ColumnTajamul Hussain Hashmi

نیشنل یونٹی پر کون متفق نہیں

تجمل حسین ہاشمی
سابق وفاقی وزیر محمد علی دارنی کا تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا نام لیتے ہوئے کہنا تھا کہ’’ نواز شریف ، آصف زرداری اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے کی بجائے متبادل قیادت سامنے لانی چاہئے‘‘۔ محمد علی درانی جو پاکستانی سیاست میں کافی اہم سمجھے جاتے ہیں، ان کی طرف سے سابق صدر آصف علی زرداری کے نیشنل یونٹی گورنمنٹ کی تشکیل کے پلان کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ دوسرے سیاستدانوں کو بھی اسی سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ سینئر سیاست دان محمد علی درانی کئی مہینوں سے سیاست میں کافی متحرک تھے، سیاسی ملاقاتوں سے لگ رہا تھا کہ محمد علی درانی کی انٹری سیاسی ہیٹ کو مصلحت کی طرف موڑ دے گی، تجزیہ نگار بھی ٹی وی چینلز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے نظر آئے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی گرمائش میں بہت کمی نظر آئے گی، جو اب آنا شروع ہو گئی ہے۔ سابق وزیر اطلاعات محمّد علی درانی کا کہنا تھا کہ صدر سے تین ملاقات ہوئی ہیں، سارے رابطے سیاسی ہیں، میرا کوئی دوسرا رابطہ نہیں ہے۔ ملک میں منتخب نیشنل گورنمنٹ کی تشکیل کا پلان دیا ہے۔ پارلیمانی ڈھانچے میں رہتے ہوئے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے نیشنل یونٹی گورنمنٹ بہت ضروری ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے بھی نیشنل یونٹی حکومت کا پلان کا اظہار کیا گیا، جس کا درانی صاحب کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا۔ یہاں ایک بات تو واضح ہے کہ ملک میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں، میاں نواز شریف کی آمد اور ان کو دئیے جانے والے پروٹوکول نے دوسری سیاسی جماعتوں میں ہلچل مچا دی، سیاسی حلقوں میں خاص کر بلاول بھٹو زرداری کے بیانات سے ایسا تاثر پیدا ہوا کہ شاید طاقتور حلقوں نے مسلم لیگ ن کو ون سائیڈ گرائونڈ دے دیا ہے ۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے بھی ایسا تاثر پیدا کیا جا رہا تھا کہ اگلے الیکشن کی وننگ ٹیم کا کپتان میاں نواز شریف ہو گا، چند ایک سیاسی جماعتوں کے الیکشن سے پہلے ن لیگ کے ساتھ الحاق نے سیاسی ماحول کو تھوڑا گرم کر دیا ہے ، اس جوڑ توڑ پر پیپلز پارٹی کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ کی آوازیں آنے لگیں۔ کیا آصف علی زرداری نے الیکشن کے بعد نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا عندیہ دے کر چوتھی باری والوں کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ خاندانی سیاست کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ بلاول کی ناراضی کی وجہ اور کیا بن سکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف تو ابھی زیر عتاب ہے، جس کے 200 سے زائد رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ باقی ادھر ادھر ہیں۔ ان کے بیانات کی اس وقت کہیں کوئی سنوائی نہیں کیوں کہ 9مئی ایک سیاہ دن تھا۔ جس کی تلافی آسان نہیں۔ ریاست پر حملہ معمولی عمل نہیں ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی کی طرف سے واضح بیانات آ رہے تھے کہ لاہور سے وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے، مولانا فضل الرحمان نے بھی مخلوط حکومت کی حمایت کر دی ہے، لیکن اگر الیکشن کے بعد نیشنل یونٹی گورنمنٹ قائم ہوتی ہے تو بظاہر کسی بھی سیاسی جماعت کو اس پر تحفظات یا اعتراض نہیں ہونا چاہئے اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ پچھلے 40سال سے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کی حقیقت عوام کے سامنے کھل چکی ہے، دنوں بڑی جماعتوں جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کئی، کئی بار حکومت کر چکی ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں پچھلے 15سال سے بیٹھے تھے، دونوں جماعتیں حکومت بنانے کی تگ و دو میں تھیں، لیکن اب ایک دبئی میں ہے اور دوسرے خاموش ہو چکے ہیں ، فی الحال مذاکراتی کمیٹیاں بنا کر وقت اور حالات کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کو اپنے اندرونی حالات کا بھی اندازہ ہے۔ پچھلے 17ماہ کی کارکردگی بھی ان کے سامنے ہے۔ اس مرتبہ الیکشن میں کسی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو سکتی۔ تیری اور میری کی کھچڑی اب عوام کو قبول نہیں ہو گی، اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کی کرپشن لوٹ مار اور کمر توڑ مہنگائی ہے، چوتھی باری کسی کو نہیں ملے گی۔ 100ارب کی سبسڈی جس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ نگران حکومت اور عسکری اداروں کی بہتر پلاننگ اور مافیا کے خلاف بروقت ایکشن سے ملکی معیشت کو سہارا ملا ہے، اداروں کے بروقت ایکشن اور حکومتی پلاننگ سے مہنگائی میں بہت حد تک بریک لگ چکا ہے۔ سیاسی افراتفری سے مافیا نے ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی کی، سمگلنگ سے مال کمایا۔ حکومتی خزانوں کو بھر پور نقصان پہنچایا۔ اس وقت اگر حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈال دی گئی تو بجٹ میں کی گئی پلاننگ اور اعلیٰ اداروں کی طرف سے بنایا گیا معاشی پلان کمزور ہو جائے گا، کئی ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے حوالے سے کئے گئے اقدامات روک جائیں گے۔ نگران حکومت اپنی ایکسپورٹ کو 100ارب تک لے جانے کا پلان بنا رہی ہے۔ اس وقت اعلیٰ اداروں کا فوکس ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنا ہے، یقینا منصوبوں کی تکمیل کے لیے ملک میں سیاسی انتشار کو ختم کرنا ضروری ہے، احسن اقبال کی طرف سے بنائے کے 5Eپر کام انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر موجود ہونا ضروری ہے۔ محمد علی درانی کا گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’’ پاکستان تحریک انصاف کو مقدمات کا سامنا کرنا ہے، اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی لیکن سیاسی نظام کو چلانا چاہئے۔ اس مرتبہ سیاسی جماعتوں کو ووٹ حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ مزید کہنا تھا کہ آنے والے الیکشن میں عوام پہلی دفعہ بھر پور حصہ لیں گے‘‘۔ یہ بات یقینی ہے کہ آنے والا الیکشن معمولی نہیں ہو گا، یہ الیکشن پاکستان کی سیاسی سمت کا تعین کرے گا۔ صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ اگر 2018کی طرح حکومت بنائی گی تو دو سال سے زیادہ نہیں چلے گی۔

جواب دیں

Back to top button