Columnمحمد مبشر انوار

سیاسی بساط

محمد مبشر انوار( ریاض)
پاکستانی سیاسی افق پر چھائی بے یقینی کی کیفیت کسی حد تک تو، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے انتخابات کی متوقع تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد، چھٹ گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کی سیاسی گہما گہمی میں تیزی متوقع ہے۔ سیاسی حالات کے پس منظر میں کل کی حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان معاملات بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، جس کی وجہ انتہائی واضح ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے لئے سیاسی میدان میں دی گئی سہولت، دیگر جماعتوں کے لئے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ایسی اتھل پتھل اور تبدیلی ایک ایسا مستقل عنصر ہے کہ جس کی شاہد پاکستانی قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہی ہے لیکن افسوس اس امر کاہے کہ سیاسی اتھل پتھل کا یہ کھیل مسلسل جاری ہے، جس کا فائدہ بہرطور ریاست پاکستان کو نہ ماضی میں ہوا ہے اور نہ اس کے امکانات مستقبل قریب میں نظر آتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں میاں نواز شریف کے متعارف ہونے کے بعد، قوم یہ کھیل زیادہ تسلسل کے ساتھ دیکھ رہی ہے، جس میں صرف نوازشریف قصوروار نہیں ٹھہرائے جا سکتے البتہ ان کا کردار اس کھیل میں ،طاقتوروں کے ساتھ مل کر، انتہائی اہم اور فیصلہ کن رہا ہے۔ سیاسی کھیل میں صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ بعد میں آنے والے تمام سیاسی رہنمائوں کو یہ کردار بہ امر مجبوری کہیں یا بے اصولی کی بنیاد پر کھیلے جانے والے اس کھیل کو اصول و قواعد و ضوابط کے بغیر کھیلنے پر ہی مجبور کیا ہے۔ موجودہ صورتحال بھی اسی بے قاعدگی، بے ضابطگی و بے اصولی کی عکاس ہے کہ عدالت سے مجرم قرار دئیے جانے والے ایک شخص کو بھرپور پروٹوکول کے ساتھ، قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، پاکستان لایا گیا ہے، اس سے نہ صرف عوام بلکہ گزشتہ سولہ ماہ رہنے والی پی ڈی ایم حکومت کے حلیف بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ ڈیل کی باتیں تواتر کے ساتھ گردش میں ہیں اور اس ڈیل کے اثرات نظر بھی آ رہے ہیں کہ کس طرح نوازشریف کو سیاسی کھیل کھیلنے کے لئے مکمل آزادی میسر ہے جبکہ دیگر جماعتیں بالعموم اور ایک سیاسی جماعت بالخصوص، اس آزادی سے بہرطور محروم دکھائی دیتی ہیں۔ انتخابی گہما گہمی میں پروردہ سیاسی جماعت کے اکلوتے اور استقبالیہ جلسہ میں ہونے والے واقعات عوامی مقبولیت کی قلعی کھول چکے ہیں لیکن اس کے باوجود نوشتہ دیوار وہ پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جسے منصوبہ سازوں نے پینٹ کر رکھا ہے، ایسے انتخابات کی حیثیت کس طرح معتبر ہو گی، اس کے متعلق نجانے منصوبہ سازوں نے کیا منصوبہ ترتیب دے رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں عموما اس طرح کے انتخابات نے انتشار، عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کو ہی پنپا ہے، اس طرح کے انتخابات میں شاذ و نادر ہی ملک کو سیاسی و معاشی استحکام نصیب ہوا ہے۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد، ووٹ کو عزت دو، کا نعرہ لگانے والے سیاسی قائدین نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا ہے اور انہیں اب زبانی جمع خرچ کے طور پر بھی ووٹ کی عزت کا رتی برابر خیال دکھائی نہیں دیتا گو کہ جیل کی سلاخوں سے براہ راست لندن کی یخ بستہ ہوائوں میں جا بسنے اور پھر واپس آنے تک ،کسی بھی لمحہ ووٹ کی عزت کا خیال نظر نہیں آیا۔
سابقہ حلیف اس سارے کھیل پر انتہائی جزبز نظر آتے ہیں اور سولہ ماہ تک اقتدار میں شریک رہنے کے بعد آج وہ حلیف ، حصہ نہ ملنے پر یا ووٹ کے حصول کی خاطر، کڑی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بعینہ ملازمین کے تنخواہوں میں اضافہ کے احتجاج کے دوران لگائے جانے والے نعرے کی مانند کہ ہماری تنخواہیں بڑھائو ورنہ۔۔۔ ورنہ کے بعد ہم اسی تنخواہ پر کام کریں گے، کے لئے ذہنی طور پر تیار نظر آتے ہیں۔ سیاسی اکھاڑے میں اترنے سے قبل پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری، نے اپنی توپوں کے دھانے نوازشریف اور مسلم لیگ ن پر کھول رکھے ہیں تو دوسری طرف بلاول کا یہ بیان انتہائی معنی خیز ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم کا حصہ ہونا چاہئے۔ اس کا مقصد بظاہر تو انتہائی جمہوری لگتا ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش میں دکھائی دیتی ہے کہ وہ بہرصورت ایسے کسی منصوبہ کا حصہ نہیں کہ جس میں ملک کی مقبول ترین جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو۔ بصورت دیگر یہ گما ن بھی جائز ہے کہ پیپلز پارٹی ایسے سخت حالات کا سامنا ماضی میں کر چکی ہے اور نہ صرف ایسے حالات کا سامنا کر چکی ہے بلکہ اس کے نتائج کا بھی اسے بخوبی علم ہے لہذا وہ کسی ایسی انتخابی مہم کا حصہ بننے سے گریزاں ہے کہ جس میں ملک کی مقبول ترین جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے جبری روکنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ تیسری حقیقت سب سی زیادہ قرین قیاس ہے کہ زرداری کی جانب سے بھی ڈیل کی باتوں کے بعد،پیپلز پارٹی کو یہ معلوم ہے کہ پنجاب میں اس وقت حقیتا مقبولیت پی ٹی آئی کے پاس ہے اور اگر پی ٹی آئی کو انتخابی مہم سے الگ رکھا جاتا ہے، تو ن لیگ کو انتخابی میدان مارنے کے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ گو کہ اعدادوشمار و مقبولیت میں ن لیگ کوسوں دور ہے اور کامیابی کو جواز دینے انتہائی کٹھن امر ہوگا لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی پنجاب میں ن لیگ کے لئے میدان یکطرفہ چھوڑنے کے حق میں نہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے تئیں بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح پنجاب میں اس کا احیاء ممکن ہو سکے، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ چوتھی حقیقت جس سے نظریں چرانا تقریبا نا ممکن ہے کہ ابھی تک پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت سازی کرنے میں کامیاب ہے اور چیئرمین بھٹو و بے نظیر کی کرشماتی شخصیت کے باعث کامیابی حاصل کرتی رہی ہے لیکن اب کارکردگی کے حوالے سے، پیپلز پارٹی اپنی مقبولیت کھو رہی ہے اور سندھ میں اپنا اقتدار قائم رکھنا مشکل نظر آرہا ہے لہذا ایسا موقف اپنا کر پی ٹی آئی کی قیادت میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی سعی بھی ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں! جس طرح زرداری آج کل جلسوں میں رجیم چینج آپریشن کی کہانی سنا رہے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مقتدرہ کو ماضی میں دی جانے والی خدمات یاد کرا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ باور کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ رجیم چینج میں ان کی خدمات اور ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو یاد رکھا جائے۔ شنید ہے کہ وعدوں میں سب سے اہم ترین وعدہ بلاول کو وزیراعظم کی مسند پر بٹھانے کا بھی ہوا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لگتا ہے وہ وعدہ ویسے ہی ہوا ہو چکا ہے جیسا کبھی زرداری نے وعدوں کو آسمانی صحیفوں تسلیم نہ کرتے ہوئے، ایفا نہیں کئے تھے۔
دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام کے قائد فضل الرحمان سے پی ٹی آئی کے تعزیتی وفد کی ملاقات کو ،سیاسی پنڈت مختلف معنی پہنا رہے ہیں، کوئی اسے فضل الرحمان کی سیاسی فتح قرار دے کر اس کا قد کاٹھ بڑھا رہا ہے تو کوئی اسے پی ٹی آئی کو تھوکا چاٹنے سے تعبیر کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے لغو بیانات سے کسی بھی طور سیاسی ماحول کی خدمت نہیں ہو رہی۔ پاکستانی سیاست پہلے ہی انتہائوں کو پہنچی ہوئی ہے اور یہاں سیاست کی تعریف ہی یہ بن چکی ہے کہ مخالف کو دیوار سے لگا کر اس کو ہر صورت ختم کر دو تا کہ میدان میں فقط اکیلی سیاسی جماعت رہے اور جیسے چاہے حکمرانی کرے، جو صورتحال ا س وقت بنگلہ دیش کی ہے کہ صرف حسینہ واجد ہی حکمران رہیں گی۔ بدقسمتی سے اس روئیے کی ابتداء اگر بغور دیکھیں تو پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی ہو گئی تھی کہ جب اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک دوسرے کو ہٹانے کے لئے کیسے ٹانگیں کھینچی گئی تھی اور بعد ازاں ایوب دور حکومت، بھٹو دور حکومت اور سب سے زیادہ نواز شریف دور حکومت میں اس سیاسی عدم برداشت کو انتہا تک پہنچایا گیا تھا۔ ن لیگ کے متوالے تو آج بھی یہی تصور کرتے ہیں کہ بس ن لیگ ہی وہ واحد جماعت ہے جو محب الوطن ہے اور صرف صرف اسے ہی حکمرانی کا حق فائق حاصل ہے جبکہ سیاسی اختلاف رکھنے والے نہ تو محب الوطن ہیں اور نہ پاکستانی، لیکن حقائق اس سے کلیتا مختلف ہیں کہ سیاسی مخالفین بھی محب الوطن اور پاکستانی ہیں۔ سیاسی میدان میں ہونے والے کھیل کو اس کے قواعد و ضوابط کے مطابق کھیلنے میں ہی سب سیاسی جماعتوں کی بہتری ہی، لمحہ موجود میں طاقتوروں میں قبولیت اور اس کے پس پردہ محرکات سے قوم بخوبی واقف ہے لیکن ایسی سیاسی بساط میں سیاستدانوں کی حیثیت ایک پیادے سے زیادہ نہ رہی ہے، نہ ہے اور نہ کبھی ہو سکے گی۔

جواب دیں

Back to top button