ColumnNasir Naqvi

اور مایوسی بڑھ گئی

ناصر نقوی
دین حق اسلام کی روح سے مایوسی گناہ قرار دیا گیا پھر بھی موجودہ حالات میں امریکن پٹھو اسرائیل جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے اس کے ردعمل میں ’’ امت مسلمہ‘‘ صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا، امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کی سرپرستی میں اسرائیل بھوکے درندے کی طرح فلسطین پر حملہ آور ہے۔ بوڑھے اور خواتین ہزاروں کی تعداد میں شہید ہو چکے، شہداء کی تعداد میں پچاس فیصد بچے ہیں وہ بچے جو ہر قوم کا کل ہوتے ہیں۔ وہ بچے جنہیں دنیا مانتی ہے کہ وہ غیر سیاسی ہوتے ہیں، وہ بچے جن کی طبیعت میں لڑائی جھگڑے کے فوراً بعد صلح سمجھوتہ ہی نہیں، لڑائی اور ناراضگی کو بھول جانے کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے۔ عالمی قوانین ہیں کہ شہری آبادی پر گولہ باری نہیں کی جاتی۔ امدادی کیمپ اور ہسپتالوں کا خصوصی خیال رکھا جائی لیکن فلسطینیوں کی بدنصیبی ان کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور مسلم دنیا محض بیانات اور امدادی سامان دے کر احسان عظیم کرنے میں مصروف ہے یہی نہیں، امام کعبہ نے فلسطین اور اسرائیل جنگ کو فتنہ قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کا فتوی دے دیا جبکہ دنیا بھر کے غیر مسلم عیسائی، یہودی سب کے سب اسرائیلی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن، پیرس اور لندن حکومتوں کو مخالفت کے باوجود بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب عوام سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ غزہ قبرستان بن چکا ہے۔ اسرائیل کی انتقامی آگ پھر بھی کم نہیں ہوئی ۔ ہر طرف قیامت کا منظر ہے، آگ، دھواں اور گولہ بارود کی گرج چمک اور شہداء کے بے کفن لاشے جنہیں اسرائیلی بے حرمتی کر کے تماشا بنا رہے ہیں۔ عالمی امن کے ٹھیکیدار انسانیت اور انسانی حقوق کی تمام تر حدیں عبور کرنے پر بھی وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں، جس کا سبق امن و سلامتی اور انسانی حقوق کے حوالے سے دوسروں کو دیتے ہیں۔ فلسطینی اس بدترین صورت حال میں بھی اسرائیلی الٹی میٹم کے بعد غزہ کی پٹی خالی کرنے کو تیار نہیں جبکہ اس جذبے اور پرعزم انداز کو نقصان پہنچانے کے لیے اسرائیل کے وزیر اعظم نے غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ غزہ پر قبضے کے بغیر جنگ کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ ناقابل فراموش جانی و مالی نقصان کے باوجود ہم ڈٹے ہوئے ہیں اگر امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کی مدد نہ کریں تو وہ ہمارے جذبہ ایمانی کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ لہٰذا اسلامی ممالک اسرائیل سے تعلقات ختم کر دیں کیونکہ اسرائیل کے فلسطینیوں پر حملے نسل کشی کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ فلسطین میں اشیائے زندگی کا بحران پیدا ہو چکا ہے ۔ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر کے انسانی، طبی اور ایندھن کی امداد کا راستہ روکا ہوا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ اس بدترین حالات میں حماس نے اپنی عسکری طاقت منوا لی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل اور اس کے سرپرست راتوں کو سونا بھول گئے ہیں۔ ہماری جنگ مسجد اقصیٰ کی آزادی تک جاری رہے گی، حماس کے ترجمان کا اعلان ہے کہ ہمیں مسلم ممالک سے کچھ نہیں چاہیے ہم اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں اور کامیابی تک ہار نہیں مانیں گے لیکن اسلامی ممالک اسرائیل کا بائیکاٹ کریں اور سفارتی تعلقات کا خاتمہ کریں جس سے انہیں کم از کم اخلاقی مدد تو ملے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم او۔ آئی۔ سی نے تقریباً 35روز کی فلسطینی نسل کشی کے بعد سعودی عرب میں اجلاس طلب کیا اس میں بھی صرف دھواں دار تقاریر اور دعوئوں کے سوا کچھ دیکھنے کو نہیں، پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی بطور خاص گئے انہوں نے بھی روایتی بیان دیا جیسا کہ سب کر رہے تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صیہونی جنگی جرائم کو عالمی عدالت انصاف لے جایا جائے۔ اسرائیل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے اس لیے سلامتی کونسل اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اسے فوری طور پر رکوائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے مسئلہ کا مستقل حل مذاکرات سے نکالا جائے۔ پاکستان ہر سطح پر فلسطینیوں کے موقف کے ساتھ ہے۔ سعودی ولی عہد سلمان بن محمد کا کہنا تھا کہ ہم جبری انخلاء کا مطالبہ مسترد کرتے ہیں۔ اسرائیل کے حق دفاع کو جنگ کا جواز بنانا بھی تسلیم نہیں کرتے۔ قابض حکومت کی جارحیت جنگی جرم ہے۔ غیر انسانی قتل عام کی مذمت کرتے ہیں۔ غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد فراہم کی جائے اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکی جائے۔ سیکرٹری جنرل او۔ آئی۔ سی نے مطالبہ کیا کہ دنیا اس مسئلے کا حل ڈھونڈے اور اسرائیل عالمی قوانین کی پاسداری کرے۔ ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے واضح کیا کہ مسجد اقصیٰ ہماری ریڈ لائن ہے جبکہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل فوری طور پر غزہ سے نکلے ورنہ اسے نہ صرف جنگی جرائم کا حساب دینا ہو گا بلکہ اس کی اس غیر قانونی اور جارحانہ غلطی سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف اسرائیلی جنگی جرائم کی مکمل تحقیقات کر کے اسے جنگی جنون سے روکا جائے۔ او۔ آئی۔ سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس کے افتتاحی خطاب میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کے لیے اسرائیلی قبضے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل نے انسانی قتل عام کا بازار دنیا کے تمام قوانین کی خلاف ورزی میں جاری رکھا ہوا ہے۔ ہم اس کی مذمت بھی کرتے ہیں اور مسترد بھی، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے گولہ باری اور ہتھیار استعمال کر کے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا۔ اس نے جتنی بمباری کی وہ سات ایٹم بم سے زیادہ ہے اور ایسا صرف امریکہ کی پشت پناہی پر ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ فاشسٹ ملک ہے جو اسرائیل کے ساتھ جنگی جرائم میں برابر کا شریک ہے۔ فلسطین امت مسلمہ کا فخر ہے۔ مسلم ممالک کو مشترکہ کوشش سے غزہ کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا ہو گا۔
او۔ آئی۔ سی اور عرب لیگ کے اس مشترکہ اجلاس پر دنیا بھر کی نظریں تھیں لیکن اگر اس کا جائزہ لیں تو اس اجلاس میں تمام اہم اسلامی ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی، دھواں دھار تقاریر بھی ہوئیں لیکن نہ کوئی عملی کارروائی ہوئی نہ ہی کسی قسم کے لائحہ عمل کی دھمکی دی گئی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف پر ذمہ داری ڈال کر سب نے اپنی اپنی راہ لی۔ بے چارے فلسطینی اسرائیلی جارحیت سے ٹکرا کر اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی دہشت اور اس کی بہادری اور طاقت وری خاک میں مل گئی لیکن ان غاصبوں نے بھی فلسطینیوں کو خاک میں ملانے کا تہیہ کر رکھا ہے انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر حماس سے کسی قسم کی رعایت برتی گئی تو وہ جس طرح بے سرو سامانی میں تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں اگر وہ تازہ دم ہو گئے یا حزب اللہ کی کمک پہنچ گئی تو شکست مقدر بن جائے گی اس خوف میں وہ کسی قسم کی فی الحال جنگ بندی کے لیے تیار نہیں لیکن حماس اور حزب اللہ کے مجاہدین بھی یہ راز جانتے ہیں کہ امریکہ بہادر ویت نام سے افغانستان تک شکست در شکست سے دوچار ہوا ہے وہ ہر جگہ اپنے سہولت کار پیدا کر کے دوسروں کی سرزمین میں گولہ بارود استعمال کرنے کا عادی ہے۔ اس کا جنگی فارمولا یہی ہے کہ امن کے نام پر بدامنی پیدا کرو پھر اپنے حواریوں سے مل کر جنگ لڑو اور اسلحہ فروخت کرو، تازہ ترین مثال افغانستان ہے جہاں برسوں مقامی آبادی سے لڑتا جھگڑتا رہا اور پھر بھی اسے اسلحہ بارود چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اس وقت فلسطین میں جس طرح حماس مجاہدین نے امریکہ اسلحہ اور جدید ہتھیار کے سامنے پوزیشن سنبھالی ہے یہ کوئی عام بات ہرگز نہیں۔ ماضی میں چھ مسلم ممالک اسرائیل سے پنجہ آزمائی کر کے صرف ایک ہفتے میں جنگ بندی پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس وقت الزام یہی ہے کہ ’’ حماس‘‘ نے سوئے ہوئے امریکی شیر کو للکار کر اپنے لیے مصیبت کھڑی کر لی ہے لیکن جس طرح حماس نے 35روزہ لڑائی لڑی، اسرائیلی یرغمال بنائے اور پھر یرغمالیوں کی منتقلی کے لیے اسرائیل نے وقتی طور پر جنگی معاہدہ کیا اس کا مطلب ہے کہ ’’ حماس‘‘ اتنی آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرے گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’’ حماس‘‘ جنگ کو طول دینے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ ’’ غزہ‘‘ میں جس انداز میں کارپٹ بمباری کر کے اسے قبرستان بنایا گیا، وہاں عمارات ہوں کہ سرکاری ہسپتال، مساجد اور سکولز سب زمیں بوس ہو چکے ہیں جبکہ شہداء کی تعداد گیارہ ہزار سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ ان میں بھی بچوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ کی حقیقی آبادی کہیں نہ کہیں محفوظ مقامات پر ہے اسی لیے اسرائیلی گھبرا کر مہاجرین کی خیمہ بستیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ غزہ میں اس قدر نقصان کے باوجود ابھی تک اسرائیلی اپنا زمینی حملہ کرنے میں ناکام ہیں۔ ان کی سب سے بڑی طاقت فضائی ہے کیونکہ ’’ حماس‘‘ کے پاس فضائی حملوں کا مقابلہ کرنے کی حقیقی صلاحیت نہیں کہ وہ ابھی تک فضائی حملوں کو ناکام نہیں بنا سکے پھر بھی ’’ راکٹ‘‘ کی مدد سے خوف پیدا کر رکھا ہے۔ دوسری کمزوری وہ مہاجرین ہیں جو دیگر ممالک کی سرحدوں پر اکٹھے ہیں ، مصر نے باڈر کھولا پھر بند کر دیا۔ وہ اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کی جدوجہد میں ہیں۔ جونہی یہ ہدف حاصل ہو گیا۔ جنگ کا نقشہ بدل جائے گا لیکن حقیقت یہ بھی ہے تاریخ اسلامی ممالک کی بے حسی کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ اگر او۔ آئی۔ سی اور عرب لیگ مشترکہ اعلامیہ میں عملی فیصلے کر لیتے تو نہ مایوسی بڑھتی اور نہ ہی مستقبل میں کسی اسلامی ریاست کو فلسطینی ریاست جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ کشمیریوں کی آزادی کا خواب بھی جلد پورا ہو جاتا لیکن افسوس مصلحت پسندی میں ایسا نہیں ہو سکا اور مایوسی بڑھ گئی!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button