ColumnNasir Naqvi

قصّہ لاہوریوں کے پاسپورٹ کا

تحریر : ناصر نقوی
افغانیوں کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے ٹھوس ثبوت مل گئے اور ان کے مختلف کاروبار اور قبضوں میں ملوث ہونا ہی ثابت نہیں ہوا بلکہ اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے تو سپہ سالار نے ذمہ داروں سے مشاورت کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اس صورت حال میں برسوں کی بھائی بندی مزید نہیں چل سکتی، لہٰذا ایک خاص رعایتی مدت دینے کے بعد انہیں دیس نکالا دے کر ملکی سلامتی اور امن عامہ کو درپیش مسائل سے نجات حاصل کی جائے۔ افغان ہمارے بھائی لیکن غیر قانونی افغانیوں سے کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے، لاکھو ں چلے گئے، ہزاروں کو زبردستی نکالا گیا لیکن ابھی بھی لاکھوں کی تعداد موجود ہے۔ حکومتی سطح پر ملک بدری کا فیصلہ موجود پھر بھی افغان جانے کو تیار نہیں، کیونکہ اب وہ برسوں اونے پونے نہیں، بہت سے تو پورے پاکستانی بن چکے ہیں اس لیے کہ انہوں نے جائز ناجائز طریقے سے اپنے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا لئے ہیں بلکہ پشتو زبان کی مشترکہ وراثت سے پاکستانیوں سے رشتے ناطے بھی مضبوط کر چکے ہیں جبکہ سینکڑوں ایسے بھی ہیں جن کے خاندانوں نے مستقل بنیادوں پر نہ صرف کاروبار کر لیے ہیں اور مہنگی ترین جائیداوں کے بھی مالک ہیں۔ وہ کسی بھی صورت واپس جانے کو تیار نہیں، اس لیے کہ ان کی دوسری نسل بھی جوان ہو چکی ہے ، ایسی سہولت دنیا کے کسی ملک میں حاصل نہیں لیکن پاکستان کے آمر حکمران ضیاء الحق نے امریکی نوکری چاکری میں’’ جہادِ افغانستان‘‘ پر دے دی۔ چند سیاستدانوں نے مخالفت کی، ان کی کسی نے پرواہ نہیں کی، باقی نواز شریف جیسے اپنے ’’ تابناک مستقبل ‘‘ کی خواہش میں ساتھ دیتے رہے باقی کمی جنرل ( ر) گل حمید اور ہمنوائوں نے ’’ طالبان‘‘ کو گود لے کر پوری کر دی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں اپنے سرپرستوں کی خواہش پر ’’ گڈ طالبان اور بیڈ
طالبان‘‘ کہہ کر کے۔پی۔کے میں انہیں آباد بھی کر دیا، جو باقاعدہ امن اور قومی سلامتی کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت نے رجسٹرڈ افغانیوں کی رعایت اور مراعات بالکل ختم نہیں کیں لیکن خود کش حملوں میں ایسے لوگ بھی پائے گئے۔ چھان بین شروع ہوئی تو قومی ادارے ’’ نادرا‘‘ کے ذمہ دار پکڑے گئے۔ شناختی کارڈ بنے لہٰذا ’’ گرین پاسپورٹ‘‘ بھی بن گئے ۔ مزید تحقیقات ہوئیں تو حقیقت کھل کر سامنے آ گئی، ’’ سب سے بڑا ‘‘ روپیا۔۔۔۔ جس جس نے مال خرچہ اور ہمت کی ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بن گئے۔ ابھی معاملات سدھرے نہیں، تحقیقات، انکوائریاں جاری ہیں۔ سخت اقدامات سے پریشانی ناجائز مافیا کو ہرگز نہیں، جائز لوگوں کے کام بھی ناجائز ذرائع سے ہونے لگے، پاسپورٹ کی ’’ پرنٹنگ اور لیمینیشن‘‘ کا بحران بھی سر چڑھ کر بولا، کمیشن ایجنوں اور سہولت کاروں نے عوامی ضرورت کے باعث دونوں ہاتھوں سے لوٹا، کیا جائز ہوا کیا ناجائز؟ کسی کو خبر نہیں، افغانی واپس جائیں گے کہ نہیں کوئی نہیں جانتا، پاکستانی اس قدر فنکار ہیں دو نمبری میں کہ کوئی مقابلہ ہی نہیں، سرکار عوامی اور ملکی مفاد میں تارکین وطن سے صرف رجسٹریشن اور دستاویزات کی ڈیمانڈ کر رہی ہے اور ’’ مافیا‘‘ مال خرچہ حاصل کر کے اپنے مفادات حاصل کر رہا ہے۔ اس گھنائونے کاروبار میں ملوث سرکاری اور نجی اہلکار پکڑے بھی گئے، نوکریاں بھی گنوا بیٹھے لیکن بات بن نہیں سکی، بلکہ ’’ ناجائز انداز‘‘ میں سہولت کاری کا ریٹ مزید بڑھ گیا، کب تک معاملہ چلے گا کوئی نہیں جانتا کیونکہ پس پردہ ہاتھ مضبوط ہیں، ان کے خاتمے کے لیے آہنی ہاتھوں کی اشد ضرورت ہے۔
اب دیکھیں تصویر کا دوسرا رخ۔۔۔۔ صرف لاہور میں پاسپورٹ کے حصول کے لیے عوامی سہولت کی خاطر شہر کی مختلف علاقوں کے لیے سات دفاتر اس وقت کام کر رہے ہیں یقینا اس عمل اور تقسیم کا مقصد ضرورت مندوں کے لیے آسانیا ں پیدا کرنا تھا، اس وقت کم از کم پاسپورٹ فیس ساڑھے تین ہزار ہے جس کی مدت پانچ سال اور صفحات محدود ہیں۔ مدت اور صفحات میں اضافے کی فیس مختلف ہے، اسی طرح ’’ ارجنٹ‘‘ فیس بھی زیادہ ہے لیکن سب لوگ اپنی اپنی ضرورت کے مطابق ان سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نئے سسٹم میں مشکل کام ٹوکن حاصل کرنا ہے، نقد ادائیگی سے یقینی طور پر ٹوکن آسانی سے مل جاتا ہے اس میں نجی سہولت کار اپنے تعلقات سے سرکاری اہلکاروں کو استعمال کرتے ہیں، تاہم حصّے دار وہ بھی ہوتے ہیں کیونکہ ٹوکن کی سرکاری فیس نہیں ہوتی، ضرورت مند اپنی آسانی کے لیے’’ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘‘ کا اصول اپناتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہر کے سات پاسپورٹ آفس حقیقی فیس کی مد میں روزانہ دو سے ڈھائی کروڑ سرکاری اکائونٹس میں جمع کراتے ہیں۔ ٹوکن دے کر اندر جانے والا سسٹم کے تحت فارم کی تصدیق، انگوٹھے کے نشان اور تصاویر تک کے تمام مراحل زیادہ سے زیادہ ایک سے دو گھنٹوں میں طے کر لیتا ہے لیکن انتظار کی گھڑیاں اس کے بعد شروع ہوتی ہیں، ارجنٹ پاسپورٹ ڈبل فیس کے باعث وقت پر مل جاتے ہیں لیکن ’’ نارمل ڈیلیوری‘‘ کے لیے دعائیں اور منتیں مانگنی پڑتی ہیں۔ دریافت کرنے پر بغیر شرمندگی یہ اطلاع دے دی جاتی ہے کہ پرنٹنگ میں خلل آ گیا ہے، ’’ لمنیشن پیپر‘‘ ختم ہو گیا، لہٰذا ذمہ دار افسر یعنی ڈی جی صاحب بچوں کے ساتھ غیر ممالک کی سیر پر گئے ہوئے ہیں ان کی واپسی ہو گی تو منظوری ملے گی پھر ’’ لیمینیشن پیپر‘‘ آئے گا تو پرنٹنگ شروع ہو گی اس سے پہلے پاسپورٹ کی ترسیل ناممکن ہے۔ اس صورت حال میں لاہوری تقریبا ستمبر کے آخر سے اب تک انتظار میں بیٹھے ہیں اچانک دو چار پاسپورٹ امید باندھنے کے لیے آ جاتے ہیں، باقی وعدہ فرداں پر جی رہے ہیں۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ 11اکتوبر والے ان دنوں دئیے جا رہے ہیں اس کے بعد کے کب ملیں گے کسی کو پتہ نہیں، یہ حالات شہر لاہور کے سات دفاتر کے ہیں۔ باقی شہروں میں شاید معاملات مختلف ہوں لیکن امید یہی ہے کہ چھوٹے شہروں میں مزید مشکلات ہوں گی۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر صوبائی دارالحکومت میں حکومتی خزانے کے لیے ’’ ریونیو‘‘ اکٹھا کرنے والا ادارہ اس انداز میں کام کر رہا ہے تو چھوٹے شہروں کا اندازہ ہم خود لگا سکتے ہیں۔ پاسپورٹ حاصل کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ یہی نہیں اس کے حصول کے لیے تمام تر دستاویزات اور حکومتی فیس بھی ایڈوانس ادا کرتا ہے جس کے جواب میں سرکاری ادارہ اسے سہولت کاری کی بجائے پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ روئیوں سے قومی اداروں کے خلاف بداعتمادی پیدا ہوتی ہے، لہٰذا لوگ مشکلات سے بچنے کے لیے غیر قانونی ذرئع استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اسی لیے ہر پاسپورٹ آفس کے باہر غیر سرکاری خدائی خدمت گار براجمان ہیں، وہ پہلے اَن پڑھ ، کم علم اور سادہ لوح افراد کو ’’ فارم اور چالان فارم‘‘ پُر کرنے کی غرض سے پھنساتے ہیں پھر ٹوکن کے حصول اور دیگر مشکلات کی کہانی سنا کر سہولت کاری کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور یہ سارا گورکھ دھندہ آفس کے سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے انجام پاتا ہے، یوں ایجنٹ لوگوں کی مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر قانونی دھندہ چلا رہے ہیں اور ذمہ دار افسران جو نظام کی بہتری کے لیے کچھ کر سکتے ہیں، وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اس لیے کہ غیر سرکاری سہولت کار پوری ذمہ داری اور ایمانداری سے ذمہ داروں کا حصّہ انہیں پہنچا دیتے ہیں، کوئی یہ بات سوچنے کو تیار نہیں کہ یہ سب چور بازاری قومی ادارے کی بدنامی کا باعث ہے۔ جب حکومت انہیں تنخواہوں کی مد میں رزق حلال دے رہی ہے تو وہ غیر قانونی، غیر اخلاقی انداز اپنا کر رزق حلال کو حرام میں کیوں تبدیل کر رہے ہیں؟
ہم اور ہمارے جیسے لوگوں کا ہمیشہ سے ایک ہی موقف ہے کہ قومی مسائل کے حصول کے لیے قومی اداروں کو ہر قیمت پر مستحکم کرنا ہو گا ، اگر ادارے مضبوط اور آزاد ہوں گے تو ہی مسائل حل ہوں گے لیکن قومی اداروں کی موجودہ پوزیشن ایسی نہیں، نہ ہی ان کے ذمہ دار افسران اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ان اداروں کا احتساب کون کرے گا۔ اگر ’’ کمائو پتر‘‘ پاسپورٹ آفس میں بے ضابطگیاں ایسی ہیں تو دوسرے اداروں کا کیا حال ہو گا لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں قومی اداروں کا کوئی پُرسان حال نہیں، چیک اینڈ بیلنس کا ایسا کوئی نظام نہیں جس سے اداروں میں بہتری پیدا کی جا سکے، حکومتی ذمہ داری یہی ہے کہ قومی اداروں میں وقت اور حالات کے مطابق اصلاحات کی جائیں۔ تاہم معاملات سنجیدگی سے سدھارنے کی اشد ضرورت ہے لیکن ماضی کی تمام حکومتوں نے ایسا کوئی فارمولا نہیں بنایا اور نہ ہی مستقبل میں کوئی امید ہے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی اور خوشحالی محض نعروں سے تو نہیں آئے گی اس کے لیے ’’ تھنک ٹینک‘‘ بنائے جائیں، جو مشترکہ حکمت عملی سے قومی سطح کی شعبہ جاتی تجاویز مرتب کرے اور حکومت خواہ کوئی بھی ہو، وہ مشاورتی پالیسی سے اس پر عمل درآمد کر کے قومی اداروں کی نہ صرف آزادی سے کام کرنے کی روایت ڈالے بلکہ سزا و جزا کا کوئی ٹھوس نظام بنائے جس سے اداروں کا قومی تشخص بحال اور کارکردگی میں بہتری لا کر انہیں استحکام دیا جا سکے ورنہ’’ قصّہ لاہور یوں کے پاسپورٹ کا‘‘ دوسرے شہروں کے شہریوں کے لیے بھی دہرایا جائے گا اور افسر شاہی محض تماشائی بنی رہے گی جس سے مسلسل اجتماعی نقصان ہوتا رہے گا اور مستقبل میں بھی اس قسم کی کوتاہی کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button