CM RizwanColumn

بنیادی ناپاکی اور پاکستان

سی ایم رضوان
جب یہاں لوٹ کھسوٹ، عصمت دری، موقع پرستی اور قتل و غارت کا بازار گرم تھا، اپنے پرائے، چھوٹے بڑے، جاہل عقلمند اور بددیانت اور دیانتدار کا فرق مٹ گیا تھا، صرف تلوار، برچھی، کرپان اور لاٹھی کی زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی، جب کلیموں، پرمٹوں اور پرچیوں کی بنیادوں پر دستاریں اتاری اور باندھی جارہی تھیں، جب غیرت کنوئوں میں چھلانگیں لگا کر دنیا سے رخصت ہورہی تھی اور بے غیرتی، بے شرمی اور موقع پرستی جائیدادیں سمیٹ رہی تھی۔ جب سادگی جرم اور چالاکی اعزاز بن گئی تھی، جب جھوٹ حاکم اور سچ محکوم ہو گئے تھے تو ان حالات و واقعات اور ترجیحات و اصلاحات کے بطن سے یہاں ایک ملک نے جنم لیا تھا۔ کسی درویش نے اس ملک کا نام تو درست یعنی پاکستان رکھا تھا مگر پلید مزاج طاقتوروں نے اس کی بنیادوں میں پلیدی بھر دی تھی۔ اس وقت بھی اور تب سے لے کر اب تک بھی لاکھوں انسانوں کا پوتر خون اس سازش بھری پلیدی کو زائل کرنے کے لئے اس ارض وطن کو سینچنے کے لئے دیا گیا ہے مگر وہ بنیادی اور جڑ پکڑ جانے والی پلیدی آج بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، وجہ یہ ہے کہ جو لٹیرے محض جھوٹ اور طاقت کی بناء پر تب عزت اور اختیار پا گئے تھے وہ اس اختیار اور وقار کی یہ دستار اس کے حقدار سروں پر رکھنے کو تیار ہی نہیں۔ ان کی اولادیں نسل در نسل اسی بنیادی حادثاتی موقع پرستی کا تحفظ کرتے کرتے آج بھی اس ملک کی مالک بنی بیٹھی ہے۔ تب سے لے کر آج تک جس نے بھی حق کے لئے آواز اٹھائی ہے ان اجارہ داروں نے اس آواز کو دبا دیا ہے۔
75 سالہ ظلم وستم اور اندھیر کے نتیجے میں آج پاکستان کے غریب طبقے کے پاس زندہ رہنے کے آپشن کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اشرافیہ کے ایک ایک خاندان اور فرد کے اثاثے ملک سے بڑے ہو چکے ہیں۔ پاکستان لامحدود خزانوں کا حامل ملک ہے۔ قیام سے لے کر اب تک دن رات لوٹ مار سہنے کے باوجود اب بھی ان کو اس ملک میں لوٹنے کے لئے بہت کچھ نظر آ رہا ہے۔ تبھی تو یہ اختیار کے حریص اقتدار کے لئے جان دینے یا لینے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ ورنہ یہ سب کچھ چھوڑ کر کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں جا بسیں۔ ان حالات میں کسی ایک کو چور کہہ دینا بہت معمولی بات ہے کیونکہ یہاں تو سبھی بااختیار چور ہیں۔ ہمارے ہاں رائج اس ننھے منے سرمایہ دارانہ نظام میں تمام سرکاری ادارے عوام کی بجائے انہی سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ وہ سرمایہ دار جن کے دستر خوان پر رکھے کھانوں کے نام تک عام پاکستانی کو نہیں آتے، ایسے حالات میں عام پاکستانی ایوانِ اقتدار کی الجھنیں اور گہری سازشیں کیا خاک سمجھیں گے اور اس فکری حیثیت کے ساتھ ووٹ کیا خاک ڈالیں گے۔ عوام کو کیا معلوم کہ جب بھی یہ سرمایہ دارانہ نظام گراوٹ، بحران اور نقصان کا شکار ہوتا ہے تو سارے بڑے سرمایہ دار اپنا مفاد محفوظ کرنے اور اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے لئے بظاہر ایک دوسرے پہ پَل پڑتے ہیں. پھر ان میں سے ایک ہیرو بن جاتا ہے اور دوسرے اپوزیشن میں جا بیٹھتے ہیں اور عوام سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جمہوریت کی بالادستی قائم ہو گئی ہے حالانکہ ان بالادست طبقوں کی بالادستی مزید موقع پا لیتی ہے۔ آج بھی دیکھ لیجئے پاکستانی معیشت مسلسل گراوٹ اور مندی کا شکار ہے اور یہی کچھ عالمی منظر نامے پہ نظر آ رہا ہے. خود امریکہ جیسی مستحکم سمجھی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ڈانواں ڈول ہے۔ بار بار جزوقتی و قلیل مدتی بجٹ ترتیب دیئے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کی معیشت نہ ختم ہونے والے بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے۔ پیداوار ( قدرِ زائد) کے انبار لگا دینے والی چینی معیشت بار بار کریش کر جاتی ہے، مگر یہ سب اعدادوشمار کے دھوکے ہیں ان دھوکوں کو پرکھنے کا ایک ہی زاویہ ہے کہ کوئی بھی سرمایہ دار ٹائیکون کا غریب ہونا تو کجا اس کے سرمائے میں ایک ڈالر کی بھی کمی نہیں آ رہی بلکہ جوں جوں دنیا میں غربت بڑھ رہی ہے سرمایہ داروں کی دولت بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ وطن عزیز کی معیشت بھی گراوٹ کا شکار ہے جبکہ اس کے سرمایہ دار کثیر سرمائے کے حامل ہیں۔ ماشاء اللہ ہمارے سیاستدان ہی سرمایہ دار ہیں جیسے نوازشریف اور آصف زرداری جبکہ عمران خان کے انویسٹر اور ہولڈرز سرمایہ دار ہیں یعنی عمران خان سرمایہ داروں کا گماشتہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ بلاواسطہ طور پر سیاستدان طبقے کی کٹھ پتلی ہے۔
موجودہ حالات میں صرف غریب کو ہی نہیں نظام کو بھی سیاست دانوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ پڑ گئی ہے گو کہ عام بندہ یہ سمجھ رہا ہے کہ سیاست میں بحران ہے جبکہ دراصل اب سیاست دان بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ روز آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آج کی صدی میں آمریت نافذ کرنا آسان نہیں ہے۔ یعنی آج کی طاقت کو کسی بھی نواز شریف یا زرداری کی اشد ضرورت ہے۔ سابقہ سالوں کی اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان پراجیکٹ جیسی فاش غلطی نے اب طاقتور حلقوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ کسی مضبوط اور باعمل سیاسی طاقت کو اقتدار دلوائیں۔ جس طرح پاکستان کی معیشت گراوٹ اور عدم استحکام کا شکار ہے ویسے ہی ملک کا طاقت کا نظام بھی کمزور اور عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ آئندہ انتخابات کی صورت میں بظاہر پاکستانی سیاست میں رسہ کشی ہے۔ لیکن دراصل یہ پاکستانی سرمایہ داروں کی آپسی جنگ ہے جو اپنی اپنی چالاکی سے پاکستانی اداروں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اداروں کا ان کے لئے استعمال ہونا بھی مجبوری بن گیا ہے اور جو نیا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ طاقت ور حلقوں میں انہی سیاسی مہروں کو لے کر ایک کھیل شروع ہے۔
موجودہ حالات میں اگر نواز شریف کی جگہ کوئی دوسرا سیاستدان ہوتا تو کب کا قصہ پارینہ بن کر گمنام ہو چکا ہوتا لیکن چونکہ نواز شریف کا ریاستی حلقوں اور بیرونی طاقتوں میں خاصا اثر و رسوخ ہے اِس لئے وہ ابھی تک میدان میں موجود ہے۔
یاد رہے کہ موجودہ پاور وار میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہاں نوازشریف جیتے گا یا پھر کوئی دوسرا سرمایہ دار یا کئی دیگر سرمایہ دار جیتیں گے اور پاور کوریڈورز میں بھی ان سب کے ہینڈلرز علیحدہ علیحدہ بھی ان کو چلاتے رہیں گے اور ایک اجتماعی اور بڑا ڈنڈا بھی ان سب کے سروں پر لٹکتا رہے گا۔ نظام کی کمزوری اور طاقت کے ایک مرکز کی کمی اگلے الیکشن کے بعد بھی محسوس کی جاتی رہے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح یہاں قیام پاکستان سے قبل مختلف علاقوں اور مختلف مراکز کی حکومتوں اور بدمعاشیوں کا دور دورہ تھا۔ بااثر سکھ بھی لوٹ کھسوٹ کر رہے تھے ۔ سرمایہ دار ہندو بنیا بھی چور بازاری میں مصروف تھا۔ کرپٹ مسلمان بھی دلالی کر کے کھا پی ریا تھا اور قابض انگریز بھی یہاں کا مال وہاں پہنچانے کی قبیح ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا۔ ایسے میں پڑھے لکھے طبقے کے مسلمان تحریک پاکستان کے تحت اکٹھے ہو گئے۔ کلمے کی بنیاد پر ملک تو مل گیا۔ آزادی نہ مل سکی کیونکہ آزادی کے بعد قوم بننا ضروری تھا قوم کے ایک ایک طبقے اور ایک ایک بچے کو قومی دھارے میں لانا ضروری تھا مگر لٹیروں نے آج تک اس ملک کا قبضہ نہیں چھوڑا یہاں تک کہ آج پھر ایک اور الیکشن کی تیاری جاری ہے۔ عوام میں بھی اس طرح کا جوش و خروش نہیں کیونکہ اس کے مجموعی مزاج کے مطابق مر جائو مار دو آگ لگا دو جلا دو گرا دو۔ نہیں چھوڑیں گے۔ معاف نہیں کریں گے۔ اب نہیں تو کبھی نہیں اور دوسرے فتنہ، فساد پر مبنی نعرے اور تقریریں کرنے والوں کو اصولی طور پر خاموش کروا دیا گیا ہے۔ عوامی انقلاب کے نام پر ملک میں ایک اور چوتھا عذاب برپا کرنے کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ ایسا کچھ کرنے کا سہرا صرف ایک ہی سربراہ ادارہ کے سر ہے۔ وہ اگر چاہیں تو طاقت کے بکھرے شیرازے کو بھی مجتمع کر سکتے ہیں ایک مرکز پر متحدہ طاقت کے تحت ملک میں ایک مضبوط اور دیانتدار سیاسی حکومت کے قیام کی راہ بھی متعین کر سکتے ہیں ایسے میں ایک منصف مزاج چیف جسٹس کا وجود بھی غنیمت ہے۔ جو ملک کی معاشی اور سیاسی حوالوں سے ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کی مکمل صلاحیت اور نیت کے حامل ہیں۔ ایسے میں عوام کے پاس صرف یہ آپشن ہے کہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کر کے ذہنی، قلبی و جسمانی طور پر حقائق کو سمجھیں اور کسی ایسے کھلاڑی کے دھوکے میں نہ آئیں جو زبان سے تو حب الوطنی کا نعرہ لگاتا ہو اور عملاً اس ملک کی فوج کے خلاف اقدامات کرنے کا درس دیتا ہو۔ ورنہ نعوذباللہ اس ملک کا وجود خطرات سے دوچار ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button