اغوا ہونے سے بچیں

رفیع صحرائی
چوری چکاری اور ڈاکہ زنی کی نسبت اغوا کاری زیادہ منافع بخش پیشہ رہا ہے۔ یہ پیشہ جرائم پیشہ افراد کے لیے جس قدر منافع بخش ہے اسی قدر خطرناک بھی ہے۔ لوگوں کے درمیان میں سے کسی کو اغوا کر لینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اغوا کی کامیاب واردات کے بعد مغوی کو محفوظ مقام پر رکھنا، اس کے ورثاء سے رابطہ کرنا، پولیس کا ڈر، رابطے کے لیے کی گئی فون کال کے ٹریس آئوٹ ہونے کا خطرہ، رقم کی محفوظ طریقے سے وصولی اور مغوی کی رہائی سمیت بہت سے مراحل ایسے ہوتے ہیں جہاں ہر لمحے پکڑے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ پیشہ ور لوگ بڑے منظم گروہ کی صورت میں ایسی وارداتیں کرتے ہیں اور تمام خطرات کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ اغوا کی وارداتوں میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مغوی کو مناسب رقم کے عوض کسی دوسری پارٹی کو بیچ کر مال کھرا کر لیا جاتا ہے۔ گو ایسی صورت میں رقم کم حاصل ہوتی ہے مگر بہت سے خطرات کا سامنا کرنے سے بھی بچت ہو جاتی ہے۔ مغوی کو خریدنے والی پارٹی کئی گنا منافع سمیت تاوان کی رقم وصول کرنے کے بعد ہی مغوی کو رہا کرتی ہے۔ ورثاء پر زیادہ سے زیادہ دبائو ڈالنے کے لیے مغوی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی چیخ و پکار اور آہ و بکا کی ویڈیوز اور آڈیوز ریکارڈ کر کے ورثاء کو بھیجی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر کیسز میں ورثاء پولیس پر اعتماد کرنے کی بجائے مغوی کی جلد اور باحفاظت رہائی کے لیے گھبرا کر اغوا کاروں کا مطالبہ پورا کر دیتے ہیں۔ پنجاب پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اغوا کی زیادہ تر وارداتوں کو ٹریس آئوٹ کر کے اغوا کار گروہوں کی کمر توڑ دی ہے۔ پنجاب کے اندر اغوا کی منظم اور پیشہ ور گروہوں کے ذریعے وارداتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو پولیس ڈیپارٹمنٹ کا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انتہائی پروفیشنل انداز میں اغوا کاروں تک پہنچنا ہے دوسرا پنجاب میں ایسے محفوظ ٹھکانے بھی موجود نہیں ہیں جہاں پولیس کی رسائی ناممکن ہو۔ گزشتہ سال جنوبی پنجاب میں کچھ خطرناک لوگ پولیس کے لیے چیلنج بنے تھے مگر آر پی او فیصل رانا نے بڑی مہارت اور دلیری سے انہیں کچل کر رکھ دیا تھا۔ البتہ سندھ میں اغوا برائے تاوان کا دھندہ پورے زور شور اور دھڑلے سے جاری ہے۔ خاص طور پر کشمور، گھوٹکی اور ضلع رحیم یار خان ( صوبہ پنجاب میں واقع صوبہ سندھ سے ملحقہ) میں عملاً ڈاکو راج نافذ ہے۔ ان اضلاع کی پولیس جرائم پیشہ لوگوں کے آگے پوری طرح سے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اضلاع میں ایسے علاقے موجود ہیں جو جرائم پیشہ لوگوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کام دیتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے گروہ کی صورت میں جدید ترین اسلحہ سے لیس ہو کر نکلتے ہیں، لوٹ مار کے علاوہ لوگوں کو اغوا بھی کرتے ہیں اور کچے کے علاقے کی طرف اپنی پناہ گاہوں میں پہنچ جاتے ہیں جو عملاً علاقہ غیر بنا ہوا ہے۔ عام شہریوں کے علاوہ پولیس اہلکار تک اغوا کر کے وہاں لے جائے جاتے ہیں اور اپنی شرائط منوا کر انہیں چھوڑا جاتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کسی شخص کے پاس ایک موبائل فون کی مدد سے آپ اس شخص کی مکمل نقل و حرکت سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر اس کو کہیں لے جایا گیا ہے تو اس کی آمدورفت کے راستے اور موجودہ لوکیشن کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ جگہ جگہ سرکاری اور نجی طور پر نصب شدہ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے بھی لوگوں کی نقل و حرکت ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے واردات کے لمحات کے علاوہ جرائم پیشہ لوگوں کی حرکات و سکنات سے آگاہی اور شناخت میں بھی مدد مل جاتی ہے اور اس طرح پولیس مجرموں کا تعاقب کر کے انہیں راستے میں ہی گھیر لیتی ہے۔ یوں ٹھکانے پر پہنچنے سے پہلے ہی مجرم دھر لیے جاتے ہیں۔اغواء کاروں نے بھی ان خطرات کی وجہ سے اپنے طریقہ ہائے واردات میں تبدیلی کر لی ہے۔ اب انہوں نے فیس بک پر ایسے پیجز اور گروپ بنا لیے ہیں جن کی مدد سے وہ لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور شکار خود چل کر شکاریوں کے پاس پہنچ جاتا ہی۔ فیس بک پیجز پر اور گروپوں میں مزدا گاڑیوں، کاروں، ٹرکوں، ٹریکٹر ٹرالوں اور بڑے ٹرالوں کی تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ ان گاڑیوں کو چلتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور ساتھ ہی حیرت انگیز قیمت بھی بتائی جاتی ہے۔ مثلاً تیس لاکھ والی گاڑی کی قیمت آٹھ یا دس لاکھ، مہران سوزوکی سوا سے ڈیڑھ لاکھ۔ یہ قیمتیں اتنی کم ہوتی ہیں کہ جو بھی یہ ویڈیوز دیکھتا ہے اس کے دل میں ان میں سے کوئی نہ کوئی گاڑی خریدنے کی خواہش مچلنے لگتی ہے اور وہ دیئے ہوئے نمبر پر رابطہ کر بیٹھتا ہے۔ اس کے فون نمبر کو واٹس اپ گروپوں میں شامل کر لیا جاتا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر اسے گاڑیوں کی ویڈیوز بھیج کر اس کے شوق کو بھڑکایا جاتا ہے۔ خریدار سستی ترین گاڑی خریدنے کے لالچ میں رقم بٹوے میں ڈال کر دئیے ہوئے پتے پر پہنچتا ہے جہاں کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل اس کی منتظر ہوتی ہے۔ اس کے بعد خریدار رقم سمیت غائب ہو جاتا ہے۔ اسے ’’ محفوظ ٹھکانے‘‘ پر پہنچا کر رقم چھین لی جاتی ہے اور مزید رقم کے لیے ورثاء سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ یوں سستی گاڑی کے لالچ میں وہ خود چل کر اغوا کاروں کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔ سستی گاڑیوں کے یہ خریدار زیادہ تر پنجاب اور کے پی سے ہوتی ہیں۔ کے پی کے لوگ گاڑیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اس لیے وہ ان وارداتوں کے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔
اغوا کار لوگوں کو اغوا کرنے کے لیے اب لڑکیوں کی خدمات بھی حاصل کرنے لگے ہیں۔ ’’ ٹارگٹ‘‘ کا نمبر حاصل کر کے بظاہر رانگ نمبر پر کال کر کے لڑکی مطلوبہ فرد کو اپنے جال میں پھانستی ہے۔ واٹس اپ پر ویڈیو کال کے ذریعے اس کی آتشِ شوق کو بھڑکاتی ہے۔ اسے کسی مقام پر ملاقات کے لیے بلاتی ہے اور شکار کچے دھاگے سے بندھ کر مقررہ مقام پر پہنچ کر اغوا ہو جاتا ہے۔
اغوا کار ایک طریقہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ وہ طریقہ جانوروں کی خرید و فروخت کا ہے۔ عید الاضحیٰ کے قریب فیس بک پر قربانی کے سستے ترین جانوروں کی فروخت سے متعلق پیجز اور گروپ بن جاتے ہیں۔ خوب موٹے تازے جانور انتہائی کم قیمت پر فروخت کے لیے پیش کئے جاتے ہیں۔ لالچ میں آ کر اکثر لوگ سستے جانور خریدنے نکل پڑتے ہیں اور پھر اپنے لواحقین کے ساتھ ساتھ پولیس کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے خود بھی خبردار رہیں، اپنے رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کو بھی اغوا کاروں کے ان طریقوں سے مطلع کریں۔ اپنے پیاروں اور خود کو اغوا ہونے سے بچائیں۔