غزہ کے آئینے میں صورتیں دیکھیں

سیدہ عنبرین
کوئی بھی فرد معاشرہ یا ملک ظلم ہوتا دیکھ رہا ہو اور مظلوم کے ساتھ کھڑا نہ ہو تو یقین کر لینا چاہیے کہ وہ ظالم کے ساتھ کھڑا ہے، اسی کا دوست ہے اور اتنا ہی قابل نفرت ہے جتنا ظلم کرنے والا۔ غزہ ایک آئینہ ہے، ہر ایک کا حقیقی چہرہ اس میں دیکھا جاسکتا ہے، پاکستانی عوام نے بحیثیت مجموعی اسرائیلی بربریت کے خلاف آواز بلند کی ہے، وہ اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، اُن کی تن من دھن سے مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی ہیں، جنہیں عبور کرنا ان کے بس کی بات نہیں، اس نازک موقع پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ جماعت اسلامی نے سب سے پہلے فلسطینیوں کیلئے آواز اٹھائی، عالمی شعور کے ساتھ ساتھ ملکی شعور کو بھی بیدار کرنے کی کوششیں کی، تمام تر رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود احتجاجی مارچ کیا، جس میں زندگی کے ہر طبقے کی نمائندگی نظر آئی، ان کی طرف سے لاہور میں ملین مارچ کا اعلان کیا گیا ہے، جو یقینا کامیاب رہے گا، لوگ فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے کے اسرائیلی اقدامات کے خلاف بھرے بیٹھے ہیں، ان کے بس میں ہو تو وہ ہتھیار بکف فلسطینی مجاہدین کے شانہ بشانہ اس جاری جنگ میں حصہ لینے کیلئے پہنچ جائیں، جے یو آئی نے بھی اپنا فرض ادا کیا ہے، اُنہوں نے دو ٹوک انداز میں فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور فرض ادا کرنے کی کوششیں کی ہے، تحریک لبیک نے بھی اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالا ہے، بڑے رضوی صاحب حیات ہوتے تو بات دیگر ہوتی، وہ اس انداز سے اسرائیل کو للکارتے کہ تل ابیب تک ارتعاش جاتا۔ قومی سطح کی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو نے اسرائیل ظلم کی اسی انداز میں مذمت کی ہے جسے کوئی وزیر خارجہ کرتا ہے، پارٹی کے قائد جناب آصف علی زرداری نے بیشتر کام بلاول بھٹو کے سپرد کر رکھے ہیں، اُنہوں نے اس حوالے سے کوئی پالیسی بیان نہیں دیا، وہ پارٹی کی تنظیم نو اور الیکشن کے حوالے سے دیگر کاموں میں مصروف ہیں، مگر ان کا دل دکھی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما نے اپنے استقبالیہ جلسے میں ایک سطری اظہار یکجہتی کیا، پھر وہ اپنی تھکن اتارنے اپنے پسندیدہ گھر مری چلے گئے، وہاں سے کچھ شاش بشاش ہوکر رائے ونڈ پہنچے تو خاندان کے لوگوں سے ملاقاتیں جاری رہیں، وہ انہیں اپنے اوپر بیتے مظالم سناتے رہے، آبدیدہ ہوتے رہے اور ملک کی قسمت سنوارنے کے طریقے بتانے میں مصروف رہے، انہیں کچھ فرصت ملے گی تو شاید فلسطین اور اہل فلسطین کو یاد کریں، گمان ہے وہ اس حوالے سے جو کچھ کہہ چکے ہیں بس اسی پر گزارا کرنا ہوگا، ایک لفظ بھی اور کہا تو ان کے مجازی دوست
ناراض ہوجائیں گے، وہ نہیں چاہتے کہ فلسطین کے معاملہ اور اسرائیل کی بربریت پر کچھ زیادہ کہا جائے، یہ جنگ شروع نہ ہوتی حجاز، اسرائیل ایک اہم معاہدے پر دستخط کرنے والے تھے، حجازیوں نے اسرائیلیوں سے کہا ہے ذرا رک جائیں، جونہی جنگ ختم ہوگی، صورتحال قدرے معمول پر آئے گی تو ہم سلسلہ جنبانی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے ٹوٹا تھا، امریکہ نے انہیں اہم ذمہ داری دے رکھی ہے کہ مسلمان ملکوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے تیار کیا جائے، اہم ممالک پاکستان، انڈونیشیا اور ملائیشیا ہیں۔ امریکہ چاہتا تو ہے کہ ایران بھی ان کی ڈگر پر آجائے جو ناممکنات میں ہے۔ پاکستان اقتصادی طور پر برباد تو ہو ہی چکا ہے لیکن امریکہ، یورپ و اسرائیل اس انتظار میں ہیں کہ کب اس کا سانس اکھڑتا ہے، بس یہی وہ وقت ہے جہاں ہمیں پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں، پھر انہی نازک لمحات میں ہمیں ایک اقتصادی پیکیج دیا جائے گا جس کی مالیت کوئی خاص نہ ہوگی، پچاس ارب ڈالر کا نصف ہماری جیب میں ڈال کر باقی کے وعدے کرکے ہمیں کوئی اہم فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جائیگا۔ اس سے پہلے صیہونیوں کے زیر اثر الیکٹرانک میڈیا تواتر سے اس کے فائدے بیان کرتا نظر آئے گا اور قومی سطح کے لیڈر جو درحقیقت یہودیوں کے نمائندے ہی ہونگے فاتحانہ بیان جاری کریں گے کہ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر بچالیا گیا ہے۔ درحقیقت وہ پاکستان کی تباہی کے منصوبے پر عمل درآمد مکمل کرتے نظر آئینگے، ن لیگ کے سابق وزیر خزانہ آئندہ حکومت میں یہی منصف سنبھالنے کی تیاریوں میں مصروف مستقبل کے وزیر خزانہ اپنے آخری زمانہ اقتدار میں اس موضوع پر اپنا بیان جاری کرگئے تھے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر جاننے کی کوششیں کی تھی کہ ردعمل کیا آتا ہے، نیازی پارٹی کی طرف سے یہودیوں کی کوئی مذمت نہیں کی گئی، نیو تحریک انصاف یا آج کی استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ نے الیکشن کمپین تو شروع کردی ہے اُنہوں نے کچھ ایسے وعدے کئے ہیں جو تاقیامت پورے نہیں ہوسکتے۔ ان کے جلسہ عام میں لاکھوں روپے کے کرنسی نوٹ بھی نچھاور کئے گئے لیکن اُنہوں نے فلسطین کے مسئلے پر ایک لفظ تک نہ کہا۔ ایم کیو ایم کی طرف سے دیگر معاملات پر بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن شاید اس سنگین مسئلے پر کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، یہی حال علاقائی اور صوبائی سیاسی پارٹیوں کا ہے، سب کہیں نہ کہیں شامل ہونے کی دوڑ میں ہیں۔ انفرادی سطح پر جن شخصیات نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے، ان میں کئی غیر مسلم شخصیات ہیں، جنہوں نے اپنے انسان ہونے کا حق ادا کر دیا ہے، عالمی شہرت یافتہ اداکارہ انجلینا جولی نے غزہ پر وحشیانہ بمباری پر امریکہ اور اسرائیل کی بھرپور مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہیں، دنیا کو چاہیے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ اور اسرائیل کی مذمت کرے، فوری جنگ بندی کی جائے اور فلسطینیوں کو ان کا حق دیا جائے۔ 29سالہ انس جابر تیونس کی ٹینس سٹار ویمن ٹینس کا فائنل جیت چکیں تو ان سے پوچھا گیا کہ وہ آج اس جیت کے بعد کیسا محسوس کر رہی ہیں، وہ رو پڑیں اور کہا کہ جیت پر زیادہ خوشی اس لیے نہیں کہ ہر روز معصوم بچوں کو مرتا ہوا دیکھا نہیں جاسکتا، میں امن چاہتی ہوں، ننھے بچے مارے جارہے ہیں، میں ایسے میں کس طرح کوئی خوشی منا سکتی ہوں، اُنہوں نے اسی وقت اپنی انعامی رقم کا ایک حصہ فلسطینیوں کی مدد کیلئے دینے کا اعلان کیا اور دنیا میں امن کی خواہش رکھنے والوں کے دل جیت لئے۔ ذاکر نائیک نے بھی عطیے کا اعلان کیا ہے، کرکٹ ورلڈ کپ میں کئی مسلمان کھلاڑی کھیل رہے ہیں، لاکھوں نہیں کروڑوں روپیہ بنارہے ہیں، کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی، کسی کو فلسطین یاد نہیں، یہی حال ہمارے ملک میں کھربوں روپے کمانے والے کھرب پتیوں کا ہے، یہی کہانی ان کی بھی ہے جو گٹر پر ڈھکنا لگاتے ہوئے تصویر اتروانا اور اسے اہتمام سے شائع کرانا نہیں بھولتے، یہی المیہ ان کا ہے جو آئے دن غربا کیلئے بچھائے گئے دستر خوان کی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، وہ بھول گئے کہ آج غزہ میں بھوک بھی ہے اور پیاس بھی، وہاں دن رات خون بہہ رہا ہے، جبکہ ان کے سروں پر بارود کا بادل چھایا ہے، جو بارود برسا رہا ہے چھائوں نہیں دے رہا، فلسطینی انتظار کر لیں گے، اہل پاکستان ورلڈ کپ اور آوے ای آوے سے فارغ ہو لیں، تب تک غزہ کے آئینے صورتیں دیکھتے رہیں۔