Columnمحمد مبشر انوار

تدابیر

محمد مبشر انوار( ریاض)
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں نجانے کہاں سو رہی ہیں کہ کرہ ارض کے ایک حصہ پر گزشتہ ایک ماہ کے دوران انتہائی قیمتی جانیں ،بربریت و درندگی کے سامنے زندگی کی بازی ہار چکی ہیں لیکن سوائے زبانی جمع خرچ اور دوروں کے کوئی ٹھوس اقدام ابھی تک دیکھنے میںنہیں آ رہا۔غزہ میں ایک طرف مجاہدین ڈٹ کر کھڑے ہیں تو دوسری طرف غزہ کے شہریوں نے ایک مثال قائم کر دی ہے،کہنے والے یقینی طور پر کہتے ہوںگے کہ غزہ کے شہریوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں،تو مثال کیسی؟ایسی سوچ پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتاکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ ان پر زندگی کس طرح تنگ کی جا چکی ہے لیکن اس کسمپرسی کے عالم میں بھی،جب بچے،بوڑھے ،عورتیں ،جنگی قوانین کے برعکس رہائشی عمارتیں،ہسپتال اور سکول تک نشانہ بنائیں جا رہے ہیں،ایسے دردناک وقت میں بھی شہیدوں کے وارثوں کی طرف سے ،کم ازکم ہاہاکار کے مناظر نظر نہیں آ رہے ،بلکہ شہداء کے جسموں کے پاس کھڑے ،یہ نہتے شہری کمال ایمان کے ساتھ،تلاوت قرآن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔غاصبوں کے خلاف آخری حد تک جانے،آخری قربانی دینے تک کا عزم دہراتے نظر آتے ہیں لیکن کہیں سے بھی یہ تاثر نظر نہیں آتا کہ وہ اپنی سرزمین چھوڑنے کے لئے تیار ہیں، البتہ ایسا کوئی شخص روئے زمین پر ممکن نہیں،جسے اپنی آل اولاد کے جانے کا غم نہ ہو،وہ ضرور ان کے چہروں سے عیاں ہے،جو فطری ہے۔تاہم یہاں اس امر سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ اسرائیل اپنی تمام تر فرعونیت ،قہر سامانی اور اسلحہ و آتش کے باوجود،غزہ کو اپنے مذموم منصوبوں کے مطابق خالی کروانے میں بری طرح ناکام رہا ہے،امریکی سہولت و حمایت کے باوجود،امریکی پشت پناہی کے ببانگ دہل اعلانات کے باوجود،اسرائیل کی ناکامی نوشتہ دیوار دکھائی دے رہی ہے۔ اسرائیلی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ،اسرائیلی فوج کی بزدلی ہے کہ یہ فوج پکی پکائی کھانے کے لئے تو ہمہ وقت تیار ہے لیکن خود پکا کر کھانے کی اس کو قطعی عادت نہیں ،لہذا اپنے ترکش کے تمام تر تیر،گولہ و بارود غزہ کے مغربی علاقے پر داغنے کے بعد جب اسرائیلی فوج غزہ کے علاقے میں داخل ہوئی ،تو اسے جس استقبال کا سامنا کرنا پڑا،وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے۔اسرائیلی فوجیوں کی جو درگت ،غزہ کے مجاہدین نے بنائی ہے ،وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس کے باوجود،اسرائیل کی خواہش ہے کہ وہ نہ صرف غزہ بلکہ لبنان میں بھی فوجی کارروائی کرے۔ اس خواہش کی تکمیل جزوی طور پر کرنے کی کوشش میں بھی اسرائیل کو ابھی تک منہ کی کھانی پڑی ہے کہ لبنان میں موجود حزب اللہ اسے اچھا سبق سکھا رہی ہے،تاہم اس جنگ میں نقصان طرفین کا ہو رہا ہے لیکن چونکہ اسرائیل زیادہ وسائل کا حامل ملک ہے اور اس کے پیچھے نہ صرف عالمی طاقت بلکہ دنیا کے دیگرترقی یافتہ ممالک بھی کھڑے ہیں،اس لئے اپنے دفاع میں اسرائیل بھاری معاشی نقصان کے باوجود ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اسرائیل نے اپنے دفاع کے لئے انتہائی جدید اور مہنگا ترین سسٹم نافذ کر رکھا ہے،جبکہ حزب اللہ اور حماس کے مجاہدین کے پاس اس قدر جدید جنگی سازوسامان موجود نہیں لیکن ان ہتھیاروں کو روکنے کے لئے اسرائیل اپنے تمام وسائل جھونکنے پر مجبور ہے۔اس پس منظر میںجب اسرائیل کی جھلاہٹ اپنے عروج کو چھو رہی ہے اور وہ ہرقیمت پر غزہ کے شہریوں سے حق زندگی چھیننے پر تلا ہے،وہ ہر اس شخص،گروہ یا ملک سے پنجہ آزمائی کے لئے تیار ہے ،جو غزہ کے شہریوں کی حمایت کسی بھی صورت کرتا نظر آتاہے۔
دوسری طرف اسلامی ممالک کی تمام تر کوششیں اور کاوشیں اس وقت صرف اس نکتہ پر ہیں کہ کسی بھی صورت جنگ بندی کو ممکن بنایا جا سکے،اس کے لئے عرب ممالک سمیت دیگر اسلامی دنیا مذمت و احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن میدان میں مقابلہ کرنے کی ہمت اس وقت کسی بھی اسلامی ملک میں دکھائی نہیں دیتی۔ ایران اور ترکی نے بہرکیف میدان میںاترنے کی دھمکی ضرور دے رکھی ہے لیکن نجانے ان کی مسلح افواج کب غزہ کے شہریوں کی آواز پر لبیک کہیں گی اور میدان میں اتریں گی،جبکہ پاکستان کی طرف سے بھی فقط مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ خاص نظر نہیں آرہا۔ تادم تحریر ! سعودی عرب میں نہ صرف خلیجی ممالک کا اجلاس ہو رہا ہے بلکہ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بھی ہے، ان اجلاسوں میں اسلامی ممالک کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں،اس کا انتظار ہے لیکن ایک حقیقت واضح ہے کہ ان اجلاسوں میں بھی عالمی برادری سے جنگ بندی کی پرزور اپیل کی جاسکتی ہے۔جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آتی کہ اسلامی ممالک کے لئے میدان کارزار میں اترنا اس وقت ممکن ہی نہیں دکھائی دے رہا، درون خانہ یہ ریاستیں خوف کا شکار نظر آتی ہیں کہ اگر یہ جنگ پھیلتی ہے تو اس کے شعلے کہیں پورے مشرق وسطی کو ہی اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ گو کہ یہ ایک امکان ہے لیکن یہ امکان اس قدر قوی ہے کہ اس کے حقیقت بننے کی تاب لانا مشرق وسطی کے بس میں ہی نہیں،اسے مرگ مفاجات نہ کہیں تو اور کیا کہیں،کہ زمانہ امن میں بھی مسلم ممالک نے اپنے دفاع سے صرف نظر کئے رکھا ہے یا اپنی جارحانہ صلاحیت میں اضافہ نہیں کیا۔بہرکیف حقیقت یہی نظر آ رہی ہے کہ اگر یہ جنگ بند نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس مزید پھیلتی ہے تو یہ واضح ہے کہ امریکہ و مغربی ممالک کی اکثریت بہرطور اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہوں گی جبکہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرق وسطی کے بیشتر ممالک نے چین کے ساتھ سٹریٹجک معاہدے کر رکھے ہیں اور ان کے دفاع کا انحصار چین اور روس پر ہو گا۔روس اور چین، اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ،جنگ بندی پر زور ضرور دے رہے ہیں لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ تاحال ہزاروں بے گناہ اور نہتے شہریوں کی شہادت کے باوجود جنگ بندی میں کامیاب نہیں ہو سکے،البتہ اگر یہی کشت و خون غیر مسلموں ، کسی مغربی ملک میں ہوتا تو اب تک امریکہ اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ اس آگ میں کود چکا ہوتا ۔
جنگ شروع ہونے سے قبل کوئی نہیں جانتاکہ یہ ختم کیسے ہو گی یا اس کاانجام کیا ہو گا البتہ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی جنگ کے خاتمے کے بعد،فریقین کو مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے اور اس خطے میں ماضی گواہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی مفتوحہ علاقے واپس نہیں کئے بلکہ ہمیشہ اپنی سرحدوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔
بظاہر یوں محسوس ہو رہاہے کہ اس مرتبہ اسرائیل یہ قضیہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی کوششوں میں ہے اور امریکی و برطانوی حمایت اس کے ساتھ ہے،اس لئے اس کی کوشش ہے کہ ہر صورت یا غزہ کو مستقل طور پر فتح کر لے یا کم از کم غزہ کے شہریوں کو یہاں سے بیدخل کر دے۔ مشرق وسطی اور اسلامی ممالک جو کانفرنسز کر رہے ہیں، قراردادوں میں جس عزم کا بھی اظہارکررہے ہیں ،اسرائیل پر اس کا رتی برابر اثر دکھائی نہیں دیتا اور نہ اسرائیل اسے پرکاہ کی حیثیت دینے کے لئے تیار ہے، حد تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں اس حوالے سے پیش کی جانے والی درخواستوں کو بھی امریکہ دو بار ویٹو کر چکا ہے۔ اس پس منظر میں یہ گمان کہ خلیجی ممالک کی کانفرنس اور بعد ازاں او آئی سی کی کانفرنس میں کئے جانے والے فیصلوں پر اسرائیل یااس کے پشت پناہوں کو جنگ بندی کے لئے قائل کیا جا سکے گا،بظاہر خام خیالی نظر آتی ہے۔تاہم ان کاوشوں سے کہیں بہتر ہوتا کہ اسلامی ریاستیں،دوراندیشی کا ثبوت کا دیتے ہوئے،ایسی تدابیر ماضی میں اختیار کرتی کہ جن کی بدولت آج اسرائیل کی جارحیت کے سامنے بند باندھا جا سکتا،موجودہ تدابیر، اسرائیل کے ظلم وستم کو روکنے کے لئے کلیتا ناکافی ہیں ۔غیر مسلم،مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہے جبکہ عالم اسلام کی تدابیر میدان کارزار سے ہٹ کر فقط اتنی ہیں کہ کسی طرف دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں ،ان کی جارحیت رک جائے لیکن میدان میں اترنے کی کوئی تدبیر بظاہر نظر نہیں آ رہی۔اللہ کریم غزہ کے مجاہدین ،شہریوں کی مشکلات کو آسان فرمائے،جو تدابیر وہ اسرائیل کے خلاف بروئے کار لا رہے ہیں،اس میں انہیں کامیابی عطا کرے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button