ColumnRoshan Lal

پنجاب، پنجابی اور پنجابیت

روشن لعل
’ پنجاب، پنجابی اور پنجابیت‘ کے زیر عنوان کالم لکھنے کا خیال گزشتہ دنوں لاہور میں منعقدہ انٹر نیشنل پنجابی کانفرنس میں شرکت کے دوران وہاں مختلف مقررین کی باتیں سننے کے بعد آیا۔ اس کانفرنس میں راقم نے بھی ’ پنج پانیاں دی دھرتی تے پانی دی تھوڑ دا مسئلہ‘ کے عنوان سے لکھا گیا اپنا کھوج پیپر پڑھا جس کا خلاصہ آئندہ کسی کالم میں بیان کیا جائے گا۔ فی الحال زیر نظر تحریر کے عنوان پر بات کی جائے گی ، مگر اس سے بھی پہلے ضروری ہے کہ انٹر نیشنل پنجابی کانفرنس منعقد کرنے والے احمد رضا پنجابی اور ان کی ٹیم میں شامل نوجوان رضا کاروں کو مبارکباد پیش کی جائے جن کی شبانہ روز محنت کے سبب لاہور میں پنجابیوں کو اپنی بولی، ثقافت، ادب اور مختلف لوک رنگوں سے مزین انتہائی کامیاب میلہ دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس کے میلے میں جہاں بہت سے رنگ تھے وہاں اس کا ایک انگ یہ بھی تھا کہ اس کے مختلف پروگراموں میں کئی لوگ اس قلق کا اظہار کرتے نظر آئے کہ پنجاب کے لوگ پنجابی بولی ہی نہیں بلکہ پنجابیت سے بھی کافی فاصلے پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اس کانفرنس میں جہاں پاکستانی یا مغربی پنجاب میں پنجابی زبان سے عدم رغبت پر افسوس کا اظہار دیکھنے کو ملا وہاں لوگ اس بات پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے بھی پائے گئے کہ بھارتی یا مشرقی پنجاب میں پنجابی سے وابستگی کی شرح اور معیار کافی تسلی بخش ہے۔ جہاں تک پنجابیت کا تعلق ہے تو اس معاملے میں مشرقی اور مغربی پنجاب کے لوگ یکساں رویوں کے حامل نظر آتے ہیں ۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر مغربی پنجاب میں صوفی، سنتوں کا انسان دوستی کا سبق بھلایا جا چکا ہے تو مشرقی پنجاب کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔
پنجاب میں بادشاہوں کے دور حکومت سے مہاراجہ رنجیب سنگھ کی حکمرانی تک ، مقامی حکمران اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے مذہب کو ہتھیار کے طور پر تو استعمال کرتے رہے مگر مختلف مذہبوں کے تعلق رکھنے والے عام لوگ کبھی، مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور فساد کرتے نہیں پائے گئے تھے۔ پنجاب کے لوگ میلوں ٹھیلوں کے شوقین تھے۔ یہاں کے دانشور شعرا رومانوی لوک کہانیوں پر مبنی لازوال شاعری تخلیق کرتے رہے ۔ اس خطے کے باسی کسی خاص مذہب کی عینک لگائے بغیر یہ کہانیاں پڑھتے اور ان سے محظوظ ہوتے رہے۔ پنجاب میں انگریز دور شروع ہونے کے بعد مذہبی رواداری، انسان دوستی اور بھائی چارے کی پنجابیت یہاں سے غائب ہونا شروع ہو گئی۔ انگریز دور میں مذہبی بنیادوں پر پنجاب میں جو تفریق شروع ہوئی اس کے نتائج 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت پنجابیوں کے ہاتھوں پنجابیوں کی قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ تقسیم کے بعد پاکستانی پنجاب میں اگر ایک ہی مذہب کے ماننے والے پنجابیوں نے فرقہ ورانہ فسادات میں ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت کا مظاہرہ کیا تو بھارتی پنجاب میں ہندو، سکھ تضادات کی شکل میں دونوں مذہبوں سے تعلق رکھنے والے پنجابی ایک دوسرے سے محاذ آرائی کرتے نظر آئے۔
پنجابیت کے مفقود ہونے کی شرح اگرچہ پنجاب کے دونوں حصوں میں کم و بیش ایک جیسی ہے مگر پنجابی زبان کے تحفظ، ترقی اور ترویج کی صورتحال پاکستانی پنجاب کی نسبت بھارتی پنجاب میں کہیں بہتر ہے۔ پاکستانی پنجاب کے پنجابیوں کی پنجابی زبان سے غیر وابستگی کو کچھ پنجابی پیارے انگریز دور حکومت میں کی گئی سازشوں کا نتیجہ قرار دے دیتے ہیں مگر وہ ایسا کہتے ہوئے یہ غور کرنا مناسب نہیں سمجھتے کہ اگر انگریزوں نے پنجابی زبان کے خلاف سازشیں کی تھیں تو ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان کی سازشوں کے اثرات صرف پاکستانی پنجاب میں ہی کیوں ظاہر ہوئے۔ مغربی پنجاب کے پنجابیوں کی پنجاب سے دوری کو انگریزوں کی سازشوں سے زیادہ دو قومی نظریے کی پنجاب میں مقبولیت اور قبولیت میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے قیام کی کوششوں کے دوران دو قومی نظریہ پنجاب کے مسلمانوں میں زیادہ مقبول نہیں ہوا تھا مگر تقسیم ہند کے دوران پنجابیوں نے مذہبی تفریق کی بنیاد پر جتنی بڑی تعداد میں ایک دوسرے کو قتل کیا اس کے بعد پاکستان میں یوپی سی پی سے ہجرت کر کے آنے والوں کے بعد مغربی پنجاب کے پنجابی دو قومی نظریے کو مقبول بنانے اور عام لوگوں پر لاگو کرنے میں سب سے زیادہ سرگرم نظر آئے۔ دو قومی نظریے کو مقبول بنانے اور لاگو کرنے کے دوران مغربی پنجاب کے پنجابیوں نے وسیع پیمانے پر پنجابی کی بجائے اردو زبان کو قومی زبان کے طور پر قبول کیا۔
تقسیم ہند کے بعد مغربی پنجاب میں تو پنجابی زبان کو لاوارث چھوڑ دیا گیا مگر مشرقی یا بھارتی پنجاب میں اس کے برعکس کام ہوا۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد مشرقی پنجاب کے پنجابیوں، جن میں ہندو پنجابیوں کی نسبت سکھ پنجابیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی نے نہرو کی مرکزی حکومت سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ پنجابی زبان کو بھارتی پنجاب میں اسی طرح لاگو کیا جائے جس طرح بھارت کے دیگر صوبوں میں وہاں کی مقامی زبانیں رائج ہیں۔ بھارت میں انڈین نیشنل ازم کے تصور کو پھیلانے کے لیے کوشاں نہرو کی کانگریس سرکار نے جب ٹال مٹول سے کام لینا شروع کیا تو خاص طور سکھ پنجابیوں نے ان کے سامنے ایسے الگ پنجابی صوبے کے قیام کا مطالبہ رکھ دیا جس میں وہ اپنی مرضی کے مطابق پنجابی زبان کی ترویج کر سکیں۔
یہاں یہ بتانا ضروری کہ جب بھارتی پنجاب کے پنجابی اپنی ماں بولی کی ترویج و ترقی کے لیے الگ پنجابی صوبے کا مطالبہ کر رہے تھے اس وقت پاکستان کے پنجابی اپنے صوبہ پنجاب کے الگ وجود کے خاتمے کو چپ چاپ قبول کر رہے تھے۔1954ء میں جب پاکستان میں صوبوں کا الگ وجود ختم کر کے مغربی پاکستان کے تمام علاقوں پر مشتمل ون یونٹ قائم کرنے کا عمل جاری تھا اس وقت یہاں پنجاب واحد صوبہ تھا جس کی اسمبلی نے نہ صرف متفقہ طور پر ون یونٹ کی قرارداد کو تسلیم کیا بلکہ اس عمل کے خلاف عوامی سطح پر کوئی برائے نام مزاحمت بھی دیکھنے میں نہ آئی۔ دوسری طرف بھارتی پنجاب میں یہ ہواکہ وہاں کے پنجابی لیڈروں نے 1954ء میں اپنی کیندر سرکار کو 18صفحات پر مشتمل ایک تاریخ دستاویز پیش کی جس میں پنجابی صوبے کے مطالبات اور دیگر وابستہ تفصیلات درج تھیں۔ اگر تقسیم شدہ پنجاب کے ایک حصے کے وجود کا خاتمہ قبول کر لیا گیا ہو اور دوسرے حصے میں پنجابی کی ترویج کے لیے خالص پنجابی صوبے کا قیام عمل لایا گیا ہو تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیوں پنجاب کے ایک حصے میں پنجابی پھلتی پھولتی اور دوسرے حصے معدوم ہوتی نظر آتی رہی۔
پاکستانی پنجاب میں پنجابی معدوم ہوتی ہوئی محسوس تو ہوتی رہی مگر پنجابیوں کی تمام تر بے اعتنایوں کے باوجود دھرتی میں پیوست اس کی مضبوط جڑوں کے باعث اسے یہاں سے معدوم نہیں کیا جاسکا۔ ۔ احمد رضا پنجابی کی لاہور میں منعقدہ انٹر نیشنل پنجابی کانفرنس میں پنجابی نوجوانوں کی کثیر تعداد میں شرکت دیکھ کر یہ لگا کہ اس دھرتی میں پیوست پنجابی کی مضبوط جڑوں سے دوبارہ نئے پودے برآمد ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ فراموش کی جاچکی پنجابیت کا پانی دیئے بغیر ان پودوں کا تناور درخت بننا ممکن نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button