سپریم کورٹ نے اپنے دادا سے کفالت کا دعویٰ کرنے والے بچوں کے لیے دو شرائط رکھی ہیں۔
جسٹس سید منصور کی جانب سے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں قرار دیا گیا ہے کہ بچے کا باپ غریب شخص ہونا چاہیے جس کے پاس اس بچے کی دیکھ بھال کے لیے مالی وسائل نہیں اور بچے کا دادا ایسا شخص ہونا چاہیے جو مالی طور پر بہتر ہو۔
جسٹس منصور کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس سوال پرکہ کیا بچے کے والد کے خلاف نان نفقہ کا حکم نامہ دادا کے خلاف نافذ کیا جا سکتا ہے یا بچے کو اپنے دادا کے خلاف کفالت کا مقدمہ دائر کرنا ہوگا، قرار دیا کہ اگر ان میں سے کوئی بھی شرط پوری نہیں کی جاتی ہے تو دادا پر اپنے پوتے کی کفالت کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔
پوتے کی جانب سے کفالت کے ایسے کسی دعوے میں یہ دونوں شرائط دادا کی جانب سے دفاع کی بنیاد ہیں اور پوتے کو ان دونوں شرائط کو ثابت کرنا ہوگا جبکہ دادا کو ان دونوں حقائق میں سے کسی ایک کو مسترد کرتے ہوئے اپنے دفاع کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ یہ اس بنیادی حق کا تقاضا ہے جس کی ضمانت آئین پاکستان کے آرٹیکل 10A میں دی گئی ہے جس کے مطابق شہری منصفانہ ٹرائل کا حقدار ہوگا۔
اسلامی قوانین کے مطابق بچے کا باپ فوت ہو گیا ہو یا باپ غریب شخص ہونے کی وجہ سے اپنے بچے کی دیکھ بھال کے لیے مالی وسائل نہ رکھتا ہو، ایسے بچے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے دادا کے سپرد ہوتی ہے بشرطیکہ مالی طور پر اس کے اچھے حالات ہوں گے۔
عدالت عظمیٰ نے نان و نفقہ کے کیس میں ماتحت عدالت کے احکامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کی درخواست منظور کرلی اور اسکی جائیداد کو واگزار کرانے کی اجازت دیدی۔
عدالت نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں درخواست گزار (دادا) نہ تو اس کے پوتے کی طرف سے اپنے والد کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے میں فریق تھے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی حکم نامہ پاس کیا گیا۔ فیملی کورٹ اگر مطمئن ہے کہ دو شرائط جو کہ دادا کو اپنے نابالغ پوتے کو کفالت فراہم کرنے کے لیے ذمہ دار بناتی ہیں وہ پہلی نظر میں پوری ہو رہی ہیں تو وہ دادا کیخلاف دعویٰ دائر کرنے پر مناسب حکم دے سکتی ہے۔