ColumnImtiaz Aasi

نواز شریف مایوس کیوں؟

تحریر : امتیاز عاصی
لاہور میں مینار پاکستان کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے کسی سے سیاسی انتقام نہ لینے کا اعلان کرکے ماضی کے بیانیے کی نفی کردی تاہم چند روز قبل فوج اور عدلیہ کے احتساب کا بیاندے کر نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ سیاسی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے کوئٹہ اور گوجرانوالہ کے جلسوں میں ویڈیو خطاب میں انہوں نے جس طرح اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا وہ بھی ریکارڈ ہے۔ ماضی میں لوٹیں تو نواز شریف کو1990،1997اور 2013میں جس طرح اقتدار میں لایا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نوے میں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرکے نواز شریف کو اقتدار میں لایا گیا تو لاہور میں بے نظیر بھٹو نے بہت بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرکے سیاسی اور طاقتور حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے نواز شریف کو ہمیشہ طاقت ور حلقوں کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی ہے جن کے بل بوتے پر وہ اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ تازہ ترین صورت حال میں میاں نواز شریف وطن واپس تو آگئے ہیں۔ انتخابات سے پہلے جو سیاسی ماحول ہونا چاہیے وہ نواز شریف بنتا نہیں دیکھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ کی پنجاب میں مقبولیت کا یہ عالم ہے انتخابات میں جے یو آئی سے صوبے میں سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کرنے کو تیار ہے جو اس امر کی نشاندہی ہے پنجاب کو مسلم لیگ کا قلعہ تصور کرنے والوں کو اپنے صوبے میں کامیابی کا یقین نہیں۔ العزیزیہ ریفرنس سے بریت کے باوجود نااہلی کی تلوار بدستور نواز شریف پر ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کا قائد اور شریف خاندان کا سیاسی حریف جیل میں ہے اس کی جماعت بے شمار قدغنوں کے باوجود مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کرکے عوامی حمایت سے مخالف قوتوں کو پیغام دے رہی ہے عوام عمران خان کے ساتھ ہیں۔ میاں نواز شریف کو اس وقت جس بڑی جس مشکل کا سامنا ہے وہ ان کی نااہلی ہے ۔ انتخابات کو بہت کم وقت رہ گیا ہے نواز شریف کی نااہلی ختم نہ ہوئی تو لیگی رہنمائوں اور ورکروں کی تمام امیدوں پر پانی پھر جائے گا۔ لاہور میں پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں کیوں نکالا تھا اور کارگل کا قصہ چھیڑ کر وہ اپنے پرانے بیائنے پر واپس آگئے ہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں انہیں دوبارہ وزارت عظمیٰ کی امید نہیں ہے۔تعجب ہے نواز شریف اپنے کسی بیانیے پر مستقل مزاجی سے کھڑے نہیں رہتے بلکہ وقفے وقفے سے ان کی بیانیے میں تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے جس طرح عوام پی ٹی آئی کے جلسوں میں بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں مسلم لیگ نون کے جلسوں میں عوام کا بڑی تعداد میں شرکت نہ کرنا اس امر کا غماز ہے عوام مسلم لیگ نون سے مایوس ہیں۔ دراصل نواز شریف نے ماضی سے سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سے جو کچھ ہوا اس کے مقابلے میں مسلم لیگ نون سے وہ کچھ نہیں ہوا اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے قائدین نے سیاسی تدبر کا مظاہر ہ کرتے ہوئے نہ صرف حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا بلکہ جمہوری عمل کو برقرار رکھنے کے لئے پارٹی رہنمائوں نے اداروں سے ٹکرائو کی سیاست سے ہمیشہ گریز کیا جب کہ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کے قائدین نے اداروں سے ٹکرائو کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں پر حملے کرکے من پسند فیصلے لینے کی جدوجہد کی۔ موجودہ حالات میں ماسوائے پی ٹی آئی کے تمام سیاسی جماعتوں کو جلسوں اور ریلیوں کی اجازت ہے پی ٹی آئی کا جہاں کہیں جلسہ ہو عوام کی بہت بڑی تعداد کا شریک ہونا اس امر کا عکاس ہے عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں سے مایوس ہیں ۔گو مسلم لیگ نون نے پارٹی ٹکٹ دینے کے لئے امیدواروں کے انٹرویو کر لئے ہیں اس کے باوجود یہ بات واضح ہے پنجاب کے بہت سے شہروں میں مسلم لیگ نون مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے جو اس بات کی علامت ہے پارٹی رہنمائوں اور ورکرز کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ درحقیقت سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی اور عوام کی خدمت کے بل
بوتے پر سیاسی عمل کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک اور عوام کے مسائل جو جماعتیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں عوام کو انہیں مینڈیٹ دینا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف مرحوم نے ایک خطاب میں کہا تھا عوام کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو ووٹ نہیں دینا چاہیے کہ وہ کئی بار اقتدار میں رہنے کے باوجود ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں لہذا عوام کو ووٹ کی طاقت سے ایسی جماعتوں کو مسترد کر دنیا چاہیے ۔ عام طور پر سیاسی جماعتیں سیاسی عمل میں اداروں کی مداخلت کا شکوہ کرتی ہیں حالانکہ داروں کو سیاست میں لانے والے سیاسی رہنما ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں صدق دل سے اس بات کا عہد کر لیں وہ جمہوری عمل میں اداروں کی مداخلت نہیں ہونے دیں گی تو کوئی وجہ نہیں ملک میں جمہوریت مستحکم نہ ہو نے پائے۔ اقتدار میں آنے والی جماعتوں کو ان کی آئینی مدت پوری کرنے نہ دی جائے ایسے ملک میں جمہوریت کیسے فروغ پا سکتی ہے۔ بعض اداروں کی غیر مشروط حمایت سے اقتدار میں آنے والی جماعتیں کھل کر اپنے آئینی اختیارات استعمال کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو اداروں سے ٹکرائو کی صورت حال پیدا ہو تی ہے۔ وقفے وقفے سے حکومتیں گرانے سے ملک میں جمہوریت ہمیشہ کمزوری رہی ہے۔ اب یہ بات عوام پر منحصر ہے وہ آنے والے انتخابات میں کن جماعتوں کو ووٹ دے کر کامیاب بناتے ہیں۔ عوام نے بار بار اقتدار میں آنے والی جماعتوں کو ووٹ دینے کی روش نہ بدلی تو ہمارے ملک کے حالات کبھی بہتر نہیں ہوںگے اور نہ ملک معاشی مسائل سے نکل پائے گا۔ گو نواز شریف اور ان کی جماعت اقتدار میں آنے کے لئے پرعزم ہی مگر اس کا فیصلہ ملک کے بائیس کروڑ عوام نے کرنا ہے۔ انتخابات منصفانہ اور غیر جانبدارنہ ہوئے تو ملک معاشی بھنور سے نہیں نکل سکے گا۔ بہرکیف موجودہ حالات میں عوام کی طرف سے مسلم لیگ نون کو خاطر خواہ پذیرائی نہ ملنے پر نواز شریف مایوسی کا شکار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button