Column

ہندوستان کا اصلی چہرہ

تحریر : عبد الباسط علوی
ہندوستان خود کو ایک مثالی سیکولر ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ یہ دعویٰ حقیقت اور سچائی کے بالکل برعکس ہے۔ ایک مثالی ملک کا تصور سرحدوں اور ثقافتی تفاوتوں سے بالاتر ہوتا ہے ۔ اگرچہ مکمل طور پر مثالی ہونا تو مشکل ہوتا ہے مگر دعوں میں کچھ حقیقت کا عنصر تو ہونا ہی چاہیے۔ کچھ اوصاف ایک مثالی قوم کی ہئیت کو بیان کرتے ہیں اور ان ممالک کو رہنمائی پیش کرتے ہیں جو اپنے شہریوں کی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اندرونی طور پر ہندوستان ایک مثالی ملک کے خصائص کو مجسم کرنے میں ناکام ہے۔ غربت، بے روزگاری، ناانصافی، ماحولیاتی تحفظات اور اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں وغیرہ جیسے مسائل عالمی سطح پر واضح طور پر عیاں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت اور اس کی فوج کے اقدامات خاصے تشویشناک ہیں۔ لوک سبھا میں منظور کیے گئے حالیہ متنازعہ بل، بشمول جموں و کشمیر پول ترمیمی بل 2023اور جموں و کشمیر تنظیم نو ترمیمی بل 2023، نے نے بھی نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
بحالی ترمیمی بل 2023کے تحت جموں و کشمیر اسمبلی میں خواتین امیدواروں سمیت پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد اور بے گھر کشمیری پنڈتوں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ تنظیم نو ترمیمی بل، 2023، لداخ کے علاقے کو جموں و کشمیر یونین میں شامل کرتا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے لوک سبھا خطاب کے دوران آرٹیکل 370کو علیحدگی پسندی سے جوڑتے ہوئے پرتشدد واقعات میں 70فیصد کمی کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وزیر اعظم نہرو کے فیصلوں پر بھی تنقید کی جس کے نتیجے میں اپوزیشن کانگریس پارٹی نے واک آئوٹ کیا۔
یہ تمام حقائق بی جے پی حکومت کے ہندوتوا نقطہ نظر کی عکاسی کرتے ہیں اور اصل سچاء اور حقیقت دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔
ایک مثالی ملک دوسری قوموں کی خود مختاری کو چیلنج کرنے سے گریز کرتا ہے اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہتا ہے۔
مثالی ملک کی خصوصیات کے برعکس بھارت بیرون ملک اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے RAWکو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے متعدد ممالک میں مداخلت پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ بھارت کی بیرونی انٹیلی جنس ایجنسی RAWنے غیر ملکی سرزمین پر اپنے مذموم خفیہ اقدامات پر طویل عرصے سے اور راز داری سے کام کیا ہے۔ یہ ایجنسی بیرون ملک قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے جو دوسری قوموں کی خود مختاری کو پامال کرتی ہے۔
را جسے سرکاری طور پر ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ کے نام سے جانا جاتا ہے، ہندوستان کی بنیادی انٹیلی جنس ایجنسی کے طور پر کام کرتی ہے اور اسے انٹیلی جنس جمع کرنے اور ملک کی سرحدوں سے باہر خفیہ کارروائیوں کو انجام دینے کا کام سونپا جاتا ہے۔ 1968ء میں قائم کی گئی RAWکا مرکزی مشن بیرونی خطرات کے بارے میں معلومات حاصل کرکے ہندوستان کے مفادات کا تحفظ اور قومی سلامتی کی حفاظت کرنا ہے۔ تاہم را کی بیرون ملک سرگرمیوں کے حوالے سے متعدد سنگین نوعیت کے حقائق سامنے آئے ہیں۔
را کے خلاف ایک مستقل اور سنگین الزامات میں پڑوسی ممالک میں باغی گروہوں اور علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے اس کی مبینہ حمایت شامل ہے اور ان پڑوسی ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے۔ را نے پاکستان کے مختلف باغی اور دہشت گرد دھڑوں کو مادی اور مالی امداد فراہم کی ہے جس سے علاقائی عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں RAW غیر ممالک میں جاسوسی کے واقعات میں بھی ملوث ہے، جن میں حساس انٹیلی جنس ڈیٹا اکٹھا کرنا اور دیگر ممالک کی قومی سلامتی سے سمجھوتہ کرنا شامل ہے۔ ان الزامات کی وجہ سے کئی مواقع پر پڑوسی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔
را کو خفیہ کارروائیوں میں ملوث کیا جاتا ہے جس کا مقصد حکومتوں کو غیر مستحکم کرنا اور پڑوسی ممالک میں سیاسی تبدیلی کو ہوا دینا ہے۔ ایسی کارروائیاں دیگر اقوام کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ ایجنسی بیرونی ممالک میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں بھی ملوث ہے جن میں سائبر حملے اور دہشت گردی کی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔
بھارت اور را مسلسل پاکستان کے اندر دہشت گرد سرگرمیوں کی حمایت میں ملوث ہیں۔ بھارتی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں خطرناک سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تھا اور وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لیے جاسوسی کرتا تھا۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز نے اسے 3مارچ 2016ء کو جاسوسی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا اور اس کی گرفتاری آئی ایس آئی کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی۔
را، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے سے پہلے ہی پاکستان کو غیر مستحکم اور کمزور کرنے کے مقصد سے دیگر پڑوسی ممالک کے علاقوں سے کام کرتی رہی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اتحادی کے طور پر اپنے کردار کی خاطر خواہ قیمت ادا کی اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے نسلی بنیادوں پر تقسیم بونے کی طویل حکمت عملی کو برداشت کیا۔ بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو بھی پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بھارت پاکستان بھر میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے بشمول بلوچستان اور کے پی کے جیسے علاقوں میں۔ نتیجے کے طور پر ان علاقوں میں بدامنی اور تنازعات دیکھنے میں آتے رہے ہیں جس کی اصل وجہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ہندوستان کی سرپرستی اور حمایت کو قرار دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر گزشتہ سال لاہور کے جوہر ٹائون میں ہونے والے ایک دھماکے کے نتیجے میں 22جانیں ضائع ہوئیں۔ کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کے ساتھ ایک پریس بریفنگ میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ نے انکشاف کیا، ’’ ہمارے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ دھماکے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا۔” سی ٹی ڈی کے افسر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے دوران اس بات کا تعین ہوا ہے کہ واقعے کا بنیادی ملزم 2012ء سے بھارتی جاسوس ایجنسی ( را) کا آپریٹو تھا‘‘۔
کینیڈا اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے بھی عالمی توجہ حاصل کی ہے۔ چند ماہ قبل کینیڈا نے برٹش کولمبیا میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا اعلان کیا۔ اس پیش رفت نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو انتہائی کشیدہ کر دیا۔ ہاس آف کامنز میں ایک ہنگامی بیان میں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے زور دیکر کہا کہ کینیڈین شہری کے قتل میں کسی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ’’ ہماری خود مختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی‘‘ ہے۔ 45سالہ ہردیپ سنگھ نِجر کو 18جون کو سرے میں ایک سکھ مندر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور یہ واقعہ وینکوور کے مضافاتی علاقے میں ہوا جہاں بڑی تعداد میں سکھ آبادی مقیم ہے۔ نجار نے کھلے عام ایک آزاد خالصتانی ریاست کی شکل میں سکھوں کے وطن کی وکالت کی تھی اور جولائی 2020ء میں بھارت نے اسے ’’ دہشت گرد‘‘ کے طور پر نامزد کیا تھا۔
ٹروڈو نے بتایا کہ کینیڈین سکیورٹی ایجنسیاں بھارت کے سرکاری ایجنٹوں اور نجار کی موت کے درمیان ممکنہ تعلق کی طرف اشارہ کرنے والے معتبر الزامات کی سرگرمی سے تفتیش کر رہی ہیں۔ انہوں نے نئی دہلی میں جی 20سربراہی اجلاس کے دوران قتل کا معاملہ براہ راست بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اٹھانے کا ذکر بھی کیا اور بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات میں کینیڈا کے ساتھ تعاون کرے۔ ان پیش رفتوں کے ساتھ ساتھ کینیڈا نے اپنے ملک میں تعینات ہندوستان کے اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنٹ کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
حال ہی میں قطر کی ایک عدالت نے بھی ہندوستانی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو اسرائیل کے لئے جاسوسی کا الزام لگاتے ہوئے موت کی سزا سنائی ہے۔ سزا پانے والوں میں کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن بیریندر کمار ورما، کیپٹن سوربھ وششٹ، کمانڈر امیت ناگپال، کمانڈر پورنیندو تیواری، کمانڈر سوگناکر پکالا، کمانڈر سنجیو گپتا اور سیلر راجیش شامل ہیں۔ یہ تمام بحریہ کے سابق اہلکار الدہرہ گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی سروسز میں ملازم تھے جو عمان فضائیہ کے ایک سابق افسر کی ملکیت والی نجی کمپنی تھی۔ یہ فرم قطر کی مسلح افواج اور سیکورٹی ایجنسیوں کو تربیت اور مختلف خدمات فراہم کرنے کی ذمہ دار تھی۔
ہندوستان کی اصل فطرت سی اس کے اپنے لوگ بھی شدید متاثر ہیں۔ مثال کے طور پر سکھ ہندوستان کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور ایک علیحدہ ریاست کے وجود کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ ہندوستان بیرون ملک بھی سکھوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہے جبکہ سکھ بھی بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ ایک حالیہ واقعے میں ایک سینئر ہندوستانی سفارت کار، ترنجیت سندھو کو نیویارک کے ایک گوردوارے میں خالصتان کے حامی سکھوں کی طرف سے مزاحمت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں عبادت گاہ سے جانا پڑا۔
واقعے کے دوران پرجوش سکھوں نے سفیر ترنجیت سندھو سے سکھ رہنما گروپتونت سنگھ پنن کے قتل کی ناکام بھارتی سازش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بارے میں سوال کیا۔ پنون سکھس فار جسٹس (SFJ)اور عالمی خالصتان ریفرنڈم مہم سے وابستہ ایک اہم شخصیت ہیں۔ نیو یارک کے ہکس ویل گوردوارے میں ہمت سنگھ کی قیادت میں خالصتان کے حامی سکھوں نے سندھو پر سرے گوردوارے کے صدر اور خالصتان ریفرنڈم کے کینیڈین چیپٹر کے کوآرڈینیٹر ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں ہندوستان کے کردار کا بھی الزام لگایا۔
عوام کے سوالات نے سفارت کار کو بے بس کر دیا اور اسے کوئی جواب فراہم کیے بغیر اچانک گرودوارہ چھوڑنا پڑا۔ کشیدگی اور بھارت کی مخالفانہ سرگرمیوں کے باوجود خالصتان کے حامی سکھوں نے اپنے حقوق کے لئے جدو جہد جاری رکھی ہوء ہے۔ بھارتی ناکام سازش میں نشانہ بنائے گئے SFJکے جنرل کونسل گرپتونت سنگھ پنن نے زور دے کر کہا کہ خالصتان ریفرنڈم کو ناکام بنانے کی بھارت کی کوششوں کے باوجود ووٹنگ جاری رہے گی اور امریکی مرحلہ 28جنوری 2024ء کو سان فرانسسکو، کیلیفورنیا میں شروع ہونے والا ہے۔
امریکی سرزمین پر گروپتونت سنگھ پنون کے قتل کی بھارتی سازش کو ناکام بنانے کے حالیہ انکشاف کے بعد امریکہ کی جانب سے ردعمل کی بازگشت بھی سنی گئی ہے۔ فنانشل ٹائمز (FT)کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے اس سازش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر بھارتی حکومت کو وارننگ جاری کی۔ جریدے نے انکشاف کیا کہ ہندوستانی حکومت اس سازش کے پیچھے تھی جس میں خالصتان ریفرنڈم مہم کی سرکردہ شخصیت پنون کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکی محکمہ اس بات پر غور کر رہا ہے کہ آیا فردِ جرم کو ختم کیا جائے اور الزامات کو پبلک کیا جائے یا اس کیس سے منسلک ایک کینیڈین سکھ علیحدگی پسند ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کی کینیڈا کی تحقیقات کے مکمل ہونے کا انتظار کیا جائے۔
مزید برآں، ذرائع کے مطابق بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی، ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (RAW)نے مبینہ طور پر 1968 ء میں اپنے قیام کے بعد پہلی بار شمالی امریکہ کے اسٹیشنوں پر اپنا کام بند کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ نیویارک میں ایک بھارتی شہری کی جانب سے ایک اہم سکھ رہنما کو قتل کرنے کی کوشش کے بعد سامنے آیا ہے۔
کینیڈا میں بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW)پر سکھ رہنما کے قتل کی وجہ سے عالمی پھٹکار کا سلسلہ ابھی تھما نہ تھا کہ بھارت کی بدنام زمانہ اینٹیلیجنس ایجنسی را کو ایک اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جرمنی میں سکھ اور کشمیری برادریوں کی جاسوسی کے الزام میں ایک ہندوستانی جوڑے پر مقدمے کی سماعت ہو گی جس میں 10سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق 50سالہ منموہن اور اس کی بیوی نام نہاد بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW)کے لیے جرمنی میں مقیم سکھوں اور کشمیریوں کی جاسوسی میں ملوث پائے گئے جو کہ جرمن راز داری قوانین کے مطابق ایک قابل سزا جرم ہے ، یہ مقدمہ فرینکفرٹ کی ایک عدالت میں چل رہا تھا۔ استغاثہ نے سال 2023 کے شروع میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’منموہن نے ہندوستانی خفیہ ایجنسی را (RAW) کے ایک ملازم کو جرمنی کی سکھ اور کشمیری کمیونٹی اور کشمیر کی تحریک آزادی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر اتفاق کیا‘‘۔ اس کی اہلیہ نے جولائی اور دسمبر 2017کے درمیان ہندوستانی انٹیلیجنس افسر کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیں اور اس کام کے معاوضہ کے طور پر مبلغ 8100ڈالر وصول کیے۔
قارئین، ان حقائق کی روشنی میں بھارت کا اصل چہرہ عالمی برادری کے سامنے تیزی سے عیاں ہو رہا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے اور دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت بند کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button