معلومات تک رسائی ہر پاکستانی کا بنیادی حق

مظہر کریم ملک
1766میں سویڈن میں سب سے پہلے معلومات تک رسائی کا قانون بنایا ۔ 1946ء میں اقوام متحد ہ نے معلومات تک رسائی بنیادی انسانی حقوق تصور کیا ۔ دنیا میں اس حوالے سے سب سے مضبوط قانون سازی افغانستان میں موجود ہے ۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان 130ممالک میں ہوتا ہے جہاں معلومات تک رسائی کا قانون موجود ہے جس کے تحت کوئی بھی پاکستانی شہری سرکاری اداروں سے متعلق معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار معلومات تک رسائی کا قانون 2002ء میں نافذ کیا گیا جبکہ 2004ء میں حکومت نے اس قانون کو موثر بنانے کے لیے قواعد بنائے۔ 2004 ء میں متعارف ہونے والا یہ قانون معلومات تک انتہائی محدود رسائی دیتا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرکاری راز داری کے ایکٹ کی موجودگی تھی۔ جبکہ اس کا دائرہ کار بھی صرف وفاقی حکومت اور اس کے اداروں تک محدود تھا۔ اس پرانے قانون کے تحت سرکاری اداروں سے معلومات کی فراہمی کے لیے 21دن کا عرصہ درکار تھا جو ماہرین کے مطابق ایک طویل وقت تھا، اور اس مقصد کے لیے مقرر کردہ فیس بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر تھی۔ اس قانون کے تحت معلومات کے حصول کا عمل اس قدر پیچیدہ تھا کہ 2005ء سے 2010ء تک صرف 51لوگوں نے اس قانون کے تحت معلومات تک رسائی کے لیے حکومت سے رجوع کیا۔ تبدیلی کا عمل 2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد شروع ہوا جس کے مطابق پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19اے کو شامل کیا گیا۔ اس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ قومی اسمبلی نے مشرف دور میں منظور شدہ ’ رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002‘ کو تبدیل کرتے ہوئے ’ دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017‘ پاس کیا تھا۔ اس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں 2017ء میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا جس کے بعد سرکاری معلومات کا حصول ممکن ہو گیا ہے پاکستان کے آئین میں 2010ء میں کی جانے والی 18ویں ترمیم کے ذریعے معلومات تک رسائی کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا جس کے بعد 2017ء میں معلومات تک رسائی کا قانون پارلیمان نے منظور کر لیا۔ اس قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے سات نومبر 2018ء کو پاکستان انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔
پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013میں منظور ہوا، اسی طرح خیبرپختونخوا میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013نافد العمل ہوا، سندھ انفارمیشن کمیشن اور شکایات سننے کے لیے پاکستان انفارمیشن کمیشن کا قیام 2018ء میں قانونی چارہ جوئی کے بعد عمل میں آیا۔ پنجاب ٹرانسپیرنسی ایکٹ کے سیکشن 15میں لکھا ہے کہ کمیشن پبلک انفارمیشن آفیسر کو اپنے دفاع کے مواقع فراہم کرنے کے بعد معلومات فراہم نہ کرنے پر 50ہزار روپے تک جرمانہ عائد کر سکتا ہے جبکہ خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کا سیکشن (3)26بھی کمیشن کو سرکاری محکموں پر معلومات کی عدم فراہمی کی صورت میں جرمانے کا اختیار دیتا ہے۔ بلوچستان میں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2005نافذ تھا۔ دیگر صوبوں کے برعکس بلوچستان میں تاحال انفارمیشن کمیشن قائم نہیں ہوا، تاہم فروری 2021میں کو ’’رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ‘‘ منظور ہو چکاہے ۔ 2016ء ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد دنیا بھر میں فیک نیوز کا معمہ ایک عرصہ تک چلتا رہا، دنیا بھر میں غلط خبروں کی ایسی بہت سے مثالیں ہیں جس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کرونا وائرس کے دوران پاکستان میں بعض لوگوں کا خیال تھا کہ کرونا ویکسین لگوانے سے دو یا تین سال میں موت واقع ہوجائے گی کچھ لوگوں کا تو کہنا تھا کہ ایک یہ ایک کمپیوٹر چپ کی طرح ہے جس سے بعد میں انسان کو کنٹرول کیا جائے گا، اس سے پہلے پولیو ویکسین کے حوالے سے بھی بہت سے کیس سامنے آئے ہیں کہ اس ویکسین کی وجہ سے آنے والی نسل بچے پیدا نہیں کر سکے گی اور نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان اور پاکستان دنیا بھر میں صرف دو ممالک ہیں جہاں پر پولیو مرض باقی ہے، غلط خبروں کے باعث بڑے بڑے سانحہ بھی رونما ہوئے چند سال قبل کوٹ رادھاکشن میں ایک عیسائی جوڑے کو جلادیا گیا اس کے پیچھے بھی حقائق کچھ او ر تھے حالیہ واقعہ جڑانوالامیں چرچ سمیت عیسائی بستی کو نذر آتش کر دیا گیا، سیالکوٹ میں سری لنکن مینجر کو بھی قتل کیا گیا اگر ان سب واقعات میں تھوڑی سے احتیاط کی جاتی اور حقائق کو جانچنے کی کوشش کی جاتی تو شاید یہ سانحہ نہ ہوتے۔
پنجاب اسمبلی نے دسمبر 2013ء میں پنجاب شفافیت اور معلومات تک رسائی کا قانون منظور کیا جس کا مقصد صوبائی اداروں میں شفافیت کو بڑھانا ہے۔ فریڈرک نوومان فائونڈیشن نے صحافیوں کو با اختیار بنانے کے لیے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں جعلی خبروں اور تحقیقاتی صحافت کرنے کے لیے معلومات تک رسائی کے قوانین کا استعمال بتایا گیا۔ فریڈرک نوومان فائونڈیشن کے ہیڈ آف پروگرامز محمد انور نے اس بات پر زور دیا کہ صحافی معلومات تک رسائی کے قوانین استعمال کر کی اپنی تحقیقاتی صحافت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ وہ اس سلسلہ میں دوسرے صوبوں میں بھی صحافیوں کی تربیتی ورکشاپ کروا چکے ہیں۔ ورکشاپ کے دوران ماڈریٹر سید رضا علی نے کہا کہ صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے اور معلومات تک رسائی کے قوانین کے استعمال سے عوامی مفاد ات کے حوالے معلومات منظر عام پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قانون سازی کے منظر نامے پر بحث کرتے ہوئے، رضا علی نے وضاحت کی کہ معلومات تک رسائی کے حق کی ضمانت آئین پاکستان کے آرٹیکل19اے میں دی گئی ہے اور ملک میں پانچ معلومات تک رسائی کے قوانین موجود ہیں جو کہ اس حق کو استعمال کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکام پنجاب شفافیت اور معلومات تک رسائی کا قانون 2013ء کے تحت 14دنوں کے اندر معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ اس سے نا صرف اداروں میں شفافیت آئے گی بلکہ جوابدہی کو بھی فروغ ملے گا۔ انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ حبیب نے پیشہ ورانہ معیارات اور اخلاقیات کی پاسداری پر زور دیتے ہوئے جعلی خبروں کا مقابلہ کرنے کے لیے صحافیوں کو تنقیدی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنقیدی سوچ معلومات میں خلاء کی نشاندہی کرتی ہی اور مختلف پہلوں کی وضاحت کرتی ہے۔ مزید حقائق پر مبنی صحافت کی ثقافت کو فروغ دیتی ہے۔ اس سیمینار میں پنجاب بھر سے صحافیوں نے شرکت کی۔ وفاق کے علاوہ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پخوانخوا میں صوبائی سطح پر بھی اس حوالے سے قانونی سازی کے باوجود پنجاب، خیبر پختوانخوا کے علاوہ دیگر صوبوں میں ابھی بھی اس حوالے سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اگر اداروں کی شفافیت کو بڑھانا ہے تو معلومات تک رسائی کو آسان سے آسان تک بنانا ہوگا ۔ پاکستان میں آئینی تحفظ رکھنے والے چند اداروں کے علاوہ ہر قسم کی سرکاری معلومات حاصل کرنا شہریوں کا حق ہے۔ یہ جاننا آپ کا حق ہے کہ آپ کے ادا کردہ ٹیکس سے ملک میں کتنے اور کون کون سے منصوبے شروع کیے گئے ہیں یا اگر آپ سمجھنا چاہتے ہیں کہ آپ کو کسی ادارے میں نوکری کیوں نہیں دی گئی اور آپ کی جگہ یہ نوکری کسے ملی تو ایسا ممکن ہے کہ آپ میرٹ لسٹ طلب کر سکتے ہیں۔ آپ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ آپ کے علاقے کے افسران کی کارکردگی کیسی ہے یا آپ کی شکایت پر کیا کارروائی ہوئی ہے، یا آپ کے علاقے کے رکن اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے لیے کتنی رقم ملی اور وہ کہاں خرچ ہوئی، یا یہ کہ وزیراعظم کے ہمراہ کسی بیرون ملک دورے پر کون کون ان کے ہمراہ گیا تھا، کتنے اخراجات ہوئے، ہوٹلز اور کھانے کے بل کتنے تھے، اور ہاں یہ بھی کہ بنی گالہ سے وزیراعظم ہائوس تک ہیلی کاپٹر کے فیول کا خرچہ کتنا آتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ مگر قوانین ہوتے ہوئے بھی یہ معلومات حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ قانون کے مطابق قومی سلامتی کے امور سے متعلق معلومات، مثلاً دفاعی تنصیبات، پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات سے متعلق معلومات فراہم نہیں کی جا سکتی لیکن قانون سازی کے ساتھ ساتھ افسر شاہی کے مائنڈ سیٹ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ عام آدمی کا اداروں پر اعتماد بحال ہوسکے ۔