ColumnRoshan Lal

لاہوریوں کی زہر بھری سانسیں

روشن لعل
ہوا کی آلودگی سے انسانی صحت پر جو بے شمار مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں عمل تنفس کے مسائل، دل کی بیماریاں اور پھیپڑوں کا کینسر سب سے اہم ہیں۔ پاکستانی شہریوں کا ہوائی آلودگی کی وجہ سے خطرناک ترین بیماریوں میں مبتلاہونے کا کس قدر امکان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز دنیا کا تیسرا ٓلودہ ترین ملک ہے۔ دنیا میں جن ملکوں کی ہوا پاکستان سے بھی زیادہ آلودہ ہے ان میں پہلے نمبر پر چاڈ اور دوسرے پر عراق ہے۔ دنیا میں تیسرے نمبر پر آلودہ ترین ہوا کے حامل پاکستان کا آلودہ ترین شہر لاہور ہے ۔ لاہور کے شہری ان دنوں تقریباً پورے ضلع میں پھیلے ہوئے سموگ کی وجہ سے زہر بھری سانسیں لینے پر مجبور ہیں۔ سموگ لاہور میں کس حد تک پھیلا ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں آلودہ ترین ہوا کا حامل شہر قرار دیئے جانے پر شہر میں چار دن کے لاک ڈائون کے دوران بارش برسنے کے باوجود یہ شہر ایک دن کے وقفے کے بعد دوبارہ دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا۔ لاہور کی ہوا شاید آنے والے دنوں میں بھی دنیا میں آلودہ ترین ہی رہتی مگر بھارت میں دیوالی کے موقع پر اتنی دھوم دھام سے آتش بازی کی گئی کہ بھارت کے تین بڑے شہروں نے دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں جگہ بنا لی۔ لاہور میں گو کہ بھارت کی طرح دیوالی پر آتش بازی نہیں ہوئی مگر پھر بھی ہر جگہ یہاں سموگ کا زہر پھیلا ہوا ہے۔
سموگ کا لفظ پہلی دفعہ 1900ء میں دھوئیں اور دھند کے ملاپ سے بننے والی گہر کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ سموگ کے متعلق ابتدا میں یہ سمجھا گیا کہ اس سے صرف دیکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے مگر جب اس کے انتہائی مضر اثرات ظاہر ہونے لگے تو ترقی یافتہ دنیا اس کے سدباب کی طرف مائل ہوئی۔امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ملکوںنے سموگ میں کمی کے لیے قوانین سازی کر رکھی ہے ۔ ان قوانین کے تحت فیکٹریوں میں خطرناک اور بے وقت دھوئیں کے اخراج پر پابندی عائد ہے۔ خشک پتوں جیسے فاضل مواد کو آگ لگا کر تلف کرنے کے لیے مخصوص جگہیں بنائی گئی ہیں جہاں دھواں کم خطرناک ہو کر ہوا میں خارج ہوتا ہے۔
سموگ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سرد موسم میں ہائیڈروکاربن اور نائٹروجن جیسے اجزا ،تیزابی بخارات، اڑتی ہوئی راکھ اور پتھر اور ریت کے باریک ذرات کا مرکب سورج کی روشنی کے ساتھ کیمیائی عمل کرتا ہے۔ اس کیمیائی عمل پذیری کی وجہ سے ہوا میں معمول کی گیسوں کے ساتھ ساتھ زہریلے مواد کی بھی بھرمار ہوجاتی ہے۔ زمین کی سطح کے قریب موجود یہ زہریلا مواد نہ صرف انسانی جسم کے اندرونی بلکہ بیرونی حصوں پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔ سموگ کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ صنعتوں سے خارج ہونے والی گیسیںاور دھواں، کاروں اور دیگر گاڑیوں کا دھواں اورکھلی فضا میں جلائی جانے والی ر ناکارہ اشیاکا دھواں ہوتا ہے۔ ایسی اشیا جلنے کے دوران مختلف مقامات سے خارج ہونے والا دھواں، گیسیں اور کچھ دیگر اجزا ، سرد موسم میں آبی بخارات سے مل کر ایسا دھندلا پن پیدا کر دیتے ہیںکہ جس سے فضا میں تاحد نظر کہر دکھائی دیتی ہے۔
سموگ کی آفت کی وجہ سے انسانی صحت پر عارضی سے طویل عرصہ تک برقرار رہنے والے کئی ایک منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ سموگ کے ماحول میں وقت گذارنے کی وجہ سے کھانسی، سانس لینے میں دشواری اور سینے میں جکڑن جیسی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ کیفیت سموگ میں سانس لینے کے دوران کچھ وقت کے لیے بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر ہوا میں سموگ کے زہریلے مواد کی مقدار بہت زیادہ ہو تو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات زیادہ عرصہ تک بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔ سموگ کے باعث خاص طور پر چھوٹے بچے آنکھ، ناک ، گلے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ دمے کے مریضوں کے لیے سموگ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سموگ سے بچائو کا بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ چار دیواری سے باہر کی سرگرمیوں کو ترک کر دیا جائے مگر یہ سموگ کے مسئلے کا موثر حل نہیں ہے۔
سموگ اور ماحولیاتی آلودگی اس وقت صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں کا بھی انتہائی گھمبیر مسئلہ ہے۔ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے لاہور سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں کا شمار بھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کیا جارہا ہے ۔ ان شہروں کے اس حد تک آلودہ ہونی کا مطلب یہ ہے کہ یہاں صرف حکومتیں ہی نہیں بلکہ شہری بھی آلودگی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں ۔ اگر یہ غیر سنجیدگی اسی طرح برقرار رہی تو آلودگی اور سموگ کے سبب پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں سے تحفظ ممکن نہیں رہے گا۔
سموگ گرمیوں میں بھی ظاہر ہو سکتا ہی مگر سردیوں میں ظاہر ہونے والا سموگ زیادہ مسائل اور بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں عمومی اور پنجاب میں خاص طور پر 1975ء سے ماحولیاتی آلودگی کنٹرول کرنے کے لیے سرکار ی سطح پر کام ہو رہا ہے۔ پنجاب میں ماحول کے تحفظ کے لیے 1987ء میں پہلے سے موجود محکموں میں ایک ایجنسی بنائی گئی جسے 1996ء میں الگ محکمے کا درجہ دے دیا گیا ۔ حکومت پنجاب کے تحت ماحول کے تحفظ کے لیے ہونیوالی اس پیش رفت کے باوجود تحفظ ماحول کے محکموں نے لاہور میں سموگ کی موجودگی ، پھیلائو اور خطرناک حد تک اضافے کی نشاندہی نہیں کی۔ لاہور میں سموگ کئی سال پہلے سے وسعت پذیر تھا مگر کسی سرکاری محکمہ کی بجائے سوئٹزر لینڈ کی ایئر ٹیکنالوجی کمپنی ( ایئر کوالٹی انڈیکس ) نے سب سے پہلے 2017میں یہ نشاندہی کی کہ بھارتی دارالحکومت دہلی کی طرح لاہور شہر بھی دنیا کے ایسے شہروں میں شامل ہو چکا ہے جس کی فضا زہر آلود ہے۔ حکومتی شخصیات سموگ جیسے معاملات سے کس حد تک بے خبر رہتی ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ اکتوبر 2021ء میں جب سموگ کے زہر آلود اثرات میں روزبروز اضافہ ہونے لگا تو اس وقت کے تحٗفظ ماحوال پنجاب کے وزیر بائو محمد رضوان نے کسی میڈیا پرسن کے سوال پوچھنے پر یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا تھا کہ لاہور یا پنجاب میں سموگ نام کی کوئی شے موجود ہے ۔ یہ تو بھلا ہو لاہور ہائیکورٹ کا کہ جب وہاں سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو یہ ہدایت نامہ جاری ہوا کہ وہ جلد از جلد ماحولیاتی تحفظ کونسل کا اجلاس بلاکر سموگ کے تدارک کا بندوبست کریں تو پھر وزیر موصوف اور ان کا محکمہ حرکت میں آیا۔ بائو رضوان تو وزیر ماحولیات نہیں رہے مگر ان کے بعد میں تحفظ ماحول پنجاب کا محکمہ اسی طرح کام کر رہا ہے جس طرح وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ گزشتہ چند برسوں کی طرح اس برس بھی جب لاہور میں سموگ انتہا درجے تک پہنچ گیا تو اس کے بعد حسب سابق لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر تحفظ ماحول کے محکمہ نے اپنی آنکھ کھولنے کی زحمت گوارا کی۔ سموگ کے پھیلائو میں محکمہ تحفظ ماحول کا غافل ہونا اپنی جگہ مگر غفلتوں کا مظاہر کرنے میں لاہور کے شہری بھی محکمے سے پیچھے نہیں ہیں۔ عرصہ دراز سے جاری ملی جلی غفلتوں کی وجہ سے ہی لاہوریوں کو زہر بھری ہوا میں سانسیں لینا پڑتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button