Columnمحمد مبشر انوار

قتل عام

محمد مبشر انوار
غزہ کی صورتحال سے متعلق بعد از جنگ بندی، شدید ترین خدشات بدقسمتی سے حقیقت کا روپ دھار ے ہیں، اسرائیل اپنی پوری طاقت کے ساتھ فلسطینی شہریوں پر پل پڑا ہے، اور اسرائیلی بربریت کا شکار ہونے والے بہتے شہریوں کی تعداد 17ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ دنیا کی بے حسی پر جس قدر لعنت بھیجی جائے کم ہے کہ بااختیار حکمران، ایک دہشت گرد ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے، دانتوں میں انگلیاں دانے، بے گناہ معصوم اور بہتے شہریوں کا خون بہتا دیکھ رہے ہیں لیکن عملا کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ اقوام متحدہ، جو بظاہر اقوام عالم کایا نمائندہ لیکن درحقیقت، عالمی طاقت کی لونڈی کا کردار ادا کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں، قراردادیں ہیں کہ مسلسل پاس ہو رہی ہیں، مجال ہے کہ ان قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کی طاقت اس میں موجود ہو۔ گریٹر اسرائیل کی خاطر، پنجہ یہود میں پھڑپھڑاتے عالمی حکمران بے بسی کی تصویر دکھائی دیتے ہیں، نہتے و بے قصور بچوں کی شہادتیں، کٹے پھٹے جسم، بنیادی انسانی حقوق سے محروم، کھلے بندوں سرجری کرواتے یہ بے گناہ بچے، آج کی خود ساختہ مہذب دنیا کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ اس کے دہرے کردار کو اس سے زیادہ اور کیا آشکار کریں گے کہ جہاں آزادی کے طلبگاروں کو، دہشت گرد قرار دیا جائے، جن پر جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی جائے، جن سے جینے کے تمام حقوق چھین لئے جائیں، سانس لینے پر بھی پابندی ہو، لیکن انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اس تمام ظلم کو ایک ظالم کا حق دفاع گردانتے نہیں تھکتے؟ اسرائیلی وزیر اعظم اپنے انتہا پسند مزاج، اور جلد از جلد کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی جستجو میں تمام اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر، صیہونی عزائم کی تکمیل میں مشغول ہیں، تاکہ اندرونی سیاسی کشمکش اور مشکل صورتحال سے نبرد آزما ہو سکیں۔
اس ساری مشکل اور پیچیدہ صورتحال میں، دنیا بھر سے عوام احتجاج کر رہے ہیں لیکن کسی کے کان ہر جوں تک نہیں رینگ رہی البتہ اس احتجاج کو مزید تقویت خود یہودیوں کی جانب سے مل رہی ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ میں بھی یہودی اس نسل کشی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اصولی طور پر یہ رویہ ہر باشعور شخص اپنائے ہوئے ہے لیک بدقسمتی سے ہوس اقتدار میں چور، چند افراد کے نزدیک، ان کے طے کردہ اہداف اب سے زیادہ قیمتی اور اہم ترین ہے۔ ان اہداف کے حصول میں انہیں خواہ دنیا بھر کوملیا میٹ کرنا پڑے، وہ اس سے چوکنّے والے نہیں جبکہ ان کے پشت پناہ، لاکھ انسانی حقوق کے نعرے بلند کریں لیکن عملا وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ فلسطین کو اپنا وطن کہنے والے یہودی، اب صیہونی مقصد کے لیے کام کرنے والے، درحقیقت دنیا ہر اپنا اقتدار، اپنا غلبہ بزور چاہتے ہیں اور ہر صورت مسلم دنیا کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہیں کہ انہیں علم ہے دنیا کے باقی مذاہب کو وہ با آسانی قابو کر سکتے ہیں لیکن امت محمدی کسی بھی طور ان کے قابو نہیں آئے گی تاہم وہ اپنی سر توڑ کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ اگر مسلم دنیا یہودیوں کا غلبہ تسلیم نہیں کرتی تو بہتر ہے اسے نیست و نابود کر دیا جائے گو کہ مسلم حکمران بہت حد تک یہودیوں سے مرعوب ہو چکے ہیں اور درون خانہ اس پر قائل بھی ہیں کہ یہودی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے جائیں۔ درحقیقت اس سوچ کے پس پردہ، ذاتی اقتدار کی خواہش ہے کہ جس سے کنارہ کش ہونے کے لئے مسلم حکمران قطعی تیار نہیں خواہ انہیں پوری امت کی بقا کو دائو پر لگانا پڑ جائے۔
اپنے دفاع کو مضبوط بنانے اور غیروں پر انحصار کم کرنے کی بھائے، جو وتیرہ مسلم حکمرانوں نے اپنا رکھا ہے، اس کی کوئی توجیہ اسلام میں موجود نہیں لیکن افسوس کہ امت مسلمہ اپنے دفاع کو غیر مسلموں کے حوالے کر کے اپنی آزادی و حفاظت کو یقینی سمجھ رہی ہے۔ غزہ میں ہونیوالی نسل کشی پر اسلامی ممالک کا ردعمل سوائے گفتند، نشستند برخاستند کے کچھ بھی نہیں کہ غزہ کے نہتے و معصوم مسلمان جس بربریت کا شکار ہیں، کبھی امت مسلمہ کے اسلاف، ایسی بربریت پر غیر مسلموں کی مدد کے لئے سربکفن نظر آتے ہیں جبکہ آج ہم اپنے مسلم بہن بھائیوں اور بچوں کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ صد افسوس ! کہ سفارتی مشق بھی کسی کام نہیں آ رہی، قطر ، یو اے ای، ترکی اور سعودی عرب کی تمام تر کاوشیں، اسرائیلی فوج کی بے رحمانہ یلغار میں، کہیں دم توڑ چکی ہے، اسرائیل کسی بھی عالمی طاقت کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ان ممالک کی سب سے زیادہ امیدیں اور توقعات اس مرتبہ، چین، روس سے تھی کہ یہ دونوں ممالک بہرطور، اسرائیل کو اپنے دبا میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اسرائیل کی درندگی کو لگام ڈال سکیں گے لیکن افسوس تاحال ابھی تک یہ ممالک کوئی بھی ٹھوس اقدام اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ حالات اگر یہی رہتے ہیں تو با وسائل خلیجی ممالک کے لئے یہ مزید ایک سوالیہ نشان ہو گا، کہ کیا ان کا ترجیحات تبدیل کرتے ہوئے، امریکی بلاک سے روس و چین کی طرف بڑھنا، درست فیصلہ تھا یا ان ممالک نے اپنے ریاستی مفادات کا تحفظ بخوبی کیا ہے؟ بہرطور لمحہ موجود میں، اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ، روس و چین کے اٹھائے گئے تمام تر اقدامات سے، اسرائیلی بربریت رکنے کی بجائے مزید بڑھی ہے اور اقوام عالم کا اسرائیل کے خلاف التجائیہ رویہ، اسرائیل کو مزید کھل کھیلنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اسرائیل غزہ کے نہتے و معصوم شہریوں کی زندگیوں سے تو کھیل ہی رہا ہے لیکن جو عزائم اسرائیل نے پوری دنیا میں فلسطینی لیڈرز کو قتل کرنے کا اعلان کر کے ظاہر کئے ہیں، یہ واضح طور عالمی سطح پر قتل عام کا اعلان ہے، جو اسرائیل اس سے قبل بھی کر چکا ہے لیکن اس کیخلاف کسی بھی قسم کے ٹھوس اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے، اسے اس درجہ دیدہ دلیری کی جرات ہو چکی ہے کہ وہ علی الاعلان اس قتل عام کا اظہار کر رہا ہے، کون اسرائیل کے ان مذموم مقاصد کے سامنے بند باندھ سکے گا؟؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button