ColumnTajamul Hussain Hashmi

چودھری صاحب مبارکباد قبول کریں

تجمل حسین ہاشمی
دنیا کے کامیاب ترین انسانوں کے وہ اصول جن پر عمل پیرا ہونے آپ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں، وہ اصول آج بھی کارآمد ہیں، خواہ دنیا جتنی بھی تبدیل ہو جائے۔ فرد خود کو کامیاب بنا سکتا ہے، بس ان پر عمل کی کوشش انسان کو خود کرنی ہے۔ کئی مواقع انسانی زندگی پر دستک دیتے ہیں۔ مختلف اشکال میں پائے جاتے ہیں کہ آگے بڑھو اور کامیابی کی منزل تک پہنچ جائو لیکن ان کامیاب لوگوں کی شرح میں آپ شامل نہیں ہوتے ہیں، کئی موٹیویشنل سپیکر اس کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں، ہر کسی کا انداز بیان مختلف ہے، ان کی اڈینس بھی مختلف ہو سکتی ہے لیکن کامیابی کے اصول مختلف نہیں ہیں۔ ان کی درجہ بندی آگے پیچھے ہو سکتی ہے لیکن یکسر مختلف نہیں ہو سکتے۔ سینئر صحافی، کئی کتابوں کے مصنف جاوید چودھری کو گورنر پنجاب نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ جو انتہائی قابل قدر اور بہترین اقدام ہے۔ میں چودھری صاحب کو بھی اپنا استاد مانتا ہوں۔ کئی دوست اس شاگردی کے حوالے سے کنفیوژ ہیں اور سوال بھی کرتے ہیں لیکن میں جب ان کو یہ کہتا ہوں کہ میں چودھری صاحب سے کبھی نہیں ملا تو حیران ہو کر کہتے ہیں یہ کسی شاگردی ہے؟ اس کا جواب میں کالم کے آخری حصے میں بتائوں گا۔ ڈگری کی تقریب کے بعد چودھری صاحب پر تعلیم یافتہ افراد کی طرف سے تنقید کا سلسلہ شروع ہوا، اس تنقید میں تعلیم یافتہ افراد سرفہرست پاس گے جو بظاہر اس اعزازیہ پر نا خوش نظر آئے، اس تنقید سے ثابت ہوا کہ تعلیم اور شعور میں فرق موجود ہے، جس سے وہ نا سمجھ ہیں۔ لوگ شعور سے زیادہ تعلیم پر فوکس ہیں لیکن انسان سے بہترین انسان تک کے سفر میں تعلیم سے زیادہ شعور کا ہونا لازم ہے، شعور ریاست اور فرد کی مضبوطی کی بنیاد ہے اور تعلیم منزل کا راستہ ہے، آبادی کے اضافہ نے غیر منصفانہ تقسیم کو بڑھاوا دیا ہے، جس سے معاشرتی تقسیم اور مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ آج کل ترقی پذیر ممالک کو ان مسائل کا سامنا ہے۔ ریاستوں کو خطرات کے سامنے کے ساتھ انسانیت بھی بے شمار خطرات کا شکار ہو رہی ہے۔ میرے دادا کہا کرتے تھے کہ ایک چھاٹک علم کو ہضم کرنی کے لیے انسان میں ایک پائو برداشت کا مادہ ہونا چاہئے، یہ جو ’’ مادہ ‘‘ ہے۔ اس کا نام شعور ہے۔ سادہ لوگوں تھے مثال دے کر سمجھاتے تھے، ان کے کہنے کا مطلب انتہائی آسان تھا کہ جب انسان علم سے آراستہ ہوتا ہے تو اس میں ایک چیز کا پیدا ہونا فطری عمل ہے، اس میں پیدا ہونے چیز ’’ میں ‘‘ ہے جو انسان کو شر انگیزی کی طرف لے جاتی ہے۔ کامیابی کا پیمانہ اس دور حاضر میں دولت سمجھا جاتا ہے، بہت حد تک ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے اس دولت کمانے کے لیے آپ نے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوئے جن کے بارے اسلام میں واضح احکامات ہیں، قرآن اور حضورؐ کی زندگی زندہ مثال ہے تو پھر یقینا آپ کامیاب ہیں، اگر ان اصولوں سے ہٹ کر دولت جمع کر رکھی ہے تو بظاہر دنیاوی کامیابی تو ہے لیکن آخرت میں فیصلہ کا اختیار رب کے پاس ہے، جو دونوں جہانوں کا خالق حقیقی ہے، کالے دھن کی سزا کا فیصلہ بھی رب نے کرنا ہے۔ میں کامیابی کے وہ اصولوں بتائوں گا جس میں کوئی مشقت نہیں اور نہ کوئی لاکھوں روپوں کی ضرورت ہے، میں نے محترم جاوید چودھری صاحب کے حوالے سے بات کی ہے، آپ محترم جاوید چودھری کی زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ کو جناب کی کامیابی کا راز مل جائے گا۔ کامیاب زندگی کے چار راز میں بھی آپ کو بتائوں گا۔ آپ ان پر چلنا شروع کریں، دروازے کھولتے چلیں جائیں گے۔ سب سے پہلے آپ ان تمام حالات پر رب کے مشکور رہیں، ہر حال میں آپ نے شکر ادا کرنا ہے، اس سے آپ کی زندگی میں ایسی تبدیلی آئے گی جس کا اندازہ وقت کے ساتھ ہوتا جائے گا۔ ہر حال میں مشکور رہنے سے زندگی میں مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو فیصلہ سازی میں مدد گار ہوتے ہیں، اس کام کو کرنے کے لیے آپ کو پیسے یا کسی مال کی ضرورت نہیں ہو گی، دوسرا عمل جو انتہائی اہم ہے اس کے لیے بھی کسی مال کی ضرورت نہیں ہے، جب بھی کوئی عمل کرنے لگیں اس کو ’’ شعور‘‘ کے ترازو پر رکھ کر تول لیں اور درست ہو تو عمل کریں ورنہ چھوڑ دیں ، تیسرے عمل کا تعلق دولت کمانے سے جوڑا ہے، انتہائی آسان اور سادہ ہے، آپ اگر مالی طور پر کمزور فیملی سے ہیں تو یہ عمل آپ کی کامیابی کو یقینی بنا دیتا ہے، آپ نے جب بھی کوئی ٹارگٹ یا کوئی کام کرنا ہو تو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ اس کی شروعات چھوٹے ٹارگٹ یا پیمانے سے کریں اور وقت کے ساتھ اس کو بڑھاتے جائیں، یقینا اللّہ کے فضل سے کامیابی آپ کا مقدر ہو گی۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جاوید چودھری صاحب کو میں استاد کیوں کہتا ہوں حالانکہ میں جناب سے کبھی نہیں ملا۔ چند سال پہلے جاوید چودھری صاحب کو میں نے پڑھنا اور ان کی ویڈیوز سننا شروع کیں، کامیاب زندگی کے حوالے سے ان کی کئی ویڈیوز موجود ہیں، میں نے ان کی خاص کر دو باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کیا اور مالی مسائل سے چھٹکارا ملا ہے، لیکن ابھی بھی ان اصولوں پر کار بند ہوں، اپنی زندگی کی شروعات چھوٹے ٹارگٹ سے شروع کریں۔ مصمم ارادے کے ساتھ اس کے لیے کوشش کریں اور پھر آہستہ آہستہ ٹارگٹ کو بڑا کرتے جائیں۔ مالی مشکلات سے نجات پکی ہے۔ میں چودھری صاحب کا مشکور و ممنون ہوں۔ میری مبارکباد کو قبول کریں، آپ جیسے رہبروں کی حوصلہ افزائی ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہئے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button