Column

جب آوے کا آوا ہی بگڑ جائے تو !

یاور عباس
اسلامیہ جمہوریہ پاکستان بے پناہ مسائل سے دوچار اور ان گنت مشکلات کا شکار ہے، کوئی ایک محکمہ خراب ہو، کوئی ایک مسئلہ ہو تو اس پر پوری توجہ دے کر ٹھیک کیا جاسکتا ہے مگر یہاں جس شعبہ میں نظر دوڑائیں خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے، جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اس طرح محکمہ جات کے اندر اہلکار، افسر بھی ایک جیسے نہیں ہوتے، کچھ خدا کے نیک بندوں موجود ہیں جو یہ ملک چل رہا ہے وگرنہ کوئی محکمہ ایسا نہیں ہوگا جس کے بارے میں کوئی پاکستانی حلفاً کہہ سکے کہ یہاں کرپشن نہیں ہے، رشوت اور سفارش کے بغیر ہر کام میرٹ پر ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ، انصاف، خوشحالی، امن و امان کی عالمی رینکنگ میں ہم بہت پیچھے ہیں، ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس ریس میں شاید جیتنے کی کوشش ہی نہیں کی ہمارے تمام محکمہ جات عالمی رینکنگ میں ٹاپ ٹین پوزیشن میں آجائیں، پاکستان کے مسائل کی فہرست بہت طویل ہے، کرپشن اگرچہ سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر کرپشن روک تھام کرنے کے لیے قانون سازیاں کرنے والے ہی کرپٹ ہوں اور خود کرپشن کو تحفظ فراہم کرنے لگیں تو پھر ملک سے کرپشن کا خاتمہ ایک خواب ہی ہوسکتا ہے ۔ کرپشن کی وجہ سے ریاستی اداروں کی جڑیں تقریباً کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ اربوں ڈالر کے قرضے لینے کے باجود ملک پائوں پر کھڑا ہونے کی بجائے ہر وقت ڈیفالٹ کے خطرات سے دوچار رہتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض کی رقم ملتی ہے تو چند ماہ گزر جاتے ہیں وگرنہ مایوسیوں کے بادل ڈیرے ڈال لیتے ہیں کہ خدا جانے اب کیا ہوگا؟۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث متوسط طبقہ کے نوجوان اپنے مالی حالات بہتر کرنے کے خواب سجائے بیرون ملک کا رُخ کرتے ہیں اور وہ بھی غیر قانونی طریقے سے، لیبیا میں کشتی حادثات کی وجہ سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں اس سے قبل بھی کوئی دن ایسا نہیں ہوگا جب کوئی پاکستانی بارڈر کراس کرتے جان سے ہاتھ دھو نہ بیٹھتا ہو۔ پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے چکر میں جاتے ہیں اور مغربی ممالک انہیں اپنے پاس ہی پرکشش تنخواہیں دے کر رکھ لیتے ہیں اور پاکستان سے قابل ترین نوجوانوں کو سکالر شپ پر تعلیم اور نوکریوں کی آفر دے کر بلا لیتے ہیں، پاکستان سے گزشتہ دو سالوں کے دوران لاکھوں نوجوان روزگار کے حصول کے چکر میں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ سرمایہ دار لوگ ڈالر اور پٹرولیم کی قیمتیں میں اضافے کی وجہ سے انڈسٹریز بند کرنے پر مجبور ہیں یا پھر وہ بھی اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کر لیتے ہیں اور ملک کی بدقسمتی دیکھئے کہ حالات سیدھے کرنے کے لیے اقتدار میں وہ لوگ آجاتے ہیں جن پر اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہوتے ہیں اور ان کی ساری دولت اور کاروبار بیرون ملک ہوتے ہیں بلکہ اقتدار کے لیے وہ پاکستان آتے ہیں اور جب اقتدار ختم ہوجائے تو وہ دبئی یا پھر لندن کی ہوائیں کھاتے ہیں، صرف کاروبار ہی نہیں بلکہ یہ لوگ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور علاج معالجہ کی سہولتیں بھی پاکستانی خزانے سے بیرون ملک سے حاصل کرتے ہیں ۔ اسلام میں زکوٰ ۃ کا نظام نافذ کیا گیا تھا تاکہ ریاست امیر لوگوں سے زکوٰۃ وصول کر کے غریب لوگ پر خرچ کرے اور معاشرے کے غریب لوگ بھی خوشحال ہوجائے مگر پاکستان میں غریب لوگوں کی کمائی سے ٹیکس وصول کر کے امیر لوگوں کو عیاشیوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے ۔
ملکی اداروں کو تباہی لانی والے سیاستدان گزشتہ چند سالوں سے اربوں، کھربوں پتی بن چکے ہیں اور ان کے ذاتی کاروبار کبھی خسارے میں نہیں گئے مگر ان کے زیر سایہ محکمہ جات چاہے وہ ریلوے ہو، پی آئی اے ہویا پھر سٹیل مل ان کے خسارے بڑھتے ہی رہتے ہیں کبھی ختم نہیں ہوئے ۔ اسلامی نظام حکومت میں سب سے اہم شعبہ انصاف کا تھا اور دنیا بھر میں لوگ انصاف کے بہترین نظام کی بدولت اسلام قبول کرتے رہے یا پھر اپنے فیصلے اسلامی عدالتوں سے کراتے رہے ، خلیفہ وقت کے خلاف لوگ عدالتوں میں چلے جاتے تو خلیفہ وقت کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا تھا مگر ہمارے عدالتی نظام انصاف کی حالت دیکھیں لوگ سینکڑوں سال تھانے کچہریوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں اور انصاف کے حصول کے لیے ساری جمع پونجی بھی لٹا بیٹھتے ہیں مگر انصاف مقدر سے ہی ملتا ہے، مغرب میں لوگ فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ میں تمہیں عدالت میں ملوں گا مگر یہاں مظلوم لوگ انصاف اللہ کی عدالت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پولیس عوام کے جان و مال کے تحفظ سے زیادہ سیاسی لوگوں کو پروٹوکول دینے میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہے۔ سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا جلسہ عام میں قتل ہونا، ماڈل ٹائون جیسے سانحات اور پھر ذمہ داران کا تعین نہ ہونا پاکستان کے نظام پر ایک سیاہ دھبہ رہے گا۔ سقوط ڈھاکہ ہمارے آئینی بحرانوں اور ریاستی اداروں کے ٹکرائو کا نتیجہ ہے، سول بالادستی کی جدوجہد اور بوٹ پالش ہر دور میں دیکھنے کو ملتی رہی۔
قوموں میں شعور کی بیداری میں تعلیمی ادارے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مگر 76سالوں میں ہمارے نظام تعلیم نے کرپٹ افسران، کرپٹ سیاستدانوں، عوامی خدمت کرنے میں سے فرعونیت کے خاتمہ کے لیے کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کیا ۔ جاگیرادارانہ اور اشرافیہ کا نظام ہی مضبوط ہوا ہے ۔ قانون کی حکمرانی کے لیے کبھی تعلیمی اداروں کو خود مختار ہونے ہی نہیں دیا گیا، کئی دہائیاں لارڈ میکالے کے نظام تعلیم سے کام چلانے کے بعد روز نت نئے تجربات کے ذریعے تعلیمی نظام کو تباہ کر دیا گیا ہے، آئی ایم ایف کی غلامی کے باعث ہم نصاب تعلیم بنانے میں بھی خود مختار نہیں رہے تو ایسے میں قوم کی اسلامی اور اخلاقی تربیت کہاں ہوگی ۔ پاکستان کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک ہی ہے کہ یا تو موجودہ سسٹم کو تبدیل کر دیا جائے یا پھر آئین کے مطابق تمام ادارے اپنا اپنا کام کریں اور منصفانہ الیکشن کرا کر عوامی حکومت کو مضبوط کیا جائے۔ فوج کو دوبارہ کبھی وضاحت نہ دینی پڑے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ قانون سب کے لیے یکساں ہو۔ کرپشن کے خاتمہ اور اداروں کو غیر سیاسی کر کے آزادانہ ماحول میں مضبوط کرنے کے بغیر ہم مسائل سے نکل سکتے ہیں نہ ہی ترقی کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button