سیاسی اشتہارات اور انتخابات

آصف علی درانی
اشتہار کا لفظ تو ہم سب بچپن سے سنتے ہیں، وہ اس لیے کہ چھوٹے بڑے سب ٹیلی ویژن پر اشتہارات دیکھتے ہیں۔ اشتہار کے فوائد بھی بہت ہیں اور نقصانات بھی، اشتہار کے بغیر کوئی بھی چیز مارکیٹ میں ترقی نہیں کرتی۔ اب ظاہری بات ہے کہ کسی نئی چیز کے بارے میں عوام کو علم نہ ہو تو وہ مارکیٹ میں کیسے مشہور ہوگی۔ اشتہارات عوام ڈراموں، ٹاک شوز اور مختلف قسم کے پروگراموں میں ضرور دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی اشتہار عوام نہ دیکھیں تو پھر اس اشتہار کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تو اس لیے نشر ہوتا ہے تاکہ لوگ دیکھیں اور پروڈکٹس کی پروموشن ہوجائے، مطلب مشہور ہوجائے، اگر میڈیا کی بات کریں تو جس طرح گاڑی پٹرول کے بغیر نہیں چل سکتی، اسی طرح میڈیا بھی اشتہارات کے بغیر نہیں۔ اگر میں کہوں کہ اشتہارات ’’ فیول آف میڈیا‘‘ ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ پھر اشتہار کی بہت سی اقسام ہیں۔ اور ہر میڈیا چینل کا اپنا ایک ایجنڈا ہوتا ہے، وہ اسی قسم کے اشتہارات کی تشہیر کرتا ہ ۔ بل بورڈز بھی اشتہار کی تشہیر کا ایک ذریعہ ہیں۔ اشتہارات کے بغیر ’’ میڈیا آرگنائزیشنز ‘‘ نہیں چل سکتیں کیونکہ یہ ذریعہ معاش ہے۔ اگر آج کے دور میں ہم پرائیویٹ چینلز کے اشتہارات کو ایک نظر دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے وہ اشتہار نہیں بلکہ ایک عجیب چیز ہوتی ہے۔ سوچ رہا تھا کہ موجود دور کے اشتہارات کے شروع میں چینلز یا ایڈورٹائزنگ کمپنی یہ لکھیں کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یہ نہ دیکھیں تو بہتر ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ذہن میں دو باتیں پیدا ہوئیں کہ ٹی وی پر جو اشتہارات چل رہے ہیں اس کا تو میرے پاس یہی حل ہے لیکن بازاروں میں جو بڑے بڑے بل بورڈ لگے ہوئے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ اور اگر بدقسمتی سے یہی ہوا جو میری خواہش ہے تو ریٹنگ کیسے بڑھے گی، کچھ دن پہلے دوستوں کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہا تھا تو ایک ایسا اشتہار بل بورڈ پر دیکھا کہ میں ششدر رہ گیا کہ اگر کوئی بچہ جب امی یا ابا کے ساتھ یہ دیکھے گا تو وہ کیا سوچے گا۔ اس بات کا تو کسی کو پتہ نہیں، لیکن میں بتاتا ہوں کہ اشتہارات میں خواتین بطور شو پیس استعمال ہوتی ہیں اور سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ دیکھنے والے اس قسم کے اشتہارات بہت شوق سے دیکھتے ہیں، وہ کس لیے دیکھتے ہیں اس پر بات کرنا غیر مناسب ہے۔ انتخابات میں کم وقت باقی ہے۔ آپ لوگوں کو سڑکوں اور بازاروں میں مختلف قسم کے سیاسی اشتہارات دیکھنے کو ملیں گے۔ وہی سیاست دان جو پانچ سال میں اپنے علاقے میں پانچ مرتبہ بھی نہیں گئے تھے، آج کل انہوں نے بھی اپنے علاقوں کا رخ کر لیا ہے۔ جس طرح شروع میں اشتہارات کے بارے میں لکھا۔ سیاسی اشتہارات یعنی جسے ’’ پولیٹیکل ایڈورٹائزمنٹ ‘‘ کہتے ہیں، انتخابات سے دو تین مہینے پہلے جب سیاسی بندہ پانچ سال بعد اپنے علاقے میں جاتا ہے، اور علاقے میں غریب آدمی کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ میں دعا کے لیے آیا ہوں، چار سال پہلے جو آپ کا بیٹا مر گیا تھا۔ اس کے علاوہ الیکشن کے دنوں میں یہی سیاستدان ٹیلی ویژن پر مختلف قسم کے ٹاک شوز میں حریف سیاستدان یا سیاسی جماعت کے بارے میں بولتے ہیں کہ انہوں نے پانچ سالہ اقتدار یا حکومت میں کچھ نہیں کیا، کوئی ترقی یافتہ کام نہیں کیا، میں جب وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ بنو گا تو میں فلاحی منصوبے شروع کرونگا، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرونگا اور خاص کر نوجوانوں کو نوکریاں دونگا۔ انتخابات قریب ہیں، اور ٹیلی ویژن پر سب پاکستانی اس قسم کی گفتگو ہر وقت سنتے ہیں، اب یہ باتیں سیاسی اشتہارات یعنی ’’ پولیٹیکل ایڈورٹائزمنٹ ‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ ہے اور ہر پانچ سال بعد یہ تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ ہر پانچ سال بعد ہمارے ملک پاکستان کے سیاستدان اس قسم کی گفتگو جلسوں، گلی محلوں اور ٹیلی ویژن پر کرتے ہیں، ایک اٹھ کر دوسرے کو نیچا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا اس سے بھی زیادہ چالاک ہوتا ہے۔ وہ اٹھ کر اس کے غلط کاموں اور پالیسیوں پر باتیں شروع کرتا ہے۔ اس طرح اگر پراپیگنڈے کی بات کریں تو اس میں تحریک انصاف پہلے نمبر ہے، کیونکہ اس کی سوشل میڈیا ٹیم کافی مضبوط اور وسیع ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان جیل میں ہے، بات غلط نہیں ہے، لیکن صرف ایک بندہ جیل میں ہے باقی تو سب باہر ہے۔ جو فیک نیوز پھیلاتے ہیں، فیک ویڈیوز، پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا خاص کر ایکس ’’ ٹویٹر ‘‘ پر غلط ٹرینڈز چلاتے ہیں ان کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور پوچھ گچھ کرنا بہت ضروری ہے۔ دوسری بات کہ عمران خان جیل میں ہے، ان کو ویسے نمائش کے لیے بند نہیں کیا ہے، بلکہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے پابند سلاسل ہیں، لیکن جنہوں نے عمران خان کو پاکستان اور عوام پر مسلط کیا تھا وہ کھلے پِھر رہے ہیں، ان کو بھی قانون کے کٹہرے کھڑا کرنا بہت ضروری ہے۔ الیکشن سے پہلے میرے خیال میں یہ کام بہت ضروری ہے، تاکہ جس سیاستدان کا یہ خیال ہے کہ وہ بھی عمران خان کی طرح وزیر اعظم بنے ، اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو ورنہ اس کی شکل میں ایک اور عمران پانچ سال کے لیے ملک و قوم پر مسلط ہو جائے گا۔ موجودہ دور میں پاکستان جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ بہت بری ہے، الیکشن کمیشن نے تو انتخابات کا اعلان کر دیا ہے، ملک میں الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، لیکن شفاف انتخابات موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں شامل بلکہ سالوں سے رواج چلتا آرہا ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت الیکشن میں کامیاب ہو جاتی ہے ، تو مخالف سیاستدان اور اس کی پوری پارٹی تنقید شروع کرتی ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ نے منتخب کرایا، ہم یہ الیکشن نہیں مانتے، اس میں دھاندلی ہوئی ہے اور مختلف قسم کے جواز پیش کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہی گفتگو الیکشن کے بعد شروع ہوگی بلکہ ابھی سے نظر آرہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔ اس دائرے کو توڑ کر اس سے باہر نکلنا اور اصل حقائق کو جاننا بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر پاپولیرٹی کی بات کریں تو اس وقت قومی سطح پر دو جماعتیں، پہلے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ ن پاپولر ہے۔ بہت سے تحریک انصاف والے یہی کہتے ہیں کہ نہیں پاکستان میں صرف پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان پاپولر ہیں اور ووٹ بھی زیادہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات کو ایک زاویے سے درست مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر عمران خان سوشل میڈیا پر بہت زیادہ پاپولر ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں اگر پی ٹی آئی سپورٹرز پاپولیرٹی کی بات کر رہی ہے تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان پاپولر ہے، لیکن سوشل میڈیا پر، کیونکہ ان کے سپورٹرز صرف اس کو دیکھتے ہیں کہ خان کے فیس بک اور ایکس’’ ٹویٹر‘‘ پر فالوورز زیادہ ہیں یا ان کی سوشل میڈیا ٹیم جو پوسٹ کرتی ہے دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ان پر زیادہ ویوز اور لائیکس آتے ہیں تو سوشل میڈیا کی حد تک عمران خان پاپولر ہے۔ فیصلہ آپ لوگ کریں جو سیاسی پارٹی آن لائن جلسہ کرتی ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ پاپولر ہے، لیکن شاید وہ لوگ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں آج بھی صرف عمرانی جمہوریت ہے۔