اسرائیل کی اخلاقیات اور تباہ کاریاں

نذیر احمد سندھو
اسرائیل فلسطین وار کو 37دن ہو گئے ہیں عالمی مقتدرہ سے جنگ روکنے کے اقدامات زیرو ہیں ۔ مالٹا جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے 15ممبران کی ٹیم کا حصہ ہے ایک ریزولیوشن لئے پھرتا ہے مگر اسے پزیرائی نہیں مل رہی۔ اسرائیل جنگ میں روزانہ وقفے کے لئے تیار ہے مگر مکمل جنگ بندی سے انکاری ہے۔ اسرائیل کی تباہ کاریوں کا یہ عالم ہے اسکی بمباری سے ہسپتال بھی محفوظ نہیں۔ الشفاء جو غزہ کا سب سے بڑا ہسپتال تھا مکمل تباہ ،القدس ہسپتال میں صرف 200مریضوں کی گنجائش ہے اس میں زخمیوں کے علاوہ 500لاشیں آتی ہیں جن میں عورتوں بچوں کی کٹے اعضاء اور مسخ شدہ ہوتی ہیں۔ جبر کے اس عالم میں مقتدرہ خاموش ہے اور عالم اسلام چھپا بیٹھا ہے۔ عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہیں دنیا کا کوئی ملک شہر نہیں جہاں فلسطینیوں کے حق میں جلوس نہ نکلے ہوں مگر ساری دنیا کی عوام بے بس ہیں اور عالمی مقتدرہ محض بیانات سے کام چلا رہی ہے۔ یہودی ریاست کی بربریت سے ہسپتال بھی محفوظ نہیں صرف دو ہسپتال تھے جو یہودی طیاروں اور توپوں میزائلوں کا نشانہ بن چکے اب زخمیوں کے علاج کے لئے کوئی سہولت نہیں۔ لاشوں کو دفنانے کا بھی انتظام نہیں، مگر یہودی ریاست اپنے شہریوں کو اپنے اخلاق سے منور کر رہی ہے ہم جنگ میں وقفے کے لئے تیار ہیں تاکہ لوگ محفوظ جگہوں پر منتقل ہو جائیں، ہم بمباری سے قبل علاقے کے کچھ لوگوں کو بتا دیتے ہیں درج ذیل پلازوں پر بمباری کا حکم ہے لہذا آپ بلڈنگز خالی کر دیں، چونکہ فیک کالز بھی آتی ہیں لہذا بعض لوگ اعتبار نہیں کرتے اور بلڈنگز خالی نہیں کرتے، جس سے اموات ہو رہی ہیں اگر لوگ بلڈنگز خالی نہیں کرتے تو اس میں اسرائیل حکومت کا کیا قصور ہم نے تو بر وقت وارننگ دے دی تھی، واہ رے اخلاقیات۔ ہیلتھ سنٹرز میں بجلی نہیں جس سے زخمیوں کی اموات ہورہی ہیں، غذائی قلت کے خاتمے کا ابھی تک اقوام متحدہ نے بھی کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا، دنیا بھر سے عام شہری فلسطینیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگر ان تک مدد پہنچانے کا کوئی انتظام ہیں، اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے کچھ بھی محفوظ نہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نمائندے نے بھی کہا ہے غزہ میں میں صحت کی سہولیات دینے والے ہسپتال ہیلتھ سنٹرز تباہ ہو چکے کوئی ہسپتال کام نہیں کر رہا اور غزہ دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل بن چکا ہے۔ یونائیٹڈ نیشن کی سکیورٹی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس ہوا جس میں امریکہ نے صرف حماس کی جارحیت کی مذمت تک محدود رہنے کی بات کی جبکہ روس اور اسکے گروپ نے کہا ہم سب حماس کی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں مگر یہ کافی نہیں اب اجلاس مذمت سے آگے بڑھنا چاہیے مگر امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی اس سے آگے جانے پر رضامند نہ ہوئے، جنگ بند ہونا تو دور کی بات اس پر بحث بھی نہ ہو سکی اور اجلاس ختم ہو گیا۔ اب مالٹا کا سفیر جو 15سکیورٹی کونسل کی دو سالہ ممبر شپ کا حصہ ہے جنگ بند کرنے کیلئے ریزولیوشن پیش کرنا چاہتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پا رہا، کیوں، امریکی دبائو کام کر رہا ہے اور کیا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر درست مگر ایک بات قابل غور حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے کیا پایا میرا خیال صرف کھویا، اب حماس والے کہتے ہیں ہمارے پاس مصدقہ اطلاع تھی اسرائیل جلد ہم پر حملہ کرنیوالا ہے، مانا، کیا پیشگی حملے سے آپ اسرائیل کا حملہ روک پائے نہیں ناں اس نے حملہ کرنا تھا یا نہیں آپکی اطلاع فیک بھی ہو سکتی ہے مگر ہم درست مان لیتے ہیں تو پھر سوال وہی، کیا آپ اسرائیل کا حملہ پیشگی حملے سے روک سکے یا اسے حملوں کا جواز فراہم کر دیا اب اسرائیل کے حمایتی کہہ رہے ہیں یہ دہشتگرد ہیں جارح ہیں مگر حماس صاحب آپکے حمایتیوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔ حماس صاحب پہلے اسرائیل کے حمایتیوں کو جوا ز نہیں ملتا تھا، اب آپکے حمایتیوں کو جواب نہیں ملتا۔ کمزور سچا بھی ہو پھر بھی اسے حملے میں پہل نہیں کرنی چاہئے، پہل طاقتور کو جواز فراہم کرتی ہے۔ اسرائیل حملے روکنے کو تیار نہیں پہلے دبائو پر روکنے پر مجبور ہو جاتا تھا، اب آپ کی پہل نے اسے جواز فراہم کر دیا ہے وہ اپنے ٹارگٹ کے حصول تک جنگ جاری رکھے۔ حماس صاحب آپ اس کے جہاز نہیں گرا پا رہے وہ بتا کر آپ کی بلڈنگز ہسپتال گراتا ہے آپ روک نہیں سکتے آپ اپنا دفاع نہیں کر سکے تو پھر کیا جواز بنتا ہے پہل کا، آپ ظالم بن گئے جبکہ مظلومیت ہی آپکا ہتھیار تھا آپ نے اپنا ہتھیار کھو دیا اور بدلے میں پایا کیا اعضاء کٹی لاشیں، گھروں کی تباہی اور جارح کا لقب۔ حماس
صاحب کمزور کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں اس وقت تک مظلوم بنا رہے جب تک ظالم کے برابر طاقت نہ حاصل کر لے خود ظالم کا ہاتھ روک سکے دوسرا مذاکرات ، مذاکرات سے جو بھی مل جائے غنیمت جانے۔ حماس صاحب90 ہزار فلسطینی اسرائیل میں جاب کرتے تھے ،ڈالرز میں تنخواہ لیتے تھے ہر ماہ 15کروڑ سے زائد ڈالر کما کر فلسطین لے جاتے تھے اب وہ بے روزگار ہو گئے، کیا آپ کے پاس انکے لئے روزگار ہے، نہیں ناں۔ غزہ میں 24لاکھ فلسطینی رہتے تھے، ہسپتال تھے سکول تھے سب گرا دئیے آپکا پیشگی حملہ کچھ بچا سکا، آپ ظالم بن گئے جارح بھی بن گئے اور پایا کچھ بھی نہیں۔ روس اور چین نے کبھی پہلے آپکی مذمت نہیں کی، اب آپکی جارحیت کی مذمت کرنے پر مجبور ہیں۔ حزب اللہ آپکے ساتھ نہیں ، الفتح آپکے ساتھ نہیں، ایران زبانی کلامی مدد عرب مقتدرہ خاموش، کس برتے پر حملہ کر دیا مصر فلسطینیوں کو پناہ دینے کو تیار نہیں، شام پناہ دینے کی سکت نہیں رکھتا، کس برتے پر پہل کی، کچھ تو جواز ہونا چاہیے۔ خبر ہے فلسطینیوں کی جابز پر اسرائیل بھارت سے ہائرنگ کر رہا ہے۔ میں پھر سوال دہرائوں کا حماس صاحب کیا کھویا پہل کرکے، کیا پایا پہل کرکے۔