ColumnFayyaz Malik

3کروڑ 80لاکھ بھکاری

فیاض ملک
لاہور پیشہ ور گداگروں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا ہے۔ کوئی سڑک، چوراہا، گلی، کوچہ، محلہ ایسا نہیں جہاں گداگر نظر نہ آئے، گداگروں نے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں، جہاں ان کا پورا نیٹ ورک ہے، علاقے ٹھیکے پر دئیے جاتے ہیں، گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ لاہور کی فردوس مارکیٹ والا ٹریفک سگنل کافی دنوں سے خراب تھا۔ جس کو وہاں پر بھیک مانگنے والے ( گداگروں) نے خود ملکر ٹھیک کرا لیا، ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ کئی دن سے ٹریفک سگنل خراب ہونے کے باعث لوگ اشارے پر نہیں رک رہے تھے، جس کے باعث ان کو بھیک مانگنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا رہا تھا، جس پر انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کو ٹھیک کرا کر دوبارہ اپنے کاروبار کا آغاز کر دیا، اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یقینا اس وقت گداگری پورے ملک میں باقاعدہ طور پر منافع بخش کاروبار بن چکی، شہروں سے دیہاتوں تک، محلوں سے پوش علاقوں تک، مزاروں سے ہسپتالوں تک، ہر جگہ گدا گروں کی بڑھتی تعداد لمحہ فکریہ ہے، آج جب ہم اپنے ارد گرد گداگروں کی بھرمار دیکھتے ہیں تو یقینا ایک سوال ہم سب کے ذہنوں میں گھومتا ہوگا کہ آخر گداگری کا تصور کس ملک سے شروع ہوا اور کیا اس کی کوئی تاریخ بھی ہے ؟ دراصل دنیا میں گدا گری کا تصور کوئی نیا تصور نہیں ہے، بلکہ صدیوں سے چلتا آرہا ہے، اس کی باقاعدہ تاریخ کا تعین کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ یہ رواج کسی ایک خطے سے جڑا ہوا نہیں بلکہ پوری دنیا میں یکساں موجود ہے، ترقی پذیر ہوں یا ترقی یافتہ ممالک، فقیروں کی موجودگی ہر جگہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ اگر لاہور کے ہر چوک پر فقیر موجود ہے تو لندن کی بھی ہر سڑک میں بھکاری بیٹھا ہے، اگر مینار پاکستان کے پاس فقیروں کی بھرمار ہے تو ایفل ٹاور کے پاس بھی لاتعداد فقیر ہیں۔ چنانچہ اس کے ارتقاء کا تعین کرنا آسان نہیں، جب ہم ملک میں اتنی بڑی تعداد میں فقیروں کو دیکھیں تو ایک سوال ہی ذہن میں آتا ہے کہ کیا واقعی پاکستان میں اتنے لوگ غریب ہو چکے ہیں؟، کیا واقعی ملک کے حالات ایسے نازک ہو گئے ہیں کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے لوگ مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں ؟، جو کوئی بڑی نوکری تو نہیں مگر مزدوری کرنے کے قابل تو ہیں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھیک مانگنا کمائی کا آسان ترین ذریعہ بن چکا ہے، پیشہ ور بھکاریوں کا جال بچھا ہوا ہے جو مختلف حیلوں بہانوں سے بھیک مانگتے ہیں، بعض ایسی فنکاری سے بھیک مانگتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا، مستحق کون ہے اور غیر مستحق کون؟، مستحقین کو تو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ بس سٹاپ پر کھڑے ہوں یا ٹریفک سگنل پر، شہر میں ہوں یا دیہات میں ، ٹرینوں، بسوں میں ہوں یا پیدل ہوں، ان کی موجودگی آپ کو ہر جگہ دکھائی دے گی، جن کی فریاد بھری صدائیں آپ کے کانوں میں ہر وقت گونجتی رہیں گی۔ بھیک کو اسلام میں بہت برا تصور کیا گیا ہے، اسی لیے اہل تقویٰ کے نزدیک کسبِ حلال سے دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہر اس شخص کو اپنا دوست رکھتی ہے جو اپنے ہاتھوں سے حلال رزق کماتا ہے، لیکن بھیک مانگنے والوں کا موقف ہے کہ ہم بھی حلال روزی کما رہے ہیں کیونکہ جگہ جگہ سارا دن ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر مانگنا پڑتا ہے، بے شک دونوں ٹانگیں ٹھیک بھی ہوں، آج بھیک مانگنے کی لعنت ہمارے معاشرے میں ایک ناسور بن چکی ہے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں مجھ کو ایک دوست نے سوشل میڈیا پر ایک رپورٹ بھجوائی، جس کے حیران کن حقائق کچھ یوں ہیں،24کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 3کروڑ 80لاکھ بھکاری ہیں جس میں 12فیصد مرد، 55فیصد خواتین، 27فیصد بچے اور بقایا 6فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا 50فیصد کراچی، 16فیصد لاہور، 7فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 اور اسلام آباد میں 950روپے ہے۔ پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850روپے ہے۔ روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔ سالانہ یہ رقم117کھرب روپے بنتی ہے۔ ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42ارب ڈالر بنتی ہے۔ اب دوسری طرف آئیے،3کروڑ 80لاکھ افراد اگر کام کریں تو فی کس اوسطا 2ہزار روپے کی پروڈکٹ بنا سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ روزانہ 76ارب روپے یعنی 27کروڑ ڈالر کی گھریلو صنعت کی پروڈکٹس بنا سکتے ہیں اور سالانہ کام کے دنوں کے اعتبار سے 78ارب ڈالر کی پروڈکٹس تیار کر سکتے ہیں۔ اگر ہم پچاس فیصد ہی ایفیشنسی ریٹ لے لیں تب بھی سالانہ 39ارب ڈالر کی ایکسپورٹ متوقع ہے۔ بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھاکر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42ارب ڈالر نکل جاتے ہیں۔ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21 فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کیلئے 3کروڑ 80لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی
قوت کسی کام نہیں آتی جبکہ ان سے کام لینے اور معمولی کام ہی لینے کی صورت میں آمدنی 38ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برس میں ہی ہمارے ملک کو مکمل اپنے پائوں پر نہ صرف کھڑا کر سکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کیلئے باعزت روزگار بھی مہیا کر سکتی ہے، اگر آپ چند سال میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کیلئے پرسکون زندگی دینا چاہتے ہیں تو آج ہی سے تمام بھکاریوں کو خدا حافظ کہہ دیجئے، پانچ سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر ان شاء اللہ نادم نہیں ہونگے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی محسوس کرینگے، کیونکہ بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خدا حافظ کہا تھا اس کے صرف چار سال بعد اس کے پاس 52ارب ڈالر کے ذخائر تھے، کیا ہم اچھی بات اور مستند کام کی تقلید نہیں کر سکتے۔ اب اپنے بچوں کیلئے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فقیری اور غربت کی آڑ میں گداگری ایک قابل فکر معاملہ بن چکا ہے، جس کے خلاف موثر کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب اور مستحق افراد دنیا کے ہر کونے میں موجود ہوتے ہیں ، مگر اصل چیلنج یہ ہے کہ انکو کس طرح گداگری جیسے ناسور سے دور رکھا جاتا ہے؟ اس کا انحصار حکومتی پالیسیوں اور قوانین پر ہے۔ مغرب میں تو لوگوں کی سوشل سکیورٹی کے بہت سے پروگرامز چلتے ہیں۔ ان کو تمام سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ان کی کڑی نگرانی بھی ہوتی ہے کہ کہیں یہ ناجائز طریقے سے پیسے کمانے میں تو ملوث نہیں ؟ اگر ایسا ہو تو نہ صرف تمام سہولیات واپس لے لی جاتی ہیں بلکہ ان کو سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ انہی سخت قوانین کے باعث یورپی ممالک میں ایسے معاشرتی امراض اتنے عام نہیں۔ لندن میں چند سال قبل ایک جعلی فقیر کرسٹوفر کو نشان عبرت بنایا گیا جو آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہے، جو حکومتی امداد بھی لیتا تھا اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر بھیک مانگتا تھا۔ اس کے پاس مختلف قسم کے بورڈ تھے جن پر ’ میری امداد کرو‘،’ مجھ پر ترس کھائو‘ جیسے جملے لکھے ہوتے تھے۔ لیکن آخر کار روپ بدل کر بھیک مانگنے والا بھکاری پکڑا گیا جس کا مانچسٹر میں اپنا گھر موجود تھا جو اس نے حکومتی امداد اور اپنے فن فقیری سے ہی بنایا تھا۔ چنانچہ اس واقعے کو مثال بناتے ہوئے پاکستان میں بھی ٹھوس پالیسیاں اور گداگری کیخلاف قوانین بنانے کی ضرورت ہے، جس سے دو کام ہونگے ایک تو ان جعلی گداگروں کے خلاف سخت کریک ڈائون ہو گا اور دوسرا یہ جو مستحق حقدار ہیں ان کی سوشل سکیورٹی کے زیادہ سے زیادہ پروگرام شروع ہونگے جن سے ان کی مدد ہوسکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button