Columnمحمد مبشر انوار

نوشتہ دیوار

تحریر : محمد مبشر انوار
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں کے مصداق، پاکستان اور پاکستانی سیاست اس سے مبرا نہیں ہے اور پاکستانی افق سیاست پر جتنی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتا ہیں، ان کا احاطہ کرنا ہی ممکن نہیں رہتا کہ ایک لمحہ ایک امکان نظر آتا ہے تو اگلے ہی لمحے پورا منظر بدل جاتاہے۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت بھی پاکستانی سیاست پر چھائی نظر آرہی ہے کہ کوئی ایک شخص بھی یقین کے ساتھ کسی بات کا اظہار نہیں کر سکتا تاہم صرف ’ ایک شخص‘ پاکستان میں ایسا ہے جسے واقعتا علم ہے کہ پاکستانی سیاست کا نقشہ کیا ہوگا؟ بظاہر امکان یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ ’ ایک شخص‘ ہر صورت نوازشریف کو وزیراعظم بنانے کی شدید خواہش رکھتا ہے او ر اس کے لئے جتن بھی کئے جا رہے ہیں، لیگی کارکنان ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ ’ بات ہو چکی‘ ہے لیکن کیا واقعی ایک جمہوری ریاست میں ایسا ممکن ہے؟ گمان تھا کہ نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد ایک طرف ان پر قائم مقدمات ختم کئے جائیں گے اور بقول مسلم لیگ ن یہ تمام مقدمات سیاسی انتقام ہیں اور تب کی ناانصافی کو اب پوری عزت و آبرو کے ساتھ ختم ہونا چاہئے، جو ہو بھی رہے ہیں، تو دوسری طرف یہ امید بھی تھی کہ نوازشریف و مریم نواز کی موجودگی میں عوام کا جم غفیر سڑکوں پر نظر آئیگا، لیکن یہ توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ گمان تو یہ بھی تھا کہ نوازشریف مذکورہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے لیکن حالات و واقعات اس کے برعکس نشاندہی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ نواز شریف کو چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کرنا پڑ رہا ہے اس کے باوجود حالات اس قدر گھمبیر نظر آرہے ہیں کہ ان کی کامیابی پر سوالیہ نشانات اٹھ رہے ہیں۔ دوسری اہم ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کا سیاسی قد کاٹھ دنیا جانتی ہے اور ان کے کردار سے متعلق بھی سب آگاہ ہیں کہ یہ سیاسی جماعتیں کس کے اشارہ ابرو کی محتاج رہتی ہیں، ان کے ڈوریں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں اور کیسے بوقت ضرورت یہ سیاسی جماعتیں اپنے اتحادیوں کو بھنور میں چھوڑ جاتی ہیں۔ ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود بھی نواز شریف اگر ایسی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں اترنے جا رہے ہیں، تو واضح ہے کہ اولا ان کو اپنی سیاسی جماعت کی کارکردگی ؍ کامیابی کا یقین نہیں یا بصورت دیگر ’ لو اور دو‘ میں یقینا ان سے ماضی کے پیادوں سے اتحاد کا مطالبہ کیا گیا ہوگا۔ دونوں میں سے کوئی بھی حقیقت ہو، یہ صاف نظر آرہا ہے کہ نوازشریف کو تنہا حکومت بنانے کی اجازت نہیں مل رہی اور بیساکھیوں پر قائم حکومت کا انجام ہر سیاسی جماعت کو بخوبی ہے، تو کیا نوازشریف اس پر سمجھوتہ کر پائیں گے؟ بالخصوص جب ان کا مزاج انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور ہر دور حکومت میں وہ بیساکھیوں کے بل ہی حکومت سازی کرتے رہے ہیں لیکن حکومت میں جاتے ہی اپنے مزاج کے عین مطابق نتیجہ، بیساکھیوں سے الجھنا اور حکومت گنوانا ہی رہا ہے۔اس وقت چھوٹی سیاسی جماعتوں کو سامنے رکھیں تو علاقائی جماعتیں تو اپنی جگہ لیکن دو
نومولود سیاسی جماعتوں کی سیاسی میدان میں شمولیت مگر اپنے دامن میں سیاسی ہیوی ویٹس کے علاوہ کھلا خرچ کرنے والی جماعتوں سے اتحاد اور ان کے مطالبات کیا نواز شریف کے لئے قابل قبول ہو سکتے ہیں؟ پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی کے لئے جگہ دینا کیا مسلم لیگ ن کے لئے ممکن ہو گا ؟ استحکام پاکستان پارٹی تو خیر کچھ زاد راہ رکھتی ہے جبکہ ق لیگ پر نظر دوڑائیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا لیکن نوازشریف کو چودھری شجاعت کی دہلیز پر بھی حاضری دینا پڑی گو کہ ریاستی وسائل کے باوجود متاثر کن شو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جبکہ استحکام پاکستان پارٹی کا مطالبہ صرف نشستوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ تو اس سے کہیں زیادہ پنجاب کی وزارت اعلی کے طلبگار ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلی اتنا تر نوالہ ہرگز نہیں کہ مسلم لیگ ن اتنی آسانی سے استحکام پاکستان پارٹی کو طشتری میں رکھ کر پیش کر دے کہ مسلم لیگ ن سے زیادہ کون اس حقیقت سے واقف ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلی کا مطلب وفاق میں حکومت سازی کا پہلا قدم ہے۔ جبکہ استحکام پاکستان پارٹی کی پشت پناہی بھی وہیں سے ہو رہی ہے کہ جہاں سے مسلم لیگ ن کو اقتدار میں لانے کے وعدے وعید سنائی دے رہے ہیں لیکن تنہا مسلم لیگ ن یا نوازشریف بلا شرکت غیرے حکمران بنیں، یہ بھی بہی خواہوں کو منظور نہیں کہ گزشتہ تین پارلیمانی مدتوں میں غیر آئینی اقدام کئے بغیر ہی حکومتوں کو گھر بھیجنے کی کامیاب مشق ہو چکی ہے لہذا پیش بندی کے طور پر یہ انتظامات ضرور سمجھے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں ایک نئی چیز دیکھنے کو مل رہی ہے جس کا مشاہدہ پیپلز پارٹی کی پوری تاریخ میں دیکھنے کو
نہیں ملا کہ باپ اور بیٹے کی خیالات میں بظاہر تصادم نظر آرہا ہے جبکہ یہ خاصہ بالعموم مسلم لیگ ن کا رہا ہے کہ بڑا بھائی شدید تنقید کرتا ہے جبکہ چھوٹا بھائی درمیانی راستہ تلاش کرنے کا ماہر ہے۔ زرداری و بلاول اگر واقعتا یہ کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں تو یقین طور پر ان کے لئے اتنا آسان نہیں ہوگا اور نہ ہی زرداری کے لئے یہ ممکن ہو گا کہ جو وعدے وعید رجیم چینج سے پہلے ان سے کئے گئے تھے وہ کما حقہ پورے بھی ہو سکیں، زیادہ سے زیادہ سندھ کی حد تک پیپلز پارٹی کو محدود رکھا جائے گا، جس کا تعین مقتدرہ بہت عرصہ پہلے کر چکی ہے۔ بلاول بظاہر اصولی سیاست کی طرف مائل نظر آتے ہیں لیکن رجیم چینج کے نتیجہ میں حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے اور ماضی میں اپنی والدہ و والد کے ساتھ انتقامی سیاست کو بھلا کر تحریک انصاف کے حلاف ہونے والی انتقامی کارروائیوں پر ان کی خاموشی بہرطور ان کے سامنے رہے گی۔تحریک انصاف کے ساتھ جو سلوک اس وقت روا رکھا جا رہا ہے، اس پر بیرسٹر اعتزاز احسن، سردار لطیف کھوسہ تو اظہار کر ہی رہے تھے اب ماضی کے ایک اور معروف معتوب سیاستدان جاوید ہاشمی بھی پھٹ پڑے ہیںکہ ان کے نزدیک، سیاسی کارکنان پر اس قدر تنگی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک نے پورے انتخابی عمل پر سوالیہ نشانات اٹھا دئیے ہیں کہ ایک طرف تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتیں ( پی ڈی ایم و پیپلز پارٹی وغیرہ) ہیں جو اپنی انتخابی مہم بھرپور انداز سے اور کہیں ریاستی وسائل کے ساتھ چلانے میں آزاد ہیں جبکہ تحریک انصاف کے لئے شدید ترین رکاوٹیں ہیں ۔ ایک ہی شہر میں دیگر جماعتوں کے لئے انتخابی جلسے کرے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن تحریک انصاف کے لئے قوانین کا سہارا لے کر تحریک انصاف کو پاور شو سے روک دیا جاتا ہے، دیگر سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان بھی الاٹ کر دئیے گئے ہیں لیکن تحریک انصاف کے لئے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ تحریک انصاف کو انتخاب لڑنے کی اجازت بھی ہو گی یا نہیں، انتخابی نشان کی الاٹمنٹ تو بعد کی بات ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے پی، کے کارکنان کا جذبہ اور وابستگی، دیگر صوبوں کے لئے مثال بن چکی ہے کہ کے پی، وہ صوبہ ہے کہ جہاں پاکستان بننے کے بعد سے کوئی بھی سیاسی جماعت دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ماسوائے تحریک انصاف کہ جس نے وہاں دو مرتبہ حکومت بنائی ہے اور آج بھی کے پی میں اس کا طوطی بول رہا ہے۔ زیر زمین تو خیر پنجاب میں بھی صورتحال یہی دکھائی دیتی ہے لیکن پنجاب میں عوام تاحال ویسے سڑکوں پر نظر نہیں آئے جیسے کے پی میں تمام رکاوٹوں کو دور کرکے جلسوں کو رونق بخش رہے ہیں۔ ممکنہ طور پر یہی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کا لائحہ عمل پنجاب میں مختلف ہو سکتا ہے اور وہ پنجاب میں اپنے ووٹرز کے لئے پریشانیاں پیدا کرنے کی بجائے، ان کا انتخابات کے دن پولنگ سٹیشن پر آنے کو ترجیح دیں گے۔ تحریک انصاف کو انتخابات میں بلے کے نشان پر حصہ لینے کی اجازت مل جاتی ہے تو گمان یہی ہے کہ تحریک انصاف اپنی اس حکمت عملی کو جامہ پہنائے اور اپنے ووٹرز کو متحرک کرکے پولنگ سٹیشن تک لے آئے، اس صورت میں جو ہوا اس وقت چل رہی ہے، منصوبہ سازوں کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے بصورت دیگر تحریک انصاف کا ووٹر پولنگ سٹیشن تک جائیگا اور اپنے ووٹ پر عمران خان کا نام لکھ کر مہر لگائے گا بظاہر یہی نوشتہ دیوار دکھائی دے رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button