ColumnImtiaz Aasi

انصاف

امتیا ز عاصی
مسلم لیگ نون کے سنیئر رہنما جاوید لطیف نے اچھی بات کی میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں کو انصاف ملنا چاہیے ۔ میاں جاوید لطیف کی یہ بات رد کرنی والی نہیں بلکہ سیاست دانوں کے لئے ایک اچھی سمت کا تعین بھی کرتی ہے۔ جہاں تک انصاف کی فراہمی کی بات ہے سب کو اور بروقت ملنا چاہیے کیونکہ قانون کی نظر میں انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔ گویا اس لحاظ سے ہماری عدلیہ کی تاریخ کوئی حوصلہ افزاء نہیں ہے برسوں مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ اگر ہم احتساب کی بات کریں تو نیب قوانین میں چالان کی تکمیل سے عدالتوں تک بھیجنے کے لئے وقت مقر ر ہے۔ مقدمات کے فیصلوں کے لئے احتساب عدالتوں کو فیصلے کرنے کا پابند بنایا گیا ہے اس کے باوجود مقدمات کے فیصلوں میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ عدالتی نظام میں جھول سے مقدمات تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عجیب تماشا ہے ایک طرف سیاست دان احتساب کی بات کرتے ہیں احتساب کا وقت آئے تو عدالتیں کم پڑ جاتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے سابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے پی ٹی آئی حکومت کو احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کو کہا تھا۔ حیرت ہے سابق وزیراعظم عمران خان انتخابی مہم سے اقتدار میں آنے تک احتساب کا نعرہ لگاتے رہے لیکن احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھانے میں ناکام رہے حالانکہ عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کے لئے کون سا امر مانع تھا۔ جہاں تک مطلوبہ فنڈز کی بات ہے ایک وزیراعظم کے لئے چند عدالتوں کے لئے فنڈز اور عدالتی عملہ کی فراہمی میں کیا مشکلات ہو سکتیں ہیں۔ ہماری تاریخ اس امر کی گواہ ہے کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کو جان بوجھ کر طوالت دینے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ تھوڑا وقت نہیں گزرا ہے عمران خان شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کا بہت شور غوغا کرتے تھے جب فرد جرم لگنے کا وقت آیا تو عمران خان کی قانونی ٹیم کہیں دکھائی نہیں دی۔ عمران خان کی قانونی ٹیم مضبوط ہوتی تو یہ ممکن نہیں تھا ملزمان کے خلاف فرد جرم نہ لگتی۔ اگر توہین عدالت نہ ہو تو عرض ہی یہ احتساب عدالت کی بھی ذمہ دری تھی ایک دو تاریخوں کے بعد فریقین کو پابند بنایا جا سکتا تھا ۔ عدالتوں کی کارکردگی جانچنے کے لئے انسپکشن جج مقر ر ہیں تو کیا احتساب عدالتوں کے لئے انسپکشن کا کوئی واضع نظام موجود نہیں ہے؟۔ پاکستانی قوم کا المیہ ہے وہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے سیاست دانوں کی کرپشن کو عوام جلد بھلا دیتے ہیں حالانکہ مبینہ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو انتخابات میں ووٹ نہیں دینے چاہیے۔ اگر عوام کرپٹ سیاست دانوں کو ووٹ کی طاقت سے مسترد کریں تو ہماری سیاست میں انقلاب آسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے عوام سیاست دانوں کی کرپشن بھول جاتے ہیں اور الیکشن میں ان کے جھوٹے نعروں پر یقین کر لیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اگر عدالتوں سے کرپٹ سیاست دان بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کم از کم عوام انہیں ووٹ کی طاقت سے ہر ا کر سزا دے سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو تماشا لگا ہوا ہے ایک جماعت اقتدار میں آتی ہے تو جانے والوں کے خلاف مقدمات قائم ہو جاتے ہیں جن کا برسوں فیصلہ نہیں پاتا۔ بقول عمران خان کے پی ٹی آئی دور میں شریف خاندان کے خلاف صرف منی لانڈرنگ کا مقدمہ در ج ہوا تو اس سے پہلے مقدمات کا برسوں فیصلہ نہیں ہو سکا۔ آخر اس کا تو کوئی ذمہ دار ہوگا۔ ایک طرف ہم پاکستان کو اسلام کے نام سے قائم کرتے ہیں دوسری طرف بدعنوانیاں کرنے والوں کو سزائیں دینے سے ہچکچاہٹ کیوں کرتے ہیں۔ اسلام تو بے لاگ احتساب کا درس دیتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ کے دور کی مثال ہمارے سامنے ہے اپنے حقیقی بیٹے کو کوڑوں کی سزا دے دی چند کوڑے لگنے کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی جناب فاروق اعظم ؓ نے بقیہ کوڑے بیٹے کے مردہ جسم پر مارنے کا حکم دے دیا۔ اسے کہتے ہیں احتساب جب کہ ہمارے ہاں احتساب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ احتساب کے ادارے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں جب ایک ادارہ بنایا گیا ہے تو اس کے مقاصد پورے ہونے چاہیں۔ جہاں تک نیب کی کارکردگی کی بات ہے سیاسی مقدمات کو چھوڑ کر عام لوگوں کے مسائل حل کرنے میں نیب کی کارکردگی خوش آئند ہے۔ غریب عوام کو پلاٹوں کا جھانسہ دے کر لوٹنے والوں سے اربوں روپے لوٹانے کی حد تک نیب کی کارکردگی قابل ستائش ہے۔ جب تک ملک میں احتساب کا کوئی مضبوط نظام نہیں لایا جائے گا کرپشن میں ملوث لوگ بچتے رہیں گے۔ یہ بات ضرور ہے احتساب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے بلکہ جو لوگ کرپشن میں ملوث ہوں ان کے خلاف بلاتمیز کارروائی ہونی چاہیے۔ اب ہم آتے ہیں عدالتی نظام کی طرف جس روز عدلیہ میں احتساب کو کوئی قابل عمل نظام متعارف ہو گیا کرپشن کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نہیں ہوگی۔ قومی سطح پر دیکھا جائے تو عدالتوں کے ساتھ نیب کا ادارہ اور عدالتوں میں کام کرنے والے جج صاحبان جس روز کسی قسم کے دبائو سے بالاتر ہو کر کام کریں گے ہمارا ملک درست سمت پر چلنے لگے گا۔ جیسا کہ ہمارا نظام چل رہا ہے اگر یہی طریقہ کار رہا نہ کرپشن میں ملوث افراد سزا پا سکیں گے اور نہ ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو سکے گا لہذا ان تمام امور میں کامیابی کے لئے ہمیں راست باز قیادت کی اشد ضرور ت ہے ورنہ کرپشن زدہ لوگ کسی کا احتساب کیا کریں گے۔ وقت آگیا ہے عوام آئندہ آنے والے انتخابات میں راست باز قیادت کا انتخاب کریں تو ہمیں کرپشن سے نجات مل سکتی ہے اور ہمارا ملک از سر نو ترقی کی طرف گامزن ہو سکے گا لہذا یہ قوم پر منحصر ہے وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے ۔ اگر عوام ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں کرپٹ سیاسی رہنمائوں انتخابات میں مسترد کرنا ہوگا۔ یہ سمجھتے ہوئے جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ تباہ ہو جا تی ہیں اس کے باوجود ملک میں انصاف ناپید ہے۔ جس روز ملک میں انصاف سب کے لئے برابر ہوتا دکھائی دے گا ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button