شفاف انتخابات: الیکشن کمیشن کی تیاریاں

پچھلے دنوں ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ 8 فروری سامنے آئی تھی۔ چند ایک کو چھوڑ کر اس کا قریباً تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا تھا۔ قبل ازیں اگست میں حکومت اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد پُرامن طریقے سے اقتدار سے علیحدہ ہوگئی تھی، جس کے بعد سابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے انوار الحق کاکڑ کو نگراں وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔ انوارالحق کاکڑ نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنے کا عندیہ دیا۔ یوں تو عام حالات میں عام انتخابات نگراں سیٹ اپ کے 90روز کے اندر منعقد ہوتے ہیں، لیکن ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد اس بار ایسا نہ ہوسکا اور انتخابات کی تاریخ بھی سامنے نہ آسکی تو اکثر سیاسی حلقوں کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے مطالبات متواتر کیے جاتے رہے۔ اس حوالے سے مستقل آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ عدالت عظمیٰ میں اس ضمن میں کیس آیا، جس میں سپریم کورٹ کے حکم کے نتیجے میں صدر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشاورت کے بعد عام انتخابات کی تاریخ سامنے آئی۔ سب سے سُکون کا سانس لیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کی تیاریوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ سیاسی اتحاد سامنے آرہے ہیں۔ توڑ جوڑ ہورہی ہے۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل ہورہی ہیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان کافی پہلے سے عام انتخابات کے انعقاد کی تیاریوں میں مصروفِ عمل تھا۔ اب اطلاع آئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تیاریوں کو حتمی شکل دے دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے تیاریوں کو حتمی شکل دے دی ہے، انتخابات 8 فروری کو ہوں گے، ضلعی سطح پر انتخابی فہرستیں 15نومبر تک مکمل کرلی جائیں گی، حتمی حلقہ بندیوں کی اشاعت رواں ماہ کے آخر تک ہوگی، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور مبصرین کیلئے ضابطہ اخلاق کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، 10لاکھ سے زائد افراد کو پولنگ کے عمل کے لیے اندراج کرنے کی خاطر بھی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں، ملک بھر میں تعیناتی کے لیے پریذائیڈنگ افسران، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران اور پولنگ عملے کی فہرست کو حتمی شکل دی جارہی ہے، ای سی پی نے بین الاقوامی مبصرین کے لیے ضابطہ اخلاق کو بھی حتمی شکل دی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان کے مطابق اس بات کو یقینی بنانے کیلئے تیاریاں مکمل کررہے ہیں کہ جمہوریت کی بنیاد لوگوں کی نمائندگی پر منحصر ہے، جہاں ہر ایک ووٹ کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کی گنتی کی جاتی ہے۔ ای سی پی کے میڈیا کوآرڈی نیشن اینڈ آئوٹ ریچ ونگ کی جانب سے سول سوسائٹی کی اہم تنظیموں کے تعاون سے 34 میڈیا ورکشاپس کے علاوہ اب تک 707 طلبا کے اورینٹیشن سیشنز کا انعقاد کیا جاچکا ہے۔ ان سیشنز میں خواتین، اقلیتوں، ٹرانس جینڈر افراد، خصوصی افراد، اکیڈمی، بلاگرز، رضاکار طلبا اور مقامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے شرکا کی ایک متنوع صف شامل تھی۔ عام لوگوں کی آگاہی کے لیے لگ بھگ 26000ووٹر ایجوکیشن بروشر بلوچستان، 100000سندھ اور 30000خیبر پختونخوا میں بھیجے گئے۔ تیاریوں کے عمل میں، ای سی پی نے 8300پر قومی شناختی کارڈ نمبر بھیج کر یا ان کے علاقے میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے دفتر کے ذریعے تصدیق کے ذریعے ووٹ کی حیثیت کی جانچ کرنے کیلئے ایک ایس ایم ایس سروس کا آغاز کیا، 30نومبر کو سرکاری ریلیز کے لیے حلقوں کی حد بندی کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن میٹا اور فیس بک کے ساتھ انتخابی عمل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے حکمت عملیوں کی تلاش میں مصروف ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تیاریوں کو حتمی شکل دینا یقیناً خوش آئند امر ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے کوششیں ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔ اس ادارے کی اس ضمن میں جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ دوسری جانب عوام کی خواہش ہے کہ بروقت عام انتخابات پُرامن طریقے سے منعقد ہوجائیں اور منتخب جمہوری حکومت اقتدار کی باگ ڈور سنبھال کر ملکی معیشت کو لاحق مشکلات کے حل کا صائب حل نکالے اور اس حوالے سے اقدامات بروئے کار لائے۔ عوام کے مصائب میں کمی کی خاطر کوششیں یقینی بنائے۔ مہنگائی کا مستقل توڑ کرے۔ قوم کو مافیاز سے نجات دلائے۔ اس کے لیے شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھاری بھر کم ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ امید ہے کہ وہ اس سے احسن انداز میں عہدہ برآ ہوگا۔ دوسری جانب نگراں حکومت کو بھی شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن مدد و معاونت فراہم کرنی چاہیے۔ خدا کرے انتخابات کے نتیجے میں عوام کے ووٹوں کے ذریعے ملک کو ایسا منتخب حکمراں نصیب ہو، جو قوم کو درپیش مصائب اور آلام کو صائب طریقے سے حل کرسکے۔
بجلی چوری کے خلاف کامیاب آپریشن
ملک پچھلے ڈیڑھ دو عشروں کے دوران توانائی کے بدترین بحران کی زد میں رہا ہے۔ یہاں بجلی چور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، جو ہر سال اربوں روپے کی بجلی چوری کرکے ملک کو بڑے نقصان سے دوچار کرتے ہیں، ان چوروں کی مفت بجلی استعمال کرنے کا بوجھ باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین پر پڑتا ہے، بجلی چوری اور
نادہندگان کی اس مشقِ ستم کے باعث ہی ملک میں بجلی کے نرخ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت خاصے زیادہ ہیں۔ بجلی چوری کی مکمل روک تھام کی ضرورت کافی سال سے محسوس کی جارہی تھی، اس ضمن میں نگراں حکومت کے دور میں بڑے اقدامات کیے جارہے ہیں، جن کے خوش کن نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصّوں میں پچھلے مہینوں سے بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے۔ اس میں بڑی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ ملک کے اکثر شہروں سے لاتعداد کنڈوں کا خاتمہ ہوچکا اور بجلی چوروں اور نادہندگان سے ملک بھر میں اربوں روپے وصول کیے جاچکے ہیں۔ بلاتفریق یہ کارروائیاں ملک کے مختلف شہروں میں اب بھی جاری ہیں، جن کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بھی بجلی چوری کا سلسلہ پوری شدومد سے جاری ہے، جس کے تدارک کے لیے محکمۂ بجلی راست اقدامات ممکن بنارہا ہے۔ صرف لاہور میں بجلی چوروں کے خلاف پچھلے کچھ عرصے سے جاری آپریشنز میں 2 ارب روپے کے قریب رقم ریکور کی جاچکی ہے۔ اب بھی یہ کریک ڈائون تھما نہیں بلکہ تواتر کے ساتھ چل رہا ہے۔اس حوالے سے سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا کریک ڈائون جاری ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بجلی چوری میں ملوث 40 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ ریجن بھر میں 339 کنکشنز بجلی چوری میں ملوث پائے گئے، 337 بجلی چوروں کے خلاف ایف آئی آرز کی درخواستیں متعلقہ تھانوں میں دائر کی گئیں۔ 219 درخواستیں رجسٹرڈ ہوچکی جب کہ 40 ملزموں کو گرفتار کرلیا گیا۔ پکڑے جانے والے کنکشنز میں 1 زرعی، 4 کمرشل اور 334 ڈومیسٹک تھے۔ تمام کنکشنز منقطع کرکے ان کو 367439 (3 لاکھ 67 ہزار 4 سو 39) یونٹس ڈیٹکشن بل کی مد میں چارج کیے گئے ہیں، جن کی مالیت 1 کروڑ 62 لاکھ 91 ہزار، 6 سو 11 روپے ہے۔ بجلی چوروں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں بڑے کمرشل صارفین بھی بجلی چوری میں ملوث پائے گئے۔ انسدادِ بجلی چوری مہم کے دوران اب تک مجموعی طور پر 12 ہزار 3 سو 98 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 25 ہزار سے زائد کنکشن کے خلاف ایف آئی آر کی درخواستیں جمع کروائی گئیں، جن میں سے 24194 درخواستیں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں۔ بجلی چوروں پر اب تک 47331997 یونٹس چارج کیے گئے، جن کی مالیت 1 ارب 99 کروڑ 27 لاکھ، 86 ہزار 6 سو 76 روپے ہے۔ بجلی چوروں کے خلاف یہ اقدامات لائقِ تحسین ہیں۔ انہیں کسی طور بخشا نہیں جانا چاہیے، ان کو نشانِ عبرت بنانا چاہیے۔ ضروری ہے کہ ملک بھر سے بجلی چوری کی لعنت کے خاتمے کے لیے کریک ڈائون میں مزید تیزی لائی جائے، چھاپہ مار کارروائیاں اور تیزی کے ساتھ کی جائیں، یہ اقدامات اُس وقت تک جاری رکھے جائیں، جب تک بجلی چوری کی مذموم روش کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔