Ali HassanColumn

سندھ کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار

علی حسن
حال ہی میں صوبہ سندھ کے نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ( ر) مقبول باقر نے خیرپور میڈیکل کالج اسپتال ؍ سول اسپتال کا دورہ کیا اور ناقص کارکردگی پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ عبدالقادر بھٹو کو عہدے سے ہٹا دیا اور ڈائریکٹر فنانس کو معطل کرنے کے احکامات دئیے۔ انہوں نے سول اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کا معائنہ بھی کیا۔ مریض ایمرجنسی میں ایسے ہی پڑے تھے، نہ کوئی آکسیجن تھی اور نہ ہی مونیٹر کام کر رہے تھے۔ سٹیچر بغیر کسی ترتیب سے پڑے تھے۔ کسی سٹیچر پر کوئی چادر تک نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ پندرہ سال میں اربوں روپے کا بجٹ صوبے کے اسپتالوں پر خرچ کیا ہے لیکن اتنی بھاری رقم کہاں اور کس طرح خرچ ہوئی، یہ تو نگران وزیراعلیٰ کے ایک ہی دورے سے ظاہر ہو گیا لیکن نتیجہ کچھ بھی بر آمد نہیں ہوگا۔ نگران وزیر اعلیٰ کی نگرانی تو صرف چند ماہ کی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو اس وقت کی وزیر صحت عذرا پیچو ہو نے شہداد پور کے میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کو دورہ کیا تھا۔ انہوں نے انسٹیٹیوٹ کی حالت دیکھ کر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ عذرا پیچو ہو پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ہیں۔ ابھی تو بات محکمہ صحت کی ہو رہی ہے لیکن لوگ چیختے ہیں کہ کسی بھی محکمہ اور شعبے میں پارٹی کے وزرا کی کارکردگی اطمینان بخش ہونے کے برعکس انتہائی مایوس کن تھی۔
جس سول اسپتال خیرپور کا دورہ نگران وزیر اعلیٰ نے کیا اس کا، جیسا انہیں بتایا گیا 430ملین روپے کا سالانہ بجٹ ہے۔ 43کروڑ روپے کی رقم بہت بڑی رقم ہوتی ہے، جسے ایک ہی 550بستروں کے اسپتال میں خرچ ہونا تھا۔ وزیر اعلیٰ اسپتال میں جہاں بھی گئے، انہوں نے بر ہمی کا ہی اظہار کیا۔ نیبولائزر، ساری مشینیں گندی اور خراب حالت میں پڑی تھیں۔ نگران وزیراعلیٰ نے بلڈ پریشر دیکھنے کے آلات چیک کئے وہ بھی خراب تھے۔ ایم آر آئی اور سی ٹی سکین مشین آگئی ہیں لیکن ان کے ٹیکنیشن نہیں آئے۔ خیرپور سول اسپتال کی ایکسرے مشین کا فلم یونٹ انتہائی گندا تھا۔550بستروں کے اسپتال میں زیادہ تر ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں تھے۔ نگران وزیراعلیٰ نے سول اسپتال کے کچن کا جائزہ کیا۔ کچن کی خراب حالت دیکھ کر بھی انہوں نے برہمی کا اظہار کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ روزانہ 300افراد کا کھانا بنایا جاتا ہے۔ کھانے کا معیار انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ مریضوں کو باہر سے کھانا خریدنا پڑتا ہے۔
جسٹس ( ر) مقبول باقر کا اچانک اسپتال کا دورہ کرنے کے بعد کہنا تھا کہ اتنے بڑے اسپتال کو آپ عوام کی سہولت کے بجائے تباہ کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ تو اسی ضلع سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے کبھی بھی اسپتالوں اور سرکاری تعلیمی اداروں کو اچانک دورہ کیا اور نہ ہی معائنہ کیا۔ ان کی صاحبزادی نفیسہ شاہ ضلع کی ناظمہ بھی رہ چکی ہیں، خود تعلیم یافتہ ہیں لیکن انہوں نے بھی تعلیم اور علاج معالجہ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ گزشتہ قومی اسمبلی میں وہ رکن بھی تھیں لیکن نفیسہ اپنے ضلع کے عوام کے لئے نفیس ثابت نہیں ہو سکیں۔ سید مراد علی شاہ دورے خوب کرتے تھے لیکن انہیں بھی کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ چلتے چلتے اچانک کسی اسپتال، کسی اسکول میں داخل ہو جاتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اولادیں بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں یا کر چکی ہیں۔ ضلع خیر پور قیام پاکستان سے قبل ریاست تھی، جو مالی اعتبار سے انتہائی خوشحال تھی اور ریاست کے والی میر تالپور صاحب جہاں تک ممکن ہوتا تھا، ریاست کے عوام کی لئے سہولتوں کو خیال اور انتظام رکھتے تھے۔ عوام کو روز گار سمیت ممکنہ حد تک بہترین تعلیم اور علاج کی سہولتیں حاصل فراہم کی جاتی تھیں۔ ریاست کے حالات تو قیام پاکستان کے بعد خصوصا سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کے ادوار میں تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ نے اسپتال کے ساز و سامان کی انسپیکشن کرنے کا حکم دیا اور مکمل انسپیکشن اور آڈٹ کرا کر رپورٹ دینے کا حکم دیا۔ نگران وزیر اعلیٰ تو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد رخصت ہو جائیں گے پھر کیا ہوگا۔ جیسے حالات نگران وزیر اعلیٰ نے دیکھے ہیں، آنے والے ذمہ دار با اختیار افراد انہیں اسی طرح خراب رکھیں گے، کیوں کہ انہیں اپنے بھتوں سے غرض ہوگی۔ یہ با اختیار ذمہ دار لوگ خود تو کراچی کے بڑے مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج کرتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت ان کے علاج کا خرچہ برداشت کرتی ہے۔ عوام کی نمائندگی کے دعویدار افراد کو شرم چھو کر نہیں گزرتی ہے۔ اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت بہتر کرنے حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ وہ حکومتیں جن میں سیاسی رہنما با اختیار ہوتے ہیں۔ لیکن وہ با اختیار وزراء اپنا اختیار کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ مقصد سوائے پیسہ بنانے کے کچھ اور نہیں ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ کے تمام کے تمام سرکاری اسپتال اور تعلیمی ادارے جس صورتحال سے دوچار ہیں، اس کے پیش نظر تو حکومت کو چاہئے کہ ان اداروں کو نجی اداروں کے حوالے کر دیا جائے تاکہ حکومت کسی مداخلت کے خوف سے بالاتر ہو کر کڑی نگرانی کر سکے اور عوام کو کسی نہ کسی حد تک بہتر سہولتیں میسر ہوں۔ وگر نہ عوام بے زبان جانوروں کی طرح کچھ بولنے سے قاصر رہیں گے۔
اسپتال کی اس قدر خراب حالت کی ایک بہت بڑی وجہ خیرپور ضلع کے پیپلز پارٹی سے وابستہ سیاستدان قرار دئے جاتے ہیں۔ بعض سیاسی گھرانوں کو ماہانہ کی صورت میں بھتہ کی صورت میں رقم فراہم کی جاتی ہے۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ایک سابق رکن قومی اسمبلی کے سوتیلے والد ہیں، جس ناطے انہیں سیاہ و سفید کی مکمل چھٹی حاصل تھی، جو مرضی آئے کریں۔ مزید یہ کہ اسپتال کے سالانہ بجٹ میں سے سیاسی گھرانوں کو بھتی پہنچانے کی وجہ سے وہ کسی کو جوابدہ نہیں تھے۔ انہیں کون کیا کہہ سکتا تھا۔ پھر جن سیاسی گھرانوں کو ماہانہ کی بنیاد پر بھتہ فراہم کیا جاتا تھا وہ بھی بوجوہ آنکھیں بند رکھتے تھے۔ انہیں اپنے پیسوں کی فکر ہوتی تھی۔ انہیں اپنے ووٹروں کی قطعی فکر نہیں ہوتی۔ مریضوں کی بہت بڑی تعداد کو سکھر یا نواب شاہ ریفر کر دیا جاتا ہے۔ جو مریضوں اور ان کے لواحقین پر بلا وجہ کا اضافی بوجھ ہوتا ہے۔ بس مریضوں کو دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب اسلام آباد کے دو بڑے اور اہم اسپتالوں میں فوجی ڈاکٹر متعین کئے جا سکتے ہیں تو سندھ کے اضلاع میں کیوں نہیں، ایک مقررہ مدت کے لئے فوجی ڈاکٹر مقرر کئے جائیں تا کہ جو رقم سالانہ بجٹ کی صورت میں مختص کی جاتی ہے وہ درست جگہ پر درست طریقہ سے استعمال ہو سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جیسے ہی فوجی ڈاکٹر سربراہ کی تقرری عمل میں آئے گی لوٹ مار کرنے والے ڈاکٹروں کے اشارے پر دوسرے درجے کے سیاسی کارکن آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ یہ ایک ایسی مصیبت ہے جسے ذرائع ابلاغ اور بڑے سیاسی رہنما بحث کا موضوع ہی نہیں بناتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button