Column

غزہ کی آہ و پکار اور مسلم امہ

تحریر : ایم فاروق قمر
بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
جیسے غزہ کے مسلمان کٹ رہے ہیں، 18ہزار افراد جاں بحق ہو چکے اور ہسپتالوں میں بھی دہشت گرد مملکت کے فوجی گھسے بیٹھے ہیں اور انہوں نے مریضوں کو بھی گولیوں کی باڑ پر رکھ لیا ہے۔ صرف شفا ہاسپٹل میں ڈیڑھ سو سے زیادہ لاشیں جمع تھیں جن کو دفن کرنے کا انتظام نہ تھا، لاچار ہاسپٹل کے احاطے میں ہی اجتماعی قبر کھود رہے تھے کہ دہشت گرد فوجی آ گئے اور وہ قبریں کھودنے والے خود بھی انہی قبروں کا حصہ بن گئے۔
غزہ کا سقوط ہو چکا۔ یقیناً مزاحمت کار مزاحمت کریں گے اور کوئی معلوم نہیں کہ کتنے روز تک یہ مزاحمت جاری رہے گی۔ لیکن اگر کوئی خوش فہمی نہ پالے تو تلخ حقیقت یہ ہے کہ کچھ روز مزاحمت چلے گی اور پھر
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی
وقت گزر ہی جائے گا مگر اپنوں کی بے وفائی یاد رہے گی
غزہ کی غمزدہ آواز یہ سوال کر رہی ہے کہ میرے محافظ کہاں ہیں۔ قبلہ اول یہ پکار رہا ہے کہ میرے جان نثار کہاں ہیں۔ غزہ کی بستی کے یتیم بچے اپنے باپ کا لاشہ دیکھ کر سوال کر رہے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے۔ غزہ کی بے آسرا بہنیں، بے سہارا مائیں آسمان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ بوڑھے باپ اپنے بیٹے کی لاش کے پاس بیٹھ کر سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہمارے بیٹوں کا خون اتنا سستا ہے کہ جس کا نہ بدلہ ہے نہ قصاص ہے۔
غزہ کی خوراک بند ہے ، پانی بند ہے، دوا بند ہے، ایندھن بند ہے، ہسپتال تباہ ہیں، گھر تباہ اور ویران ہو گئے ہیں۔
ہمارا قصور کیا ہے؟ انسانیت کہاں ہے ؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب دینا پڑے گا۔ تاریخ ہم سے یہ سوال کرتی رہے گی کہ ہم خون کا بدلہ لینے کی بجائے اپنے اپنے مشاغل میں مصروف تھے۔ ہمارے بھائی پکار رہے تھے ہم کانفرنسیں کرنے ، فیسٹیول منانے میں مصروف تھے، ہمارے بھائی شہید ہو رہے تھے ہم کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔ دنیا کی تنظیمیں ، جماعتیں اور اقوام عالم کیا سو گئے ہیں؟
او آئی سی کی بے بسی یونائیٹڈ نیشن کی افسردگی، خاموشی اور بے اثری سب تماشہ بنی ہوئی ہیں۔
غزہ کے باسی یہ سوال کر رہے ہیں کہ میرے بھائیوں نے مجھ سے منہ پھیر لیے ہیں، میری آواز ان پر بے اثر ہے، شاید ان کے کانوں میں ہینڈ فری چسپاں ہو گئی ہیں۔ انہوں نے آنکھوں پہ سیاہ چشمے لگا لیے ہیں۔ جیسے وہ اندھے ہو گئے ہیں۔
ان سب سوالوں کا جواب دینا پڑے گا، آج بھی اور کل بھی، تاریخ سوال کرتی رہے گی۔
ہمارے ضمیر نہ جانے کب جاگیں گے ، جب صیہونی فوج اور اس کے کارندے ماضی کی طرح ہمارے مزید علاقے پر قابض ہو جائیں گے اور انہیں اپنے وجود کا حصہ بنا لیں گے، تب ہمیں ہوش آئے گا ہمیں جواب دینا پڑے گا۔
تاریخ لکھی جانے گی کہ مصر کے پاس
دریائے نیل تھا اور غزہ پیاس سے مر گیا۔۔۔
تاریخ لکھی جائے گی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس تیل کے سمندر تھے، جبکہ غزہ کے ہسپتالوں اور ایمبولینس کے لیے ایندھن نہیں تھا۔۔۔
تاریخ لکھی جائے گی کہ مسلمانوں کے پاس 40لاکھ فوجی تھے، مصر، ایران، ترکی اور پاکستان کے پاس جنگی جہاز، میزائل بھی تھے اور وہ نہ کوئی سپاہی غزہ بھیج سکے اور نہ غزہ میں قتل عام روک سکے۔۔۔
تاریخ لکھی جائے گی کہ سعودی عرب نے اربوں ڈالر پارٹیوں پر لٹا دئیے لیکن غزہ میں روٹی پانی نہیں تھا۔۔۔
اور تاریخ لکھی جائے گی کہ 1947ء میں پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن اس نے غزہ میں اپنے بھاءیوں کی مدد کے لیے کچھ بھی نہیں۔۔۔
اور تاریخ لکھی جائے گی کہ ایران اور ترکی نے اسلام کا نام تو بہت استعمال کیا لیکن غزہ کے قتل عام کو روکنے کے لیے ایک قدم بھی نہ اٹھایا جبکہ مسلمانوں کے قتل عام میں حصہ بہت ڈالا۔۔۔
تاریخ لکھی جائے گی کہ غزہ کے بچے کتابیں پڑھنے اور کہانیاں سننے کی بجائے ایک دوسرے کو باپ کی شہادت کی خبر سنا رہے تھے اور مسلم امہ خاموش دیکھ رہی تھی۔۔۔
تاریخ لکھی جائے گی کہ مسلمان قوم اپنے حکمرانوں کو تو مورد الزام ٹھہراتی رہی لیکن، پیپسی، کوک، سپرائٹ، فانٹا پینا چھوڑ سکی نہ میکڈونلڈ کے برگر کھانا چھوڑ سکی اور نہ ہی اسرائیلی چیزیں خریدنا چھوڑ سکی۔۔۔
تاریخ لکھی جائے گی کہ مغرب میں لوگ اسرائیلی تباہ کاریوں کے خلاف سڑکوں پر نکلتی رہی لیکن مسلمان ممالک میں لوگ گھروں میں بیٹھے رہے۔۔۔
قیامت کے دن حساب تو سب کا ہو گا۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button