تازہ ترینخبریںکاروبار

غزہ ، اسرائیل جنگ : پروڈکٹ بائیکاٹ سے اسرائیل کو نقصان پہنچا ہے یا نہیں ؟

غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد دنیا بھر میں مختلف ممالک خصوصاً مسلم ممالک میں عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے

ایسے میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی نہ کرنے کے بعد پاکستان میں ایسی غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے جن کے مالکان یہودی ہیں اور یہ مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی اس بائیکاٹ مہم سے متعلق مختلف مواد شئیر کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ درجنوں مصنوعات جن سے متعلق صارفین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی کمپنیاں بناتی ہیں یا پھر ان کی پیرنٹ کمپنی کے مالکان یہودی ہیں۔

بہت سے لوگ اس بائیکاٹ مہم سے متعلق یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس مہم سے واقعی ہی اسرائیل کو نقصان ہو گا یا پھر اس سے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچے گا؟

اس سوال پر ماہر معیشت نے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک یہ خیال ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت پر بہت فرق پڑے گا تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ معاملہ غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات یا برانڈز کا ہے اور انھوں نے پہلے ہی اپنے منافع کی شرح بہت زیادہ رکھی ہوتی ہے۔‘

’ہاں اگر یہ مہم آنے والے دنوں میں زیادہ زور پکڑتی ہے تو یہ ممکن ہے کہ ان مخصوص کمپنیوں کی سیل اور شئیرز کی مالیت گر جائے۔‘

نور فاطمہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک پاکستان میں برانڈز یا مصنوعات کے بائیکاٹ سے اسرائیل کو نقصان پہنچنے کی بات ہے تو مفروضہ بھی درست نہیں۔

’کیونکہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ نہ ہی کوئی تجارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستان وہاں کسی قسم کی برآمدات کر رہا۔ بائیکاٹ مہم ایک سوشل اور جذباتی مہم ہے۔ اس سے لوگ اپنے احساسات کا اظہار کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ اس مہم میں کئی ایسی کمپنیوں کے نام بھی سامنے آرہے ہیں جن کا تعلق اسرائیل سے نہیں لیکن انھیں اس لیے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔

اس بائیکاٹ مہم کے زد میں آنے والے چند برانڈ ایسے ہیں جن کی سیل میں پچھلے چند ہفتوں میں فرق آیا ہے۔ عام طور پر ایسے برانڈز پر کافی زیادہ رش دیکھنے کو ملتا ہے جو اب نظر نہیں آرہا۔

ایسے ہی برانڈز کو خام مال پہنچانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک خبر رساں ادارے کو بتایا کہ اس مہم کے بعد سے ہماری سیل میں بھی کمی آئی ہے جبکہ متعدد کمپنوں کی جانب سے آڈرز بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔

پاکستان میں آپریٹ کرنے والی ایک اور بین الاقوامی کمپنی میں کام کرنے والے ملازم نے بتایا کہ ہماری سیل میں ستر فیصد تک کمی آئی ہے جبکہ ہمیں باقائدہ طور پر کمپنی کی جانب سے ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ لوگوں میں پائے جانے والے غصے کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نوکری کے دوران خاص خیال رکھیں۔

ایک اور ملٹی نیشل کمپنی کے مالک نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس بائیکاٹ کا اثر ہر کمپنی پر مختلف انداز میں پڑ رہا ہے تاہم ابھی تک ہماری کمپنی کا کوئی تقصان رپورٹ نہیں ہوا۔

’ہم نے پہلے دن ہی یہ پریس ریلیز جاری کر دی تھی کہ ہماری کمپنی کا اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی جاری کی کہ ہماری کمپنی کی پیرنٹ کمپنی امریکی کمپنی ہے۔ ہم نے فلسطين سے اظہار یکجہتی کے طور پر اپنی مارکیٹنگ سٹریٹجی بھی تبدیل کی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم لوگ پاکستان میں پچھلے ساٹھ سال سے کام کر رہے ہیں اور اس سارے عرصے میں ہمیں کئی مواقع پر بائیکاٹ مہم کا سامنا کرنا پڑا۔

’یہ سچ ہے کہ اس سے فرق پڑتا ہے لیکن وہ نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم اپنے ملازمین کو نوکری سے نکالتے ہیں۔‘

جواب دیں

Back to top button