد میں امریکی عورتیں اپنے ایسے خاوند سے طلاق لینے میں کوئی عار نہیں سمجھتیں جو ان کے پسندیدہ کتے سے پیار نہ کرے یا اس سے محبت کا برتائو نہ کرے۔ کتوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اب پالتو کتے کو خاوند کے ساتھ ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھا کر ساتھ کھانا کھلایا جاتا ہے، کتا اپنے برتن یعنی پلیٹ اور کٹورا خود اٹھا کر نہیں رکھ سکتا، لہٰذا بعض امریکی خواتین یہ کام خود کرتی ہیں اور انکی عدم موجودگی میں یہ فرض شوہر کے ذمے ہوتا ہے، پالتو کتا سیر پر ساتھ جاتا ہے، بعض اوقات گاڑی کی اگلی نشست پر جگہ پاتا ہے۔ طبیعت خراب ہونے پر کلینک جاتا ہے، اب تو کتوں کیلئے بیوٹی پارلر بھی کھل چکے ہیں، جہاں اس کے غسل، مساج اور بال سنوارنے، کاٹنے کے علاوہ ان کے سنگھار کا انتظام بھی ہوتا ہے، کتوں کا فیشن شو ہوتا ہے، خوبصورت اور صحت مند کتے انعام پاتے ہیں، کتوں کو سخت سردی سے بچانے کیلئے گرم ملبوسات پہنائے جاتے ہیں، اس کی شرٹ اور پینٹ علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتی بلکہ مکمل سوٹ ون پیس ہوتا ہے، اس لباس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ کتے کو واش روم جاتے ہوئے اپنی مالکن سے یہ نہیں کہنا پڑتا کہ ذرا میری زپ کھول دیں، وہ اس معاملے میں خود کفیل ہوتا ہے اور کئی کام کپڑے پہنتے پہنتے کر لیتا ہے، پھر اس فطری اور ضروری کام کے بعد اسے غسل کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ امریکیوں میں غسل کی ضرورت کی کوئی اہمیت نہیں، ٹشو پیپر کلچر اپنی جگہ بنا چکا ہے، جسے اب کسی اور کلچر سے خطرہ نہیں۔ کتوں سے انتہائی قریبی تعلق رکھنے کے بعد امریکیوں کی کئی عادات کتوں سے ملتی جلتی ہیں، کتوں کو اپنی سیکس، خوراک اور آرام کے علاوہ کسی اور چیز میں دلچسپی کم ہی ہوتی ہے، یہی حال امریکیوں کا ہے، کتے کے دل میں کسی کیلئے رحم نہیں ہوتا، سو امریکی بھی ایسے ہی ہیں، وہ کتے کی تکلیف پر بے چین ہوتے ہیں، انسانوں کی تکلیف انہیں کوئی تکلیف نہیں دیتی، وہ اسے تکلیف میں مبتلا شخص کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں، بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے امریکہ میں بسنے والا عام آدمی ہو یا کسی دوسرے ملک سے تلاش معاش و روزگار کیلئے آیا ہوا کوئی شخص ہو، ہر ایک کی زندگی مشین کی طرح ہے، ہر شخص کی اپنی ایک کہانی ہے اور کسی کو دوسرے کی کہانی سننے کی جستجو نہیں ہوتی، خاص طور پر اگر امریکیوں کو اندازہ ہو کہ کوئی انہیں اپنی دکھ بھری کہانی سنانا چاہتا ہے تو وہ اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ اس معاشرے میں اگر کسی بڑے شہر کے بڑے آڈیٹوریم میں ہزاروں افراد جمع ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ آج کوئی شخص انہیں اپنی دکھ بھری کہانی سنانے کیلئے آ رہا ہے اور وہ سب بے چینی سے اس کے منتظر ہوں تو یقین کر لیجئے کہ امریکی کت خانے میں بسنے والے یہ لوگ کتنے عظیم ہیں وہ اپنے کام کاج اور حسین شام قربان کر کے کسی کا دکھ سننے آئے ہیں۔
نیویارک میں ایک کمیونٹی سینٹر کا آڈیٹوریم خواتین و حضرات سے کھچا کھچ بھرا تھا، جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی، کچھ ادھیڑ عمر خواتین اور مرد بھی تھے، سب کی نظریں سٹیج کی طرف لگی تھیں۔ مہربان سے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ آج کے مہمان کا تعلق فلسطین کے علاقے غزہ سے ہے۔ مہمان کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی، وہ سادہ سے پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک وجیہہ تعلیم یافتہ شخص تھا، وہ سٹیج پر آیا تو ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے اسے بھرپور انداز میں خوش آمدید کہا۔ مہمان نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تو ہال میں اتنی خاموشی تھی کہ سوئی بھی گرے تو اس کی آواز سنی جا سکے۔
اس نے بتایا کہ وہ فلسطین ہے اور عرصہ دراز سے تو اپنے اہلخانہ اور قریبی عزیزوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ غزہ جس کی اسرائیل نے گزشتہ تین ماہ میں اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، وہاں کوئی رہائشی عمارت، سکول و کالج، ہاسپٹل سلامت نہیں، سب کچھ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی کہانی بہت پرانی ہے، لیکن اس کا اختتام 22اکتوبر 2023ء کو ہو گیا۔ وہ اور اہلخانہ ایک رات محو خواب تھے کہ اسرائیلی طیاروں نے اندھا دھند بمباری شروع کر دی جس کے نتیجے میں اس کے خاندان کے تمام افراد مارے گئے، اس کے گھر میں اس کے ماں باپ، 3بہنیں، 2بھائی، 15بھانجے، بھتیجے، بھانجیاں، بھتیجیاں تھیں، جو سب کے سب مارے گئے، صرف ایک بھتیجا زندہ بچا، جو عمارت کے ملبے تلے 3روز تک دبا رہنے کے بعد اس حالت میں نکالا گیا کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر زخم نہ آیا ہو، اس بچے کا نام عمر ہے اور اس کی عمر 3برس ہے۔ عمر کے ماں باپ، بہن، بھائی، کزن اور بزرگ سب مارے جا چکے ہیں۔ عمر کے 4چچا، تایا، 3خالائیں اور 14کزن اب اس دنیا میں نہیں ہیں، جبکہ اس کے اپنے زخموں سے خون رس رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب خاموش نہیں رہے گا بلکہ دنیا کو اس بربریت کی تفصیل بتائے گا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مغربی میڈیا کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے لائے گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ فلسطینیوں پر ظلم روا رکھنے، ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور انہیں زندہ رہنے کے حق سے محروم رکھنے اور ان کی زمین پر غاصبانہ قبضے میں اسرائیل کے علاوہ مغربی میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے، جس کے بارے میں، میں نے بات کرنی، اسے سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کا فیصلہ کیا، جس پر یہ میڈیا سخت ناراض ہوا، پھر انہوں نے اپنے ایجنڈے کے مطابق مجھ سے رابطہ کیا اور انٹرویو میں میرے خاندان کے افراد کی ہلاکت پر اینکر نے ڈھٹائی سے کہا یہ تو نئی بات نہیں، یہ تو جنگ میں ہوتا ہی ہے، پھر مجھے کہا گیا کہ تمہارے خاندان کا قاتل اسرائیل نہیں بلکہ حماس ہے، جبکہ میں اور دنیا خوب جانتی ہے میرے خاندان کا قاتل کون ہے۔ ایک اینکر نے کہا کہ آپ نفرت پھیلانے سے باز رہیں اور مغربی میڈیا کی غیر حقیقت پسندانہ کوریج کے خلاف بات نہ کریں۔ ایک صحافی نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ مسلسل میرے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے، وہ مجھ پر زور دیتے رہے کہ میں ہر بات کا ذمہ دار حماس کو ٹھہرائوں، اسرائیل گزشتہ 74برس میں جو ظلم و ستم ڈھاتا رہا ہے۔ یہ مغربی میڈیا ہے جو اس سب کو درست قرار دیتا رہا ہے اور سب سے بڑا مجرم ہے، جو حقائق سامنے نہیں آنے دیتا، وہ فلسطینیوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے اور ان کیلئے صرف موت تجویز کرتا ہے، جو فلسطینی بچوں کو زندہ رہنے کا حق صرف اس لئے نہیں دیتا کیونکہ ان کا رنگ سفید نہیں ہے۔ میں نے 3سالہ زخمی عمر کی کہانی اس کے خاندان کی کہانی آپ کے سامنے رکھ دی ہے، آپ کا فرض ہے آپ اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں۔ شہدا کی تعداد 25ہزار ہو چکی ہے، اتنے ہی افراد زخمی ہیں، جو دنیا کی طرف مدد و حمایت کیلئے دیکھ رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button