ColumnImtiaz Ahmad Shad

ذرا سوچئے بچوں کی تربیت میں والدین کی ذمہ داریاں

امتیاز احمد شاد
انسانی زندگی خوبصورت ہے لیکن اس کا خوبصورت ترین حصہ بچپن ہے۔ بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ نرم و ملائم ہوتے ہیں اور بڑی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ رسولؐ اللہ نے بچوں کے ساتھ محبت کی ایک بڑی ہی روشن مثال قائم کی۔ وہ اپنے نواسوں پر محبت نچھاور کیا کرتے تھے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق نبی اکرمؐ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپؐ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: ( یا رسولؐ اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پر آپؐ نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ ( صحیح بخاری)۔ اگر والدین یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں میں کس قدر کامیاب ہیں تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کو دیکھ کر ہی لگا سکتے ہیں۔ اگر بچے اخلاقی طور پر اچھے ہیں تو یہی والدین کی کامیابی ہے۔ یوں بچے کامیابی یا ناکامی پرکھنے کا حقیقی پیمانہ ہیں۔ اس لیے والدین کو اپنے بچوں کو اپنے گھروں کے اندر بہتر ماحول کی تشکیل کے ذریعے اپنے بچوں کو نیک کردار اور ادب و آداب کی تعلیم دینی چاہیے۔ بچوں کو اخلاق سکھانے کے لیے بلیک بورڈ، فلپ چارٹ یا ملٹی میڈیا کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ والدین کے طور طریقے، عادات، عوامل اور الفاظ بچوں کے اذہان پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ گھر کا ماحول وہ واحد سب سے اہم ترین عنصر ہے جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی ہر ایک ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ والدین بچوں کے پہلے معلمین ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اپنے والدین کی محبت اور شفقت سے بھرپور مطلوبہ گھریلو ماحول ملتا ہے۔ تاہم اگر والدین کے باہمی تعلقات کسی وجہ سے تنا کا شکار ہیں تو ایسے میں سب سے زیادہ تکلیف ان کے بچے کو ہی اٹھانی پڑتی ہے۔ عام طور پر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اپنی تمام تر سرگرمیاں ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور ان کی اولین ترجیح اپنی اولاد ہوتی ہے۔ والدین کا باہمی پیار اور محبت، خیال اور تحفظ ہی بچے کے پھلنے پھولنے کا ضامن ہوتا ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے دور میں رہتے ہیں اور ٹیکنالوجی نے بچوں کی پرورش و تربیت سمیت زندگی کے ہر ایک شعبے میں اپنا حد سے زیادہ عمل دخل قائم کرلیا ہے۔ یوں والدین کے لیے بچے کی پرورش کی ذمہ داریاں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ انسان کا بچپن نونہالی، کنڈرگارٹن، پرائمری تعلیم، ٹین ایج وغیرہ جیسے مختلف مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر ایک مرحلے پر بچوں کی مختلف انداز میں دیکھ بال اور پرورش درکار ہوتی ہے۔نونہالی کے دنوں میں بچوں کو وبائی بیماریوں سے بچانا اور باقاعدگی کے ساتھ حفاظتی ٹیکے لگوانا ضروری ہوتا ہے۔ جب بچہ اسکول جانے لائق ہوجائے تو لازماً اسے ادب و آداب، اخلاقیات اور حسنِ عمل کی بنیادی تربیت فراہم کی جائے۔ والدین کو اپنے گھروں میں مذہبی اور روحانی ماحول تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں بد زبانی، لڑائی جھگڑے اور جھوٹ سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے۔ بچوں کو کھیلنے کے لیے کون سا کھلونا دینا ہے یہ فیصلہ کرتے ہوئے والدین کو کافی محتاط رہنا چاہیے۔ آج کل کئی بچے کھلونا گن یا اسلحے سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بچوں کو اس قسم کے کھلونے نہ دئیے جائیں کیونکہ یہ بچوں میں جارحانہ ذہنیت اور جنگی جنون کے رجحانات کو فروغ دیتے ہیں۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ کھلونا گن سے کھیلنے والے بچوں کے رویوں میں تحمل مزاجی کی کمی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح انہیں ایسی بیہودہ فلمیں ، گیمزیا ویڈیوز دیکھنے سے باز رکھنا چاہیے جن میں تشدد اور خون ریزی جیسے مناظر شامل ہوں۔ بچوں کو چند احتیاطی تدابیر کے ساتھ والدین کے
زیرِنگرانی سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ جب بچہ ٹین ایج کو پہنچتا ہے تو والدین کی ذمہ داریوں میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس عمر میں بچہ اسکول، محلے اور معاشرے میں دوستیاں قائم کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی اس عمر میں ان کے دوست بن جائیں اور انہیں صحیح راستے کی رہنمائی کریں۔ والدین گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے اور روزانہ نماز ساتھ پڑھنے کے لیے بچوں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔ والدین کو پتہ ہو کہ ان کا بچہ کس قسم کے ہم عمر حلقے میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور بچے کی ہر دن کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر ضروری ہے کہ بچوں کو بڑی احتیاط کے ساتھ اس خطرے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔ ایک سنہری کہاوت ہے کہ نونہالوں سے پیار کیا جاتا ہے، اسکول جانے والے بچوں پر نظر رکھی جاتی ہے اور ٹین ایجر بچوں کے ساتھ دوستوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ، اولاد رحمت ہے، اور ان کا لازمی طور پر تحفظ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ: ’’ اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں‘‘۔ والدین چونکہ اولاد جیسے قیمتی ہیرے کی تراش خراش پر پوری طرح سے قادر ہیں، اور اس ہیرے کو تراشنے کا عمل کوئی ایک لمحہ نہیں بلکہ پوری زندگی پر محیط ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم تعلیم و تربیت کے بنیادی اصولوں پر خود بھی کار بند ہوں اور دوسروں کو بھی اس سے باخبر کریں۔ بچوں کو گھر کی چار دیواری کے اندر ہی صحیح تربیت دینا ممکن نہیں بلکہ بچوں کو گھر سے باہر زمانے کی صحیح تصویر سے روشنا س کرانا بھی والدین کا فرض ہے۔ ایسا کرنے سے بچوں کے اندر اعتماد پیدا ہوگا او وہ مستقبل میں کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لئے قبل از وقت ہی خود کو تیار کر پائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ، والدین کا رول ادا کرکے بچوں کو تعلیم سے منور کرتے ہیں لیکن وہ والدین کے فرائض انجام نہیں دے سکتے ہیں، کیوں کہ والدین کو اپنے بچوں کے تئیں فرائض خود ہی ادا کرنے ہوں گے۔ والدین کو چائیے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے دینی اور دنیاوی تعلیم ( دونوں) کا اہتمام کریں۔ دینی تعلیم بہتر ہے گھر میں دی جائے کیونکہ اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ بعض والدین اپنے بچوں پر بے جا سختی کرتے ہیں اور ان کو معمولی بات پر بھی سخت سزا یا شدید ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے تمام جذبات و احساسات مر جاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں اور وہ گھر کو جیل خانہ تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس سے قبل ہمارے بچے اپنے گھروں کو قید خانہ تصور کریں، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنائیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم احساسِ ذمہ داری میں حدود کو عبور نہ کریں بلکہ فرائض پر زیادہ توجہ مرکوز کریں، تاکہ ہمارے بچے سماج کے لئے مشعل ِ راہ پر بنیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button