ColumnQadir Khan

غزہ تنازع۔ عرب ممالک بے بس

تحریر : قادر خان یوسف زئی
حماس اور اسرائیل کے درمیان تنازع کثیر جہتی جہتوں کے ساتھ ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ حالیہ واقعات، خاص طور پر 7اکتوبر کے آس پاس، نے تنازع کے مختلف پہلوں پر بحث و مباحثے کو جنم دیا ہے، جن میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO)کا کردار، حماس کا ابھرنا، اور وسیع تر جغرافیائی سیاسی منظر نامے شامل ہیں۔ تاریخی طور پر، پی ایل او نے فلسطینیوں کے حقوق کی وکالت میں مرکزی کردار ادا کیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا اثر و رسوخ بدلتا چلا گیا۔ تنظیم کو چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے خطے میں پیچیدہ سیاسی منظر نامے میں کردار ادا کرتے ہوئے تبدیلیاں کیں۔ حماس، افغان طالبان کی طرح منظر عام پر ایک عسکری تکنیک کے ساتھ وارد ہوئے ہیں لیکن ان کو کون سی قوت سپورٹ کر رہی ہے جو خود تو زمینی جنگ میں موجود نظر نہیں آتی لیکن اسرائیل کا مقابلہ کر رہی ہے ۔ قیاس کیا جارہا ہے حماس کو جنگ میں دھکا دیا گیا اور نتیجے کے طور پر آج اگر غزہ میں بدترین قیامت صغریٰ برپا ہے دراصل یہ عسکری اسٹریجی کی کمزوری ہے۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ کیا حماس کو معلوم نہیں تھا کہ اسرائیل اور اس کے دیرینہ اتحادیوں کا رد عمل کس قدر شدید ہوگا۔ فلسطینی کے مسئلے پر عرب ممالک نے کبھی براہ راست جنگ میں حصہ نہیں لیا ، صرف زبانی مذمت ہی کرتے رہے تاہم ایک بار تیل کی سپلائی روک کر ایک بڑی طاقت کا مظاہرہ ضرور کیا گیا۔ لیکن نتائج میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی فلسطین کی حدود سکڑتی چلی گئی اور اسرائیل من پسند علاقوں پر قابض ہوتا چلا گیا۔
درحقیقت 7اکتوبر سے قبل فلسطین سکڑ کر صرف علامتی ریاست بن گئی تھی اور عمومی رائے یہ بن گئی تھی کہ اسرائیل نے غزہ کو اپنے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ کے طور پر رکھا ہوا ورنہ غاصب اسرائیل چاہتا تو پورے غزہ پر قبضہ کر سکتا تھا ، سوال تو یہ بھی ہے کہ وہ عرب ممالک جو جنگ کے بغیر سیاسی حل چاہتے ہیں اس قدر بے بس کیوں ہیں، عالمی میڈیا نے غزہ کی صورتحال کو مخصوص نقطہ نظر سے کیوں پیش کیا ۔ پاکستان میں راقم نے بعض معروف اینکر پرسن کو حماس کو دہشت گرد تنظیم یا افغان طالبان کی مثل قرار دیتے ہوئے سنا تو معاملے کی سنگین ہونے پر سوال اٹھے۔ یہ بہت نازک مرحلہ ہے اور اس پر بحث اور میڈیا ہاوسز کی جانب سے خاموشی بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ایران جیسا ملک کو اسرائیل کا بدترین مخالف ہے، اس نے آج تک اسرائیل پر حملہ نہیں کیا حالانکہ، شام، عراق، لبنان اور یمن میں وہ اپنی جنگجو ملیشیائوں کے ساتھ پراکسی وار میں براہ راست ملوث ہے ۔ دوسری جانب مشرق وسطی کے کرداروں میں فلسطین کے پڑوس مسلم اکثریت ممالک کی بے بسی کی وجہ امریکہ سے تعلقات خراب نہ کرنا ہے یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ اگر فلسطین تنازع اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تو اس خطے پر ایرانی اثر رسوخ بڑھ جائے گا اور ایران کی وسعت پذیری کی قوت بڑھ جائے گی۔
عرب ممالک ایک مسلم امہ کے بجائے قومی تشخص کے ساتھ آنے والے نئے دور میں تیل کی دولت سے محروم ہو سکتے ہیں، وہ دور جدید میں ایران کا مقابلہ امریکہ ، روس کے تعاون کے بغیر نہیں کر سکتے تو آگے کا پس منظر ان کے لئے کیونکر قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔ یمن، سعودی جنگ نے اس حقیقت کو بڑے تلخ انداز میں نمایاں کیا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک کی اتحادی افواج، یمن جنگ کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکی تو اسرائیل کا مقابلہ کیونکر کر سکتے ہیں ۔ درحقیقت حماس ایک ایسی عسکری قوت بن چکی ہے، جس طرح افغان طالبان بنے۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کے ساتھ دو بدو جنگ میں بالآخر غیر ملکی افواج کو بار بار افغانستان سے نکالنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے بھی مذاکرات کے ساتھ عسکری قوت کا بھی مظاہرہ جاری رکھا ہوا تھا۔ اسرائیل کے جنگی قوت امریکہ سے تو زیادہ ہے، تاہم یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ حماس نے غزہ میں عسکری محاذ سنبھال لیا ہے تو صورت حال کو اس نہج پر لے جانا چاہتے ہیں کہ ان کا سیاسی ونگ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
بعض مسلم ممالک ، امریکہ کے ساتھ تعلقات کو خطرے میں نہ ڈالنے اور علاقائی طاقت کی حرکیات پر تشویش کے درمیان توازن جغرافیائی سیاسی تحفظات کے پیچیدہ جال میں ایک اور تہہ کا اضافہ کرتا ہے، عرب ممالک، بظاہر سیاسی حل کی وکالت کر رہے ہیں، تاہم خود کو ایک چیلنجنگ پوزیشن میں پاتے ہیں۔ خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ اور نئے دور میں ایک متحد مسلم امہ کی بجائے قومی شناخت کی تبدیلی کے ممکنہ نقصانات کا خوف فلسطین اسرائیل تنازع کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر کو پیچیدہ بناتا ہے۔ تنازع پر بین الاقوامی ردعمل متنوع رہا ہے، جس میں رائے عامہ حکومتوں پر دبا ڈالنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ افغانستان کی جنگ سے مشابہت یہ بتاتی ہے کہ دنیا بھر کے با شعور شہریوں کی طرف سے مسلسل دبائو سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر حماس-اسرائیل تنازع کی حرکیات میں تبدیلی لا سکتا ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان تنازع ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو تاریخی، جغرافیائی سیاسی اور علاقائی عوامل سے جڑا ہوا ہے۔ باخبر نقطہ نظر کو تیار کرنے اور دیرپا حل کے حصول کے لیے تعمیری مکالمے کو فروغ دینے کے لیے صورت حال کی باریکیوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ بیانیہ کی تشکیل اور سفارتی نتائج کو متاثر کرنے میں بین الاقوامی برادری کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا، خطے میں کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے ۔حماس، عسکری جنگ میں اسرائیل امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپ کو پیچھے تو دھکیل نہیں سکتی لیکن حالات میں اس قدر تنائو ضرور پیدا کر سکتی ہے کہ اسرائیل پاگل بھیڑیے کی طرح حملہ آور ہوتا رہے اور دو اشتعال میں آکر چنگیزیت کا کردار ر ادا کرتا رہے، اور دنیا کے با شعور عوام کے دبا وہ حکومتیں بھی امریکہ، اسرائیل پر دبا ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں جس طرح افغانستان کی جنگ میں امریکہ اور نیٹو کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ عرب اور ایران کو اپنے تحفظات دور کرنا ہوں گے۔ ویسے اچھے عرب و عجم کا وہ تشخص باقی نہیں رہا جو سیکڑوں برسوں سے تنازعات کی وجہ بنا ہوا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button