Column

لفظی گولہ باری کے بجائے عوامی منشور دینا چاہئے

عبد الرزاق برق
اس وقت ملک میں الیکشن کا ماحول بنا ہوا ہے، سیاسی درجہ حرارت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہاہے، ہماری قومی سیاست کا مزاج رکھتے ہوئے الیکشن کے اس ماحول میں بجائے یہ کہ ہم عوام کو ایک اچھا انتخابی منشور دیں، ہمارے ایک نوجوان سیاستدان نے الزام تراشیوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے اور ساتھ ہی لفظی گولہ باری بھی شروع کردی ہے، کسی کو لاڈلہ کہتے ہیں، کسی کو مہنگائی لیگ کا طعنہ دیتے ہیں، کسی سیاستدان کے نام لئے بغیر ان کے انتخابی نشان کو شیر کہنے کے بجاءے انہی بلی کہتے ہیں، ہمارے نوجوان سیاستدان کہتے ہیں کہ ملک کے آنے والے الیکشن میں بزرگ سیاستدانوں کو گھر پربیٹھ جانا چاہئے، بقول ان کے بزرگ سیاستدانوں میں وہ دم خم نہیں ہوتا جو نوجوانوں میں ہوتا ہے، ان کے کہنے کے مطابق ان پرانے سیاستدانوں نے ہمارے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے اور پرانے سیاستدان جو سیاست کر رہے ہیں اس سے ہمارے مسائل میں اور اضافہ ہوگا، یہ وہی کچھ کر رہے ہیں جس سے پاکستان کو 70سے نقصان ہوا ہے۔ سیاست کرنا صرف اقتدار کا نام نہیں بلکہ سیاست ایک عبادت سمجھ کر کی جاتی ہے۔ آئین میں قانون سازی کی جاتی ہے، یہ فرائض بابے بہتر طریقے سے نبھا سکتے ہیں اور بابے ہر معاشرے، ادارے، ہر شعبہ زندگی کی ضرورت ہوتے ہیں اور پھر عوام کو کسی جوان یا کسی بزرگ سے کیا سروکار، ان کے لئے وہی اچھا جوان کے اور ملک کے مسائل کی بات کرتا ہے اور انہیں حل کرنے کے لئے بے تاب ہو، کوءی جماعت ملک و قوم کے لئے کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے یہ سامنے آنا چاہئے۔ اب تک جو کچھ دیکھنے کومل رہا ہے اس میں وہی گلے شکوے اور الزام لگانے کی سیاست ہے جو یہاں کے لوگ کئی نسلوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ نوجوانوں کو کار زار سیاست میں ایک الگ طرح سے آزمانا چاہئے، اپنا انتخابی بیانیہ منشور کی بنیاد پر سامنے لے آئیں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ کس کے پاس کیا منصوبہ بندی ہے، زراعت کے لئے، صنعت کے لئے، مزدور کے لئے کیا پالیسی رکھنی چاہئے۔ عوامی حمایت کے لئے عمر نہیں سیاسی عزائم کو اہمیت دینی چاہئے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ آج کے نوجوان یہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی سیاستدان کسی کا لاڈلہ بن جائے، انہیں سیاست کرنی چاہئے، آج کے نوجوان یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی بھی بزرگ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کسی کے پیچھے بھاگے۔ آج کے نوجوان یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی بھی کسی کی طرف سے سلکٹیڈ بنے۔ یہ جو اس وقت ہورہا ہے یہ ہمارے لئے اچھا نہیں ہورہا، یہ شو کرنا اور کسی کے کاندھے پر سوار ہوکر اقتدار حاصل کرنا اچھی روایت نہیں۔ پاکستان میں اس وقت جو ووٹرز ہیں ان میں 18سے 45برس تک نوجوان ہیں، ان کی تعداد آٹھ کروڑ چالیس لاکھ ہے، اس کے معنی یہ ہیںکہ ان نوجوانوں نے 45سال سے پاکستان کی سیاست دیکھی ہے، کیا اس ملک کا بیڑا ان بزرگوں، دانشوروں، سنیئرز اور سمجھدار لوگوں نے غرق کر دیا ہے؟ کیا آدھا پاکستان ان بزرگوں اور دانشورں نے گنوا دیا ؟ کیا اس ملک کو بھیک مانگنے پر ان بزرگوں اور دانشوروں نے مجبور کیا ہے ؟ اب اگر ہمارے نوجوان الیکشن کے ذریعے کامیاب ہوں گے تو ہمارا فیوچر ہیں، قطع نظر اس کے کہ پارٹی کون سی ہے، ووٹ 45برس کے لئے ہو سیاست دان تو وہ ہے جو لوگوں کو اندھیرے سے نکال دے لیکن ہمارے سیاستدان کسی اور سے مدد مانگتے ہیں، خود سے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ کسی اور کو کہتے ہیں کہ انہیں لے آئے، آپس میں ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے بجائے کہیں اور دیکھتے ہیں، رہ گئی یہ بات کہ ملک میں حالیہ مہنگائی ن لیگ کی طرف سے پیدا ہوئی ہے لیکن یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہpdmکے 16ماہ کی حکومت میں جو بھی فیصلے ہوئے اس میں بلاول بھٹو زرداری برابر شریک رہے ہیں، جب ن لیگ نے ملک کے اندر مہنگائی پیدا کی، اس وقت سابق وزیر خارجہ نے مخالفت کیوں نہیں کی ؟ حالانکہ کسی بھی حکومت میں جو کابینہ ہوتی ہیں اس کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو اور ان کے پارٹی کے وزرا pdmکی مخلوط حکومت میں آخری لمحے تک شریک رہے، ان کا 16ماہ کے دوران کابینہ کے کسی بھی فیصلے سے اختلاف رکھنے کا ریکارڈ نہیں، کیا وہ ہر فیصلے میں شریک رہے، سب کو پتہ ہے کہ پی پی 16ماہ میں شہباز شریف کی بے پناہ تعریف کرتی رہی، اب آج وہ کون سا بیانیہ سمجھتے ہیں کہ وہ بکے گا، جب اکٹھی رہے تو حکومت پر کوئی تنقید نہیں کی گئی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کیوں کرتے ہیں؟ اس کا فائدہ اور نقصان کیا ہوگا ؟ اور ایک دوسرے کو نشانہ بنانے سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کا مقصد کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب یہ ہے پی پی کے نوجوان سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری لوگوں سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ دوسروں پر سیاسی الزام لگا کر اپنے لئے سپیس حاصل کرنا چاہتے ہیں اور الیکشن کے بعد جو نیا سیٹ اپ نئی حکومت کی شکل میں بنے گا، اگر پی پی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو اس میں وہ اپنا حصہ چاہتے ہیں کیونکہ اگلے سال ہونے والے انتخابات میں پی پی کے پاس40یا50 سیٹیں آئیں تو اس سے ایک مخلوط حکومت بننے کے امکان ہے ۔ پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری ہمیشہ سیاسی ڈائیلاگ کرتے ہیں جبکہ جارحانہ سیاست کرنے اور ووٹ بینک کے لئے بلاول جو ہیں، وہ لیڈ کر رہے ہیں اور جو پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات ہیں اس کے لئے زرداری ڈیل کرتے ہیں لیکن مقصد دونوں کا ایک ہے، زیادہ سے زیادہ سپیس لینا، دونوں اکٹھے ہیں، دونوں کے اگرچہ تضاد نظر آتے ہیں لیکن ہیں نہیں، پی پی کے جو بھی اہداف ہیں اس میں وہ کامیاب ہوجائیں گے، کیونکہ اس وقت جو حکمت عملی سامنے آئی ہے اس کے اصلی معمار آصف علی زرداری ہیں، یہ وہی گیم ہے جو گڈ کاپ اور بیڈکاپ والی نوازشریف، شہباز شریف کھیلتے تھے۔ آصف علی زرداری کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ آنے والے الیکشن میں شمالی پنجاب سے راجہ پرویز اشرف نے جو سیٹ گزشتہ الیکشن میں جیتی تھی، آج بھی اسی سیٹ کو جتنے پرزور دیں گے، اس کے بعد سینٹرل پنجاب میں اگر منظور وٹو ساتھ آجاتا ہے، شاید اسی سیٹ پر مقابلہ ہو، جنوبی پنجاب میں یوسف رضا گیلانی دو سیٹوں پر، ایک سیٹ پر ان کا بیٹا لڑے گا۔ مظفر گڑھ کی دو سیٹیں ہیں، یہ سارے پنجاب سے سات سیٹیں زیادہ نہیں لیں گے۔ بلوچستان سے باپ پارٹی پی پی کے ساتھ شامل نہیں ہوئی، وہ ن لیگ کے ساتھ شامل ہوگئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی پی کے لئے سپیس نظر نہیں آتی۔ پی پی کا پہلے یہ خیال تھا شہری سندھ کے اندرmqmکی جگہ پروہ آٹھ سیٹیں لے لیں گے لیکن جب سے mqm ن لیگ اتحاد ہوا ہے اور پی ٹی آئی وہاں موجود ہے تو ایسے میں پی پی کا اتنی سیٹیں لے جانا ممکن نظر نہیں آرہا اگر تین سے چار سیٹیں شہری سندھ سے بھی لے جاتے تو یہ بڑی بات ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button