پیپلز پارٹی کی بے چینی

تحریر : یاور عباس
سیاست کے میدان میں کل کے دشمن آج کے دوست ہوتے ہیں اور آج کے دوست کل کے دشمن ہوسکتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ میدان سیاست میں حریف اور حلیف تبدیل ہوتے رہتے ہیں جبکہ نظریاتی جماعتیں اور اصول پرست صرف اپنے نظریہ کی بناء پر اتحاد بناتی اور توڑتی ہیں اور مفاد پرست اقتدار کی لالچ میں کسی اصول اور نظریہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ پیپلز پارٹی ابھی چند ماہ پہلے پی ڈی ایم حکومت میں مسلم لیگ ن کی اتحادی تھی اور بڑے خوشگوار ماحول میں گپیں لگتی تھیں مخالفین پر قہقہے اور تیروں کے نشتر چلائے جاتے تھے مگر انتخابات قریب آتے ہی پیپلز پارٹی سمجھ رہی ہے کہ انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی بلکہ مسلم لیگ ن کو اقتدار میں لانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل ہی الیکشن کی شفافیت کے حوالے سے پیپلز پارٹی میں بے چینی محسوس کی جارہی ہے ۔
پاکستان کی 76سالہ سیاسی تاریخ میں سیاستدانوں کو پارٹیاں تبدیل کرتے ہوئے کئی بار دیکھا جاسکتا ہے اور اقتدار کی خاطر اتحاد بننے اور ٹوٹنے کے عمل سے اب پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے ، ضیاء الحق کے طویل آمرانہ دور کے بعد 80ء کی دہائی کے آخر میں جمہوری عمل کا آغاز ہوا تو اس وقت سے لے کر اب تک ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ق سمیت، جمعیت علمائے اسلام ( ف)، اے این پی سمیت کئی چھوٹی جماعتیں ایسی مل جائیں گی جنہوں نے گزشتہ 4دہائیوں میں ہر صاحب اقتدار کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اقتدار کے مزے لوٹے ، ان چالیس سالوں میں ہر پارٹی کو شاید کوئی ایک ایک ہی دور میں ہی اپوزیشن کرنے کا موقع ملا ہو مگر وہ دور بھی انہوںنے عوامی مسائل پر سیاست کرنے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جمہوری جدوجہد کرنے کی بجائے گھروں میں آرام کرنے کو ہی فوقیت دی ، کیونکہ برسراقتدار پارٹی کے سامنے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا پاکستان جیسے جمہوری سسٹم میں کوئی آسان کام نہیں ، یہاں نیب ، ایف آئی اے ، اینٹی کرپشن اور نہ جانے کون کون سے ادارے متحرک ہوجاتے ہیں اور وہ کارروائیاں ڈال دیتے ہیں جو اپوزیشن کرنے والے سیاستدانوں نے کبھی سوچے بھی نہیں ہوتے مگر یہ مقدمات ان کو سزائیں دینے کے لیے اور قومی خزانہ پر ڈاکہ ڈالنے پر عبرت کا نشان بنانے کے لیے نہیں بنائے جاتے بلکہ صرف مخالف سیاستدانوں کی گردن زیر کرنے اور انہیں اشاروں پر نچوانے کے لیے بنوائے جاتے ہیں جیسے ہی جی حضور جو حکم ہو حاضر ہیں جیسے آپ کہتے ہیں وغیرہ کے الفاظ ادا ہونے کی دیر ہوتی ہے نہ صرف مقدمات کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ وزارتوں کے دفاتر ، گاڑیاں ، پروٹوکول انہی سیاستدانوں کے منتظر ہوتے ہیں ۔
جنرل ضیاء الحق کے 11سالہ آمریت کے دور میں پیپلز پارٹی کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی گئی ، وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاستدانوں کو عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا ۔ جیلیں بھر دی گئیں، کوڑے مارے گئے مگر جونہی آمریت کے بادل چھٹے تو پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ، مشرف دور حکومت میں بھی پیپلز پارٹی حکومت بنانے کے قریب تھی پیپلز پارٹی کے 10ایم این ایز توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بناکر حکومت مسلم لیگ ق کے حوالے کردی گئی۔ پیپلز پارٹی کو محض اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی وجہ سے اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو نظریاتی اصولوں پر چلانے کی بجائے اقتدار کی
مضبوطی کے لیے فیصلے کیے اور جنہیں محترمہ کی شہادت کا ذمہ دار ٹھہرایا انہی سے اتحاد کرلیا ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو اتحادی بنالیا ، وفاق میں مسلم لیگ ق سے اتحاد کر لیا ۔ نظریاتی لوگوں کو پیچھے دھکیل کر الیکٹیبلز کو وزیر مشیر بنالیا اور جونہی حکومت کا خاتمہ ہوا وہ سارے پرندے نئے گھونسلوں کی طرف اُڑ گئے اور پیپلز پارٹی کی عوام سے جڑیں کمزور ہوگئیں ، اس میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ آصف علی زرداری نے کمال ہوشیاری سے پیپلز پارٹی کی اسمبلی کی مدت پوری کرائی، لیکن عوامی حمایت کھو بیٹھے ۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بار بار لگانے کے باوجود سندھ اور وفاق میں حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کے باوجود خلق خدا کو کوئی خاطر خواہ ریلیف ملا نہ ہی جمہوریت کو مضبوط کیا گیا بلکہ میثاق جمہوریت کے تحت مسلم لیگ ن سے بھی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرایا گیا، شاید انہی پالیسیوں کی بدولت پیپلز پارٹی کا پنجاب سے خاتمہ ہوگیا اور چند ایک سیٹوں کے سوا گزشتہ تین انتخابات میں کوئی خاطر سیٹیں نہیں مل سکیں ، پیپلز پارٹی جو وفاق کی علامت ہوتی تھی وہ صرف سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی۔ء 2018کے انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کے بعد ملکی سیاست کا نقشہ یکسر تبدیل ہوگیا اور حصول اقتدار کی لالچ میں سیاستدانوں کے وہ چہرے عوام نے دیکھے جنہیں جمہوریت کی چادر میں لپیٹ کر رکھا جاتا رہا۔ پی ڈی ایم کی شکل میں ماضی میں حکومتیں کرنے والے تمام مخالف سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئیں اور عمران خاں کے خلاف عدم اعتماد کے بعد حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئیں ، پی ڈی ایم حکومت بنانے میں اگرچہ مرکزی کردار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ادا کیا اور مسلم لیگ ن کو وزارت عظمیٰ کی کرسی بھی دے دی آصف علی زرداری اگلی باری بلاول بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے، پی ڈی ایم کی ڈیڑھ سالہ حکومت میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کامیاب اتحادی ثابت ہوئے مگر جونہی مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کو غیر معمولی ریلیف ملنا شروع ہوگیا تو پیپلز پارٹی کا بیانیہ تبدیل ہوگیا۔ جمہوری جدوجہد پر یقین رکھنے والی جماعت پیپلز پارٹی جب اقتدار کے لیے عوام کے بجائے کھیل کا حصہ بن چکی ہے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے بجائے جب پی ڈی ایم کے دور حکومت میں آخری دنوں میں دھڑا دھڑ بل پاس کیے جارہے تھے ، نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کیا جارہا تھا، انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے سپرد کیا جارہا تھا، پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کی بجائے نگران حکومتوں کو طول دیا جارہا تھا یہ ساری باتیں اس وقت سوچنے والی تھیں، اب عوام کا اعتماد حاصل کرنے اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے کئی گنا زیادہ جدوجہد کرنا پڑے گی۔