ColumnImtiaz Aasi

وراثت اور قرآنی احکامات

امتیاز عاصی
آج کے دور میں جائیداد کی وراثت ایسے مقدمات کی بھرمار ہے خصوصا خواتین کو ان کے حق وراثت سے محروم کئے جانے کا رواج عروج پر ہے۔ اسلام سے قبل ورثہ صرف مردوں میں تقسیم ہوتا تھا جبکہ اسلام نے ہر وارث کا حصہ مقرر کر دیا۔ صحابیؓ رسول غزوہ احد میں شہید ہو گئے تو ان کی بیوہ پیغمبر اسلامؐ کے پاس شکایت لے کر گئیں، اس کی دو بیٹیاں ہیں، ان کے چچا انہیں کچھ نہیں دے رہے ہیں، جس پر آیات نازل ہوئیں۔ چنانچہ نبی کریمؐ کے حکم پر ورثہ کا دو تہائی حضرت سعد بن الربیعؒ کی دو بیٹیوں اور آٹھواں حصہ بیوہ کا قرار پایا۔ ظہور اسلام سے پہلے عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وارثت سے حصہ نہیں ملتا تھا، صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے مال کے وارث قرار پاتے تھے۔ حق تعالیٰ نے انسانی زندگی کے جہاں دیگر مسائل کا حل اپنی آخری کتاب میں بیان فرما دیا، وارثت سے متعلق بھی احکامات فرما دیئے۔ قرآن پاک کی سورہ النساء کی آیت نمبر سات میں بیان ہے: ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی، یعنی جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ جائیں خواہ کم ہو یا زیادہ اس میں حصہ مقرر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتیں اور بچے اور بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال کی حصہ دار ہوں گی اور انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے۔ اسلام کا یہ قانون میراث عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ عورت کو اسلام نے نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ عورت کے پاس جو مال مہر کی صورت میں آتا ہے جو مرد ادا کرتا ہے، گویا اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اگر عورت کا حصہ نصف کی بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم تھا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ عادل اور حکیم ہے۔ سورہ النساء ہی کی آیت نمبر گیارہ میں فرمایا ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر مرنے والے کی اولاد ہو اور مرنے والے کی اولاد نہ ہوں تو ماں باپ وارث ہوتے ہیں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے البتہ اگر مرنے والے کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ فطری طور پر انسان مال و دولت کا پجاری ہے بلکہ لوگوں نے مال و دولت کو زندگی کا اوڑھونا بچھونا سمجھ رکھا ہے۔ جب حق تعالیٰ کی کتاب نے مال و دولت کو فتنہ قرار دیا ہے۔ مال و دولت کی خاطر لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوتے ہیں۔ دراصل خواہشات انسانی کی کوئی حد نہیں ہے امیر سے امیر تر بننے کی خواہش خونی رشتوں کو بھلاتے ہوئے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ حال ہی میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے ماموں سے بھانجی کو وارثت کا حق دلوانے کو جو فیصلہ کیا ہے 34سالوں سے یہ مقدمہ عدالتوں میں چلتا رہا نہیں معلوم ماموں اور بھانجی میں سے کون زندہ ہے اور کون آخرت کو سدھار گیا ہے۔ جناب چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے خواتین کو غیر آئینی اور غیر شرعی طریقوں سے ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ مقدمے کا تعلق کسی عام خاندان سے نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق جنوبی پنجاب کے مشہور لغاری خاندان سے ہے۔ ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان کے سابق چیئرمین سردار منصور احمد خان لغاری اور ان کی بھانجی کے مابین پانچ مربع اراضی کا تنازعہ گزشتہ چونتیس سالوں سے چل رہا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے بھانجی کو ماموں سے اس کا حق دلوایا ہے۔ سپریم کورٹ نے ماموں کی اپیل مسترد کرتے ہوئے اس عرصہ کے دوران ہونے والی قانونی چارہ جوئی کے سارے اخراجات بھی بھانجی کو ادا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے محکمہ مال کو متاثرہ خاتون کو پانچ مربع اراضی کا قبضہ دلوانے کا بھی حکم جاری کیا ہے۔ متاثرہ خاتون کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اراضی کی مبینہ فروخت کے وقت اس کی موکلہ نابالغ تھی لیکن ماموں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے ہوئے اپنے ایک ملازم کے ذریعے یہ اراضی اپنے کم سن بچوں، اہلیہ، ساس اور سالے کے نام منتقل کر ا لی تھی۔ فاضل چیف جسٹس نے اس عرصے کے دوران اراضی سے ہونے والی آمدن سے اسی وقت سے حساب سے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ درحقیقت معاشرے میں جس طرح دوسرے قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا اسی طرح وارثت کے قوانین عملا غیر موثر ہیں جبکہ اسلام نے تقسیم وارثت کا مکمل نظام وضع کیا ہے۔ قرآن و حدیث میں بڑی وضاحت سے اس سلسلے میں احکامات بیان گئے گئے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا مردوں کے لئے اس ( مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہے اور عورتوں کے لئے بھی ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ اسی طرح فرمایا اگر تقسیم ( وارثت) کے موقع پر ( غیر وارثت) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس سے انہیں کچھ دے دو۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے تک پہنچنے میں متاثرہ خاتون کو اپنے حق کے لئے تین عشروں سے زیادہ در بدر ہونا پڑا جو اس امر کا غماز ہے نظام عدل میں اصلاحات کی اشد ضرور ت ہے۔ عوام کو جمہوری حکومتوں سے توقعات وابستہ ہوتی ہیں وہ اقتدار میں آکر ان کے گوناگوں مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مسائل کی بجائے ذاتی مسائل حل کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہیں جس کا مظاہرہ پی ڈی ایم کے دور میں عوام نے دیکھ لیا۔ سیاست دانوں نے اپنے خلاف مبینہ کرپشن مقدمات کو ختم کرنے کے لئے ہنگامی طور پر قانون سازی کی جو ملک و قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button