
امریکی دفتر کے مطابق خصوصی ایلچی برائے یمن خلیجی ملکوں کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ امریکی ایلچی کا یہ دورہ بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حوثیوں کے حالیہ راکٹ حملوں کے بعد طے کیا گیا ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ حوثی اس سے پہلے شام کے علاقے میں امریکی فوجی اڈوں پر بھی راکٹ داغنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
امریکی ترجمان کے مطابق ان حملوں سے یمن میں جنگ ختم کرنے کی مشترکہ کامیابی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ایلچی ٹم لینڈرکنگ اسرائیل حماس جنگ کو بھی اپنی توجہ میں رکھیں گے۔
واضح رہے ایرانی حمایت یا حوثی سات اکتوبر سے امریکی حمایت یافتہ اسرائیل پر بھی میزائل داغ رہے ہیں۔ اسی طرح امریکی تنصیبات کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی امریکی اہداف کے خلاف کارروائیوں کی وجہ اسرائیل حماس جنگ میں امریکہ کا اسرائیل کی کھلی حمایت کرنا اور اپنی عظیم بحری اثاثوں کو بحر متوسط میں بھیج دینا ہے۔
امریکی دفتر خارجہ اس تناظر میں ٹم لینڈرکنگ امریکی سفارتکاری اور علاقائی رابطہ کاری کو جاری رکھیں گے تاکہ بحیرہ احمر، خلیج عدن میں میری ٹائم سیکیورٹی کو حوثی حملوں سے محفوظ بنانے میں حمایت حاصل کر سکیں۔
بتایا جاتا ہے امریکی جنگی جہاز حوثیوں کے راکٹ اور میزائل باہم بہت قریب آچکے ہیں۔ پیر کے روز امریکی دفاعی حکام نے کہا تھا امریکی بحری بیڑہ یو ایس ایس کارنی نے حوثیوں کی طرف سے داغے گئے ایک ڈرون کو روک دیا ۔ یہ ڈرون بحیرہ احمر کی طرف بڑھ رہا تھا۔
کارنی نے کم از کم ایک بلیسٹک میزائل سول تجارتی جہاز کی طرف فائر ہوتا ہوا دیکھا ہے۔ جب کارنی یونٹی ایکسپلورر کی معاونت کر رہا تھا۔ اسی طرح ایک روز امریکی فوج نے ایرانی ‘یو اے وی’ کو طیارہ بردار آئزن ہاورکے قریب تر روکا۔ صرف ایک پیر کے دن حوثیوں کی طرف سے چار مرتبہ تجارتی بحری جہازوں پر راکٹ داغے گئے۔
امریکی ایلچی اس پس منظر میں اسرائیل حماس جنگ کو غزہ کے اندر تک روکے رکھنے کی ضرورت پر زور دیں گے۔ نیز یمن میں استحکام کی ضرورت پر بات کریں گے۔
امریکی دفتر خارجہ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں پھیلاؤ کرنے والا تصادم امریکی مفاد میں ہے نہ ہی علاقے میں اس کے شراکت داروں کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر امریکہ اپنے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر تجارتی جہازوں کے راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ سعودی عرب، امارات، اومان اور دوسرے ملکوں کےساتھ بھی اس سلسلے میں رابطہ ہے۔