ColumnImtiaz Aasi

چیف الیکشن کمشنر نے صدر کا آئینی اختیار تسلیم کر لیا

امتیاز عاصی
چاہے سپریم کورٹ کے حکم پر سہی آخر چیف الیکشن کمشنر نے صدر مملکت کا انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار تسلیم کر لیا ہے ورنہ پہلے تو چیف الیکشن کمشنر صدر پاکستان سے ملاقات کرنے سے گریزاں تھے۔ انتخابات کی تاریخ میں تاخیر سے روز بروز سیاسی جماعتیں اور عوام غیر یقینی صورت حال کا شکار تھے ۔ عوام اس سے قبل پنجاب کے ضمنی الیکشن کے تجربے سے گزر چکے تھے سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی طرف سے انتخابات کی تاریخ دینے کے باوجود الیکشن نہ ہو سکا تھا۔ چلیں انتخابات کی تاریخ کا مرحلہ طے ہو گیا اب الیکشن آئندہ سال 8فروری ہو نا قرار پائے ہیں۔ چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا آئین سے انحراف کی پاداش میں صدر اور چیف الیکشن کمشنر پر آرٹیکل چھ لگ سکتا ہے۔ شائد جناب چیف جسٹس کے ان ریمارکس کے خوف نے چیف الیکشن کمشنر کو صدر کے پاس جانے پر مجبور کیا ورنہ تو چیف الیکشن کمشنر صاحب بہادر صدر کے اختیار کو ماننے سے انکاری تھے۔ ابھی ایک اور مرحلہ باقی ہے انتخابات عدلیہ یا انتظامیہ کی نگرانی میں ہوں گے۔ ہمارا ملک پہلے ایگزیکٹو کے تجربے سے دو مرتبہ گزر چکا ہے 1977اور1985کے انتخابات ایگزیکٹو کی نگرانی میں ہوئے تھے۔1977کے انتخابات کے انعقاد بارے ہماری عمر کے لوگ جانتے ہیں ان انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مذہبی جماعتوں نے بھرپور تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ گو ذوالفقار علی بھٹو نے پی این اے کا نئے انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر لیا تھا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی طاقتور حلقوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی جس کا دورانیہ گیارہ برس پر محیط تھا۔ 2013میں انتخابات جوڈیشری کی نگرانی میں ہوئے اقتدار مسلم لیگ نون کو ملا تو آصف علی زرداری نے ان انتخابات کو آر او کا الیکشن قرار دیا۔ الیکشن جوڈیشری یا انتظامیہ کی نگرانی میں ہو بات دراصل نیت اور دل میں حق تعالیٰ کا خوف ہو تو انسان کوئی غلط کام کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں نبی آخرالزمانؐ نے فرمایا ہے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ نئے انتخابات کی تاریخ پر تمام حلقوں کا یکسو ہونا اچھی بات ہے اللہ کرے انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والی حکومت پر سب جماعتوں کا اعتماد ہو تو بات آگے بڑھے گی ورنہ تو ماضی کی طرح الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگتے رہے تو ہمیں سیاسی اور معاشی استحکام کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے غیر ملکی مبصروں کو الیکشن میں آنے کی دعوت دے کر اچھی مثال قائم کی ہے۔ اس وقت دنیا کی نظریں ہمارے انتخابات پر ہیں۔ خطے میں پاکستان کی اہمیت سے کوئی ملک انکار نہیں کر سکتا ہمارا ملک ایٹمی اعتبار سے خطے کا اہم ملک ہے خاص طور پر مسلمانوں ملکوں کی ہم سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے اقتدار میں کوئی اچھی مثال نہیں چھوڑی ہے۔ کے پی کے میں الیکشن کی بات ہوئی تو وہاں کے آئی جی نے الیکشن کمیشن کو بتایا وہاں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پولیس فورس فراہم کرنے پر انہوں نے رضامندی ظاہر کی تو اگلے روز آئی جی صاحب کو وفاقی حکومت نے تبدیل کر دیا ہے۔ ایک بات ضرور ہے آئندہ انتخابات میں بڑے بڑے سیاسی برج کے الٹنے کی توقع ہے۔ اگرچہ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جیل میں ہیں اس کے باوجود عوام بلے پر مہر لگا کر الیکشن کی کایا پلٹ دیں گے۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پی ٹی آئی نے جس کو بھی پارٹی ٹکٹ دیا عوام اسے ووٹ دیں گے جو دو جماعتوں کی سیاسی موت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ گو عمران خان پابند سلاسل ہے اس کے باوجود اس نے پارٹی ٹکٹ وکلاء کو دینے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے اس سے امید کی جا سکتی ہے پی ٹی آئی توقع کے مطابق نشستیں حاصل کر لے گی۔ کوئی مانے نہ مانے ملک کے عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی کارکردگی سے سخت مایوس
ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے مسلم لیگ نون کے میاں شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ پر رہ کر جو رنگ گھولے عوام بخوبی واقف ہیں۔ شہباز شریف کا وزارت عظمیٰ پر آنے کا مقصد ماسوائے اپنے اور خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات کے خاتمے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کرتے وقت عوام کو مہنگائی کا جھانسہ دے کر اقتدار میں آنے کے بعد عوام کا جینا دو بھر کرنے والے انتخابات میں کس منہ سے لوگوں سے ووٹ مانگیں گے۔ نواز شریف نے اپنی ہونہار بیٹی مریم نواز کو فرنٹ پر رکھا ہے تاکہ وہ عوام کو ایک مرتبہ پھر جھوٹے وعدوں سے ووٹ کے لئے راغب کر سکے۔ پاکستان کے عوام اتنے بھی بھولے نہیں عمران خان نے اور تو چلیں کچھ نہیں کیا البتہ عوام کے دلوں پر ملک و قوم کو لوٹنے والوں کے نام نقش کر گیا۔ نواز شریف وطن واپس تو آچکے ہیں انہیں اپنے صوبے میں وہ ماحول دکھائی نہیں دے رہا ہے جسے وہ مسلم لیگ نون کو قلعہ تصور کرتے تھے۔ پنجاب کو اپنی جماعت کا گڑھ سمجھنے والوں کو ضمنی الیکشن میں اپنی جماعت کی مقبولیت کا علم ہو چکا ہے۔ ہمارا ملک اب انتخابات میں دھاندلی کا متحمل نہیں ہو سکتا دھاندلی کی کوشش ہوئی تو عوام کو سمندر ہر شے بہا کر لے جائے گا۔ خبروں کے مطابق پنجاب حکومت نے ایگزیکٹو افسران کی ایک طویل فہرست رٹیرننگ افسران کے لئے تیار کر لی ہے اگر عدلیہ نے ریٹرننگ افسران کے لئے نام نہ دیئے تو یہ فہرست الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیج دی جائے گی۔ الیکشن میں شفافیت اور غیر جانبداری اس وقت ممکن ہے جب رٹیرننگ افسران اور الیکشن کا دیگر عملہ راست باز اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو۔ انتخابات پر عوام کو بھی نظر رکھنا ہوگی تاکہ دھاندلی کے مرتکب لوگوں کو قانون نافذ کرنے والوں کے حوالے کیا جا سکے۔ ایک طرف نواز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری کا دعویٰ ہے حکومت پیپلز پارٹی کی بنے گی دیکھتے ہیں ہما کے سر پر بیٹھتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button