Column

ٹریفک سگنل پر موجود کردار

تحریر : عبد الماجد ملک
یہ لاہور ہے، اس کی ایک مصروف ترین سڑک ہے، گاڑیاں رواں دواں ہیں، ٹریفک سگنل سرخ ہوتا ہے تو سبھی کو بریک لگ جاتے ہیں ،گاڑیاں رک جاتی ہیں اور اگر غور کیجئے تو یہاں آپ کو مختلف کردار دکھائی دیں گے۔
بریک لگتے ساتھ ہی کچھ بچے یا بچیاں ایک گندا سا وائپر لے کر آپ کے منع کرنے کے باوجود گاڑی کی سکرین کو صاف کرنا شروع کر دیں گے، اور وہ اس وقت تک آپ کا شیشہ بجاتے رہیں گے جب تک آپ انہیں کچھ دے نہیں دیتے یا چل نہیں پڑتے۔
کچھ بھکاری گاڑی کا شیشہ بجاتے ہوئے غم زدہ صورتوں کے ساتھ آپ سے مدد کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں۔
کچھ میک اپ زدہ ٹرانس جینڈر بھی ایک ادا کے ساتھ سامنے آتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے ،وہ خوبصورت ادا سے بات کریں گے ،دلچسپ القابات سے نوازیں گے اور جب آپ معذرت کر کے گزرنا چاہیں گے تو پھر لعن طعن کے ساتھ کبھی کبھی کوئی بددعا بھی دینے سے گریز نہیں کریں گے۔
کچھ ایسے ضعیف العمر ہاتھ میں کچھ کپڑا لیے آپ کی گاڑی کو صاف کرنے کی ناکام کوشش کرتے بھی دکھائی دیں گے اور ان کی ملتجیانہ نگاہیں یہی کہہ رہی ہوتی ہیں کہ صاحب امداد کر دیجئے۔
کوئی جوان بندہ ہاتھ میں بیلچا یا کوئی اوزار لیے آپ کی گاڑی کا شیشہ بجاتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ آج مزدوری نہیں ملی ، کچھ مدد کر دیجئے۔
یہاں آپ کو کئی ایسے کردار بھی دکھائی دیتے ہیں جو کوئی چیز فروخت کر رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ کے ہاتھ میں گاڑی صاف کرنے والا کپڑا ،پنسلز،غبارے،یا کوئی کھانے کی آئٹم ہوتی ہے اور ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی چیز خریدیں یا نہ خریدیں بس ہماری امداد ضرور کر دیں۔
ٹریفک کے اشارے پہ کچھ کردار گاڑیوں میں موجود ہیں جو اشارے کی طرف کم اور ارد گرد تانکا جھانکی میں مگن اور کئی لائن اور لین کی پروا کیے بنا ویسے اپنا ہارن بجا کر تسلی کرتے ہیں کہ آواز کیسی آ رہی ہے۔
اشارہ جب سرخ ہوتا ہے تو موٹر بائیک والے زگ زیگ کرکے اپنی موٹر سائیکل کو آگے بڑھاناضروری سمجھتے ہیں،اسی اثنا میں کئی لوگوں کو تکالیف بھی ہوتی ہے اور کبھی کبھار کسی کی نئی نویلی گاڑی پہ اپنا نشان بھی چھوڑ جایا کرتے ہیں ۔
ٹریفک کا اشارہ بند ہے اور ایک ایمبولینس کا سائرن سنائی دیتا ہے تو سبھی بے چین ہو کر اسے راہ دینے کی تدبیر کرتے ہیں ،اور بند سگنل پہ جب ایمبولینس نکلتی ہے تو پیچھے سے کئی ’’ ذمہ دار‘‘ اور جلد باز گاڑی والے بھی نکلنا فرض ِ عین سمجھتے ہیں ۔
ہمارے یہاں ابھی وی آئی پی کلچر زندہ ہے اور اس کے دم توڑنے کے دور دور تک کوئی آثار بھی دکھائی نہیں دیتے تو جب ایسی کوئی صورت بنتی ہے کہ پروٹوکول میں شخصیت گاڑی میں سوار ہے تو اشارے سرخ کی بجائے پیلے کر کے ٹریفک وارڈن میدان میں اترتے ہیں اورجلد ہی پروٹوکول کو نکلواکراپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں ۔
ٹریفک کے اشارے پر زندگی دوڑتے دوڑتے تھوڑی دیر کے لیے رکتی ہے تو سبھی کردار زندہ ہو کرمتحرک ہو جاتے ہیں۔اور کیا کبھی کسی مہذب دنیا میں ایسا ہوتا ہے ؟اگر نہیں ہوتا تو اس کی وجوہات میں سے اہم یہی ہے کہ یہاں بھوک ہے ،مہنگائی ہے اور روزگار کی کمی ہے لیکن ساتھ میں شاید ہم سہل پسند بھی واقع ہوئے ہیں ۔
جو کم عمر بچے اور بچیاں وائپر ہاتھ میں لیے سگنل پہ بظاہر گاڑیوں کا شیشہ صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں ،جو بھکاری ہاتھ پھیلائے مانگ رہے ہوتے ہیں ،اور جو جوان مزدوری نہ ملنے کا شکوہ کرتے بھیک مانگتا ہے ،ان سب کے لیے حکومت کو کوئی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔
جو موٹر بائیک والے زگ زیگ کر کے آگے نکلنے کی تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں ،ان کے لیے علیحدہ لائن ہونی چاہئے اور جو گاڑی والا لائن اور لین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا چالان کریں تاکہ شاید ہمیں عقل آ ہی جاوے اور ہم قانون پہ چلنے والے بن جائیں۔
ان سب کے لئے بھاری ذمہ داری ٹریفک کے سگنل پہ تعینات وارڈنز پہ ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور یہ کام کر گزریں ،دیگر حکومتی ادارے بھی بھوکوں کے لیے اور بے روزگاروں کے لیے کوئی حکمت عملی بنائیں ،ہمارے یہاں مختلف این جی اوز تعلیم اور روزگار کے مواقع کے حوالے سے بڑے بڑے سیمنیار کا انعقاد کرتی ہیں ،انہیں بھی میدان عمل میں اترنا چاہیے۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ بھکاریوں نے اپنا اپنا سگنل مختص کر رکھا ہوتا ہے اور وہاں کوئی نوارد مانگنے والے کو قابض گروہ بھگا دیتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان بھکاریوں کی باقاعدہ تنخواہیں ہیں کہ وہ اپنی ڈیوٹی کریں ،بھیک مانگیں ، روزانہ کی آمدن اکٹھی کرکے اپنے ’’ ٹھیکیدار‘‘ کو دیں اور مہینے بعد تنخواہ وصول کر لیں ،اور بات بھکاریوں کی ہو تو بدقسمتی سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ کچھ ماہ پہلے سینیٹ میں یہ بات زیربحث ہوئی تھی کہ دنیا میں پکڑے جانے والے بھکاریوں کی اکثریت کی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔
بہر کیف بات ٹریفک کے اشارے کی ہو رہی تھی تو یہی ہے کہ ٹریفک سگنل سرخ رہے گا تو مختلف کردار دکھائی دیں گے اور جب سبز ہو گا تو یہ کردار بھی چل پڑیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button