ColumnNasir Naqvi

خبر یہ ہے کہ کوئی خبر نہیں

ناصر نقوی
برسوں پہلے آمر مطلق مرد حق ضیاء الحق نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے یہ کہہ کر جان چھڑا لی تھی کہ ’’ نو نیوز از گڈ نیوز‘‘ ۔۔۔۔۔ موجودہ صورت حال میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ خبر غائب ہے وہی کچھ ہو رہا ہے جو گزشتہ 76سال میں پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہوا۔ پھر بھی چینلز اور اخبارات کبھی مصالحہ کم اور کبھی تیز کر کے اپنا کام چلا رہے ہیں اور معصوم عوام اپنے مستقبل سے بے خبر اچھے دنوں کی تمنا میں تالیاں بجا کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں ’’ واہ۔۔۔۔ گڈ نیوز‘‘ ۔۔ حقیقت حال سے کوئی واقف نہیں، چونکہ حب الوطنی سے سرشار ہیں۔ اپنی دھرتی اور مٹی سے پیار ہے اس لیے معمولی اشاروں پر بھی خوش ہو جاتے ہیں حالانکہ خبر جو سامنے ہے اور جو پوشیدہ ہے اسے ان کے فرشتے بھی نہیں جانتے بلکہ انہیں بالکل اندازہ نہیں کہ ہو کیا رہا ہے اور ہونے کیا جا رہا ہے؟ ملک معاشی، آئینی اور سیاسی بحران میں گردن تک پھنسا ہوا ہے۔ روزانہ نت نئے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن ضرب جمع تقسیم ۔۔۔۔ حاصل ضرب کچھ بھی نہیں۔ سب حالات کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کر کے خود بری الذمہ ہیں جبکہ قومی معاملات میں کسی کو رعایت نہیں دی جا سکتی کیونکہ کیا دھرا ان سب کا ہی ہے۔ عوام تو مستقبل کے سنہرے خواب دیکھ کر ’’ بلیک میل‘‘ ہوتے ہیں اور سیاستدان کبھی ادھر کبھی ادھر چھلانگیں لگا کر اپنے مفادات نہ صرف حاصل کر لیتے ہیں بلکہ مستقبل کی راہیں بھی نکال لیتے ہیں۔ قومی سیاست کسی سرکس سے کم نہیں اور ریاست ’’طلسم کدہ‘‘ بنی ہوئی ہے۔ ہر دور کے جن، جنات، موکل اور پیرومرشد مختلف ہوتے ہیں لہٰذا وہ اپنے جادو سے عوام کو کرشمات دکھاتے رہتے ہیں۔ دو پارٹی نظام حکومت کا صفایا کرنے کی خواہش نے ایک نئے تجربے سے قوم کو دوچار کر دیا۔ اس مشن میں کئی سال ضائع کئے گئے تب ذہن سازی سے کچھ نیا ممکن ہوا لیکن اگر سرکس کا کوئی جانور بھی ’’رنگ ماسٹر‘‘ پر حملہ کر دے تو اس کا علاج گولی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ ماضی کی رویوں کو فراموش کر کے ہی بغاوت کر دیتا ہے لیکن بغاوت اور باغی کبھی بھی کسی حال میں بھی قابل قبول نہیں ہوتا۔ لہٰذا سیاسی اور اقتدار کی بساط پلٹ چکی ہے۔ حکمران جانوروں کی طرح پنجرے میں ہیں اور قید سے بیماری کے حوالے سے دھرتی سے دور جانے والے چور، ڈاکو اور لٹیرے ایک مرتبہ پھر پورے جاہ و جلال سے واپس آ چکے ہیں۔ مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں، سہولت بھی مل رہی ہے اور حفاظتی ضمانت پر بھی قوم سے مخاطب بھی ہو رہے ہیں۔ اب وہی نجات دہندہ ہیں۔ تبدیلی سرکار بھرپور سرپرستی اور لاڈ پیار میں ایسے بگڑے کہ وہ اپنے آپ کو تبدیل نہیں کر سکے۔ یوں اپنے وزن سے ہی گر گئے۔ کچھ کا خیال اب بھی یہی ہے کہ ’’خان اعظم‘‘ کو ان کے اپنے نادان دوستوں نے مروا دیا ۔ میں اس خیال سے متفق ہوں لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ ایمپائرز سے مل کر کھیلنے والے ہر حال میں فرینڈلی رہتے ہیں۔ ورنہ دوسروں کے لیے اٹھنے والی انگلی ان کے خلاف بھی اٹھ جاتی ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ’’ایمپائر‘‘ کا فیصلہ بھی حتمی ہوتا ہے اور اسے چیلنج کرنا قواعد و ضوابط کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ 2018ء کے انتخابات میں عمران پراجیکٹ کو عروج ملا۔ منصوبہ بندی میں برسوں صرف کیے گئے لیکن ناتجربہ کاری نے آسمان اقتدار سے دھڑام سے زمین پر گرا دیا۔ اب لاڈلہ اپنی کارکردگی اور ردعمل میں اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں تباہ کر چکا لیکن ابھی بھی سیاسی اصول آئوٹ آف ڈیٹ ہرگز نہیں ہوا یعنی سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی۔ جمہوریت اور جمہوری اقدار کا یہ حسن بھی موجود ہے۔ کہ ہر الیکشن اور اقتدار سے پہلے اتحاد بنتے اور بگڑتے ہیں۔ سو یہی صورت حال اب بھی سب کے سامنے ہے۔ کچھ نواز شریف کی واپسی اور ریلیف پر ناراض اور پریشان ہیں لیکن کچھ ضرورت سے زیادہ خوش ہیں ۔ نواز شریف تین مرتبہ اقتدار سے زبردستی نکالے جانے کے باوجود اس وقت ’’ ہاٹ کیک‘‘ ہیں۔ ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے انتہائی شان و شوکت سے خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے جلا وطنی اور قید و بند کا کریڈٹ لینے میں مصروف ہیں ایسے میں ہر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ خبر یہ ہے پھر اگلے ہی لمحے پتہ چلتا ہے کہ کوئی خبر نہیں، یہ صرف ریٹنگ حاصل کرنے کا گورکھ دھندہ ہے۔
خبر یہ ہے کہ ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم نواز شریف ایک نیا ریکارڈ بنانے کی تیاری میں ہیں یعنی چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے لیے لنگوٹ کس لیا ہے۔ وطن آنے سے پہلے کا جارحانہ ’’ بیانیہ‘‘ بھی تبدیل کر کے مفاہمتی اور مصلحت پسندی کی چادر اوڑھ لی ہے یہی ووہ تعویز ہے جس کی بناء پر تمام تر سہولتیں مقدر بنیں گی لیکن انہیں بھی یہ خبر نہیں کہ مستقبل کیا ہوگا؟ جبکہ خبر یہی بتائی جا رہی ہے کہ دوست ممالک سعودی عرب، قطر، یو۔ اے۔ ای سب کی گارنٹی ہے کہ اگر نواز شریف کو اقتدار ملا تو ہر قسم کی مدد کی جائے گی، توقعات وابستہ ہیں کہ اگر اس ’’ لندن پلان‘‘ پر مکمل عمل درآمد ہو سکا تو پاکستان کا معاشی بحران ختم کرنے کے راستے میسر آ جائیں گے لیکن دوسری جانب یہ خبر بھی ہے کہ دیرینہ آزمودہ دوست عوامی جمہوریہ چین کا مطالبہ ہے کہ ’’ عمران خان‘‘ کی واپسی کے سامنے بھی بند باندھا جائے ، اب یہ گارنٹی متنازعہ ہے۔ اول تو یہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے خلاف ہے کہ کسی کو زبردستی الیکشن سے باہر کر دیا جائے۔ دوسری جانب پاکستان کا آئین اور قانون بھی اس زبردستی کی اجازت نہیں دیتا تاہم 9مئی کے حادثے نے یہ کام آسان کر دیا ہے حکومت اور ’’ ایمپائرز ‘‘ اس حالت میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں کہ قومی سلامتی سے نہ صرف کھیلا گیا بلکہ منصوبہ بندی کے مطابق سب سے مضبوط ادارے فوج کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ شہدائے وطن کی یادگاروں کی بے حرمتی کر کے دشمنوں کے عزائم پورے کئے گئے۔ اس بات پر دو رائے ہرگز نہیں کہ کور کمانڈر ہائوس، جی ایچ کیو اور دیگر حساس اداروں کے حملہ آوروں کو کسی طرح بھی معاف نہ کیا جائے ورنہ رعایت اور مصلحت پسندی کی پالیسی میں مستقبل میں ناقابل تلافی نقصان کے امکانات موجود ہیں اس لیے شواہد اکٹھے کر لیے گئے ہیں اور ذمہ داروں کے بیانات بھی ریکارڈ کرائے جا چکے ہیں۔ ’’ سائفر کیس‘‘، القادر ٹرسٹ، عدت میں نکاح بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کیسز بھی ابھی سر اٹھانے کو تیار ہیں اس لیے خان اعظم کی مشکلات فی الحال کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں لیکن اگر کوئی معجزاتی کارروائی ہو جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا، کیونکہ تحریک انصاف کا نہ خوف کم ہو ا ہے اور نہ توڑپھوڑ۔۔۔۔ پریس کانفرنسز اب انٹرویوز میں تبدیل ہو چکی ہیں لیکن سلسلہ جاری ہے۔ کنگز پارٹی آئی پی پی کو نہ عوامی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ابھی تک وہ کوئی ’’ پاور شو‘‘ کر سکی ہے۔ پھر بھی ’’ میلہ ٹھیلہ‘‘ جاری ہے۔ سب پْرامید ہیں کہ آئندہ اقتدار میں انہیں حصّہ ضرور ملے گا کیوں ملے گا؟ کیسے ملے گا؟ ا س بات کی بھی کسی کو خبر نہیں؟ اس لیے کہ گارنٹی دینے والوں نے گارنٹی انہیں دی ہے جو کبھی عمران خان کے گارنٹر تھے۔
نواز شریف عدالتوں اور مقدموں سے جان چھڑانے کے بعد مفاہمتی پالیسی کے مشن پر نکلیں گے۔ تمام سیاسی رہنمائوں سے مشاورت کر کے ’’ الیکشن‘‘ کی راہ ہموار کریں گے ان کے بڑے اتحادی اور سابق حکومت کے اہم کردار آصف علی زرداری اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن سے ’’ لیول پلینگ فیلڈ‘‘ مانگ رہی ہے۔ ان کی پس پردہ دھمکی موجود ہے کہ اگر معاملہ یک طرفہ رہا تو بات نہیں بنی گی۔ مسلم لیگ ن اور نواز شریف ’’سلو فلائٹ‘‘ کے خواہش مند ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ ملک و ملت کے لیے ہم نے ہر قربانی دی اور آئندہ بھی دیں گے لیکن یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ لاڈلے کے بعد کوئی انوکھا لاڈلہ ہے ، الیکشن اور جمہوریت کے بغیر مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ تاہم موجودہ حالات میں الیکشن دکھائی نہیں دے رہے۔ ماضی میں اگر عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک نہیں جسٹس منیر سے جسٹس عمر بندیال تک سوال ہی سوال موجود ہیں۔ عمرانی دور میں ہم خیال ججز نے تاریخی کارنامے انجام دئیے ہیں۔ اور ان کے اثرات برسوں پر محیط ہوں گے۔ تاہم ملٹری کورٹس کی ’’نظرثانی اپیل ‘‘، ’’سائفر کیس‘‘ نائن مئی کے حوالے سے فیصلے، القادر ٹرسٹ کا پھواڑا اور حقیقی توشہ خانہ کیس، یہ ایسی خبر ہے کہ کوئی خبر نہیں، یہ تمام معاملات اور ان کے فیصلے وطن عزیز کے مستقبل پر کیا رنگ دکھائیں گے تاہم کوئی نہ کوئی ایسی گارنٹی ضرور ہے کہ نواز شریف دور حاضر کے ’’دولہا میاں‘‘ بنے ہیں۔ انہیں چار سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد بھی معصوم و مظلوم سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ماضی کے معاملات اور فیصلے متنازع تھے۔ وہ خوش قسمت ترین وزیراعظم ہیں جو تین مرتبہ نااہلی کے باوجود موجود سیاسی ، معاشی بحران کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ تجربہ کار اور اہل سمجھے جا رہے ہیں لیکن ایسے میں بھی خبر یہ ہے کہ انہیں بھی کوئی خبر نہیں ، اگر اقتدار ملا تو پانچ سال گزار بھی سکیں گے کہ نہیں، میرے مطابق حالات کی سنگینی بتا رہی ہے کہ آئندہ حکومت خواہ الیکشن جب بھی ہوں ایک جماعت کی ہرگز نہیں ہو گی۔ ’’اتحادی‘‘ حکومت ہی ہو گی اور وزیراعظم نواز شریف ہوں یا کوئی اور پورے پانچ سال نہیں گزار سکیں گے۔ لہٰذا آپ اس بات کو ذہین نشین کر لیں کہ سارا سسٹم ایمپائرز کی نگرانی میں وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں اس لیے کہ سیاستدان مہنگائی اور معاشی معاملات کی بہتری کے لیے وعدے کے مطابق کچھ نہیں کر سکے۔ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی، نگران حکومت کے دور میں سپہ سالار کی جادو کی چھڑی کی کرامات ہیں۔ اس ڈانڈے نے غیر ملکیوں کے انخلاء اور جرائم پیشہ مافیاز کو نتھ ڈالی ہے ۔ آئندہ اجتماعی معاملات کی خاطر کیا کچھ ہونے والا ہے، اس کی بھی کسی کوئی خبر نہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button