ہمارے قومی کرکٹروں کے لچھن
تحریر : روشن لعل
’’ لچھن‘‘ ہندی اور اردو زبانوں کا یکساں معنوں میں استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ لفظ ’’ لچھن‘‘ کو کسی کی چال ڈھال، رنگ ڈھنگ، کیفیت ، برتائو، نشانی ، علامت ، پہچان اور اسی طرح کی دیگر صفات بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس لفظ کا استعمال کسی کی مثبت صفتیں بیان کرنے کے لیے بھی ہوسکتا ہے ، مگر نہ جانے کیوں، اسے زیادہ تر منفی صفات اجاگر کرنے کے لیے لکھا اور بولا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فلموں میں کٹنی قسم کی عورتوں کے منہ سے اکثر بالی عمر کی لڑکیوں کے لیے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے ،’’ مجھے آج کل اس کے لچھن کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے‘‘۔ ’’ لچھن‘‘ صرف انسانوں کے نہیں اداروں کے بھی ہو سکتے ہیں۔ اداروں کے ’’ لچھن‘‘ اگرچہ ان کے نام سے منسوب ہوتے ہیں مگر ایسا ہونے کے لیے کردار کسی انسان نے ہی ادا کیا ہوتا ہے۔ انسانوں کے مبہم کردار اور برتائو کے سبب جس سول ادارے کے لچھن اکثر میڈیا میں زیر بحث رہتے ہیں وہ ’’ پاکستان کرکٹ بورڈ‘‘ ہے ۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں ان کے کرکٹ بورڈز کو کھلاڑیوں اور ٹیم کی اچھی بری کارکردگی کی بنا پر زیر بحث لایا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ ٹیم اور کھلاڑیوں کی کارکردگی کے ساتھ کرکٹ بورڈ کی عہدیدار شخصیات اور کھلاڑیوں سے وابستہ متنازعہ معاملات بھی زیر بحث آتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اچانک کسی کو بورڈ کا چیئرمین بنانے یا ہٹانے، اچانک بورڈ کا نیا آئین جاری اور پرانا منسوخ کرنے ، اچانک کسی مقامی یا بیرونی سابق کھلاڑی کو ٹیم کا کوچ لگا نے اور ہٹا دینے اور کسی معیار کی پروا کیے بغیر اپنی مرضی سے اچانک کسی کو قومی ٹیم کا چیف سلیکٹر اور سلیکشن کمیٹی کا رکن بنانے جیسے تنازعات اکثر ہمارے کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے کرکٹ بورڈ اور اس کے عہدیداروں سے جڑے تنازعات اتنے زیادہ ہیں کہ سمجھ میں ہی نہیں آتا کس پر تبصرہ کیا جائے اور کسے نظر انداز کر دیا جائے۔
تنازعات میں گھرے رہنے والے ہمارے کرکٹ بورڈ سے وابستہ نیا تنازعہ چیف سلیکٹر وہاب ریاض اور کرکٹ ٹیم کے سابق متنازعہ کپتان سلمان بٹ سے جڑا ہوا ہے۔ اوسط درجے کے کرکٹر وہاب ریاض کی وجہ سے لوگ اس وقت حیران ہوئے جب پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے عہدہ سنبھالتے ہی انہیں اس وقت اپنا کھیلوں کا مشیر نامزد کیا جب وہ ابھی پشاور زلمی کی نمائندگی کرتے ہوئے پی ایس ایل 8کے میچ کھیل رہے تھے۔ اس تقرری پر حیران ہونے والوں کی حیرانی اس وقت کچھ کم ہوئی جب انہیں یہ بتایا گیا کہ صرف نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی ہی نہیں بلکہ وہاب ریاض بھی ماڈل ٹائون لاہور کے رہنے والے ہیں۔ اس کے بعد وہاب ریاض کے حوالے سے لوگ اس وقت مزید حیران ہوئے جب انہوں نے یہ دیکھا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس حاضر سروس مشیر برائے کھیل کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی سونپ دیا۔ ماڈل ٹائون سے تعلق رکھنے والے وہاب ریاض نے لوگوں پر حیرانیاں طاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے نیا حیران کن کام یہ کیا کہ ماڈل ٹائون میں رہنے والے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق متنازعہ کپتان سلمان بٹ کو ٹیم کی سلیکشن میں مدد دینے کے لیے اپنا ایڈوائزر مقرر کر لیا۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ سلمان بٹ پر دیگر دو کھلاڑیوں سمیت اس میچ میں فکسنگ کرنے کا الزام سچ ثابت ہوا جس میں وہ انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کی کپتانی کر رہے تھے۔ فکسنگ کا الزام ثابت ہونے پر نہ صرف سلمان بٹ کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد ہوئی بلکہ انہیں جیل کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔ میچ فکسنگ کی وجہ سے جو میچ پاکستانی ٹیم کی کپتانی کرنے والے سلمان بٹ کا آخری ٹیسٹ میچ ثابت ہوا وہ ان کے ماڈل ٹائونی ہمسائے وہاب ریاض کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ وہاب ریاض نے انگلینڈ کے خلاف کھیلے گئے اپنے پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کر کے اپنی سلیکشن کو درست ثابت کیا مگر ٹیم کی سلیکشن میں کپتان کے عمل دخل کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر سلمان بٹ اس وقت ان پر مہربان نہ ہوتے تو وہ شاید اہل ہونے کے باوجود پاکستانی ٹیم کا حصہ نہ بن پاتے ۔ وہاب ریاض کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا اہل بنا کر سلمان بٹ میچ فکسنگ ثابت ہونے پر کسی بھی قسم کی کرکٹ کھیلنے کے لیے نااہل ہو گئے۔ اپنی سزا پوری کرنے کے بعد سلمان بٹ نے دوبارہ قومی ٹیم میں جگہ بنانے کی کوشش کی مگر وہ ماضی جیسی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ سلمان بٹ نے چاہے اپنی سزا پوری کر لی مگر متنازعہ ہونے کی شناخت سے جان نہ چھڑا سکے۔ اس متنازعہ شناخت والے انسان کو وہاب ریاض نے چیف سلیکٹر کی حیثیت سے اپنا مشیر مقرر کر کے مزید متنازعہ بنا دیا۔
متنازعہ سلمان بٹ کو وہاب ریاض کا مشیر مقرر کیے جانے کے فوراً بعد میڈیا پر طوفان کھڑا کرنے میں ایک میڈیا ہائوس نے خاص کردار ادا کیا۔ میڈیا پر طوفان اٹھنے سے قبل وہاب ریاض نے جس تیزی سے سلمان بٹ کو اپنا مشیر مقرر کیا تھا طوفان اٹھنے کے بعد اسی سرعت کے ساتھ ان کی تقرری کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا۔ یہاں ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ جس میڈیا ہائوس نے سلمان بٹ کے سلیکشن ایڈوائزر مقرر ہونے پر سب سے زیادہ شور مچایا اس میڈیا ہائوس نے بطور کرکٹ مبصر ان دو کھلاڑیوں محمد آصف اور محمد عامر کو اپنی کئی نشریات کا حصہ بنایا جو نہ صرف سلمان بٹ کے شریک جرم تھے بلکہ ان ہی کی طرح سزا یافتہ بھی ہیں۔ اب خدا جانے اس میڈیا ہائوس کا کیا اخلاقی معیار ہے جو سلمان بٹ کی سلیکشن ایڈوائزر تقرری پر تو شو مچاتا ہے مگر اس کے شریک جرم محمد آصف اور محمد عامر کو اپنے پروگراموں میں معتبر بنا کر پیش کرتا ہے۔
یہ وصف شاید ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں صرف عوام نہیں بلکہ بڑے بڑے میڈیا ہائوسز میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی اپنے خاص اغراض و مقاصد کے تحت پسندیدہ اور ناپسندیدہ بنا دی گئی شخصیات کو الگ الگ معیار کے تحت پرکھتے ہیں۔ جس ملک میں اس طرح کا لچکدار اخلاقی معیار ہو وہاں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ایک جیسے لوگوں میں سے کیوں کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرو بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کو ہیرو اور زیرو بنانے کے کھیل میں اگرچہ پراپیگنڈا مشینری بہت اہم کردار ادا کرتی ہے مگر کہیں نہ کہیں لوگوں کی خود سری اور یہ خیال بھی ان کے لیے مشکلیں پیدا کر دیتا ہے کہ کسی کی خاص مہربانی سے کوئی بڑا عہدہ ملنے کے بعد وہ کسی بھی حد تک اپنی من مانی کر سکتے ہیں۔ وہاب ریاض نے کسی کی خاص مہربانیوں اور من مانیوں کی بدولت پہلے مشیر کھیل اور پھر چیف سلیکٹر بننے کے بعد اپنی من مانیاں کرتے ہوئے سلمان بٹ کی ماضی کی مہربانیوں کا قرض چکانے کی کوشش کی ۔ یہ کام شاید اس سوچ کے تحت کیا گیا کہ ہمارے ملک میں اسی قسم کے لچھن سکہ رائج الوقت ہے ۔ یاد رہے یہ لچھن صرف قومی کرکٹروں تک محدود نہیں ہیں۔