جو خوف سرسری تھا

صفدر علی حیدری
خوف کیا ہے ؟ یہ آتا کہاں سے ہے ؟ یہ ہوتا کیوں ہے ؟ اس کا ہم سے رشتہ کیا ہے ؟کیا ہم خوف کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے؟ کیا خوف ہمارے وجود کا لازمی حصہ ہے ؟ ہمیں یہ خوف کیوں ہوتا ہے کہ ہمیں ڈریں گے نہیں تو مریں گے ؟ کبھی کبھی اس پر غور کرتا ہوں تو بہت گہری سوچ میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں۔ یوں جیسے کوئی غیر محسوس طریقے سے کسی گہرے دلدل میں لمحہ لمحہ اترتا چلا جائے۔ ایسے میں کسی شاعر کا یہ شعر مجھے ہوش کی وادی میں لا پھینکتا ہے:
جو بات معتبر تھی وہ سر سے گزر گئی
جو خوف سرری تھا وہ دل میں اتر گیا
خوف کے حوالے سے میرے سوالات اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنا اس کالم میں درج ہوئے ہیں۔ سب کا ذکر کرنے لگوں تو مجھے’’ خوف ‘‘ ہے کہیں کالم کی ساری جگہ سوالات ہی نہ گھیر لیں۔ خوف میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میں شاید اپنی ابتدائی عمر میں اس کا بری طرح اسیر رہا ہوں۔ تب میں تنہائی پسند ہوا کرتا تھا۔ تنہائی میری محبوبہ تھی اور خوف کو میں محبوب تھا۔ میں خود کو احساس کمتری کا شکار پاتا تھا جو خوف کا لازمہ ہے۔ میں دعویٰ سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ احساس کمتری کا شکار ہوں یا احساس برتری کا، وہ لوگ ہر حال میں کسی نہ کسی خوف کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور میری اپنی زندگی اس کی مضبوط گواہ اور دلیل ہے ۔ آپ کو ایک عجیب بات بتائوں جو شاید بہت سے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دے ۔ اپنے طالب علمی دور میں ( میٹرک سے پہلے ) جب کبھی میں سکول نہیں جاتا تھا تو اس خوف سے کہ سکول میں مار پڑے گی، ساری رات جاگتا رہتا تھا کہ اگر آنکھ لگ گئی تو سورج جلد طلوع ہو گا اور پھر پٹائی کا وقت بھی جلد آئے گا۔ سو رات کو جاگتا رہتا تھا اور اپنی پوری کوشش کرتا کہ میری آنکھ نہ لگے ۔ لیکن فطری تقاضی سے مغلوب ہو کر بلآخر ہار کر سو جاتا۔ یہ وہ وقت تھا جب ’’ مار نہیں پیار ‘‘ کا سنہری اصول ابھی متعارف نہیں ہوا تھا۔ ممکن ہے اس کی موجودگی میں یہ خوف کم ہوتا اور طالب علم سکون کی نیند سو پاتے ۔ اس دور میں سکول سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد سکول سے بھاگ جانے والوں سے کم ہوتی تھی۔ آج بھی سکول سے بھاگ جانے والوں کے منہ سے یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے ۔ ’’ ایک دن استاد نے مجھے بہت مارا، اب بستہ سکول میں ہے اور میں آج وہاں قدم رکھوں گا ‘‘۔ ذرا تصور کیجیے کہ جب آپ کا والد یا بڑا بھائی آپ کے سامنے آپ کے استاد سے یہ کہے ’’ ہڈیاں ہماری چمڑی آپ کی‘‘ ۔۔ ایمان داری سے بتائیے گا آپ خوف کا شکار ہوں گے یا نہیں۔ تب بچوں کو شرارتوں سے روکنے کا ایک ہی حربہ ہوا کرتا تھا یعنی خوف، تمہارے ابو کو بتائوں گی، ایک بار ہاتھ آ جائو پھر بتاتی ہوں اور پھر بچہ کو شرارت کرتے ہوئے چوٹ لگ جاتی تو پیٹ کر کہا جاتا ’’ کہا تھا ناں مت کرو شرارتیں ‘‘ اور وہ بچہ چوٹ سے کم اور گھر والوں کی مار سے زیادہ روتا تھا۔ مائیں ڈرانے کے لیے اور بھی کئی طریقے آزمایا کرتی تھیں۔ کبھی رات کی ماں کبھی چڑیل کبھی جن بھوت کا کہہ کر جلدی سلانے کی سبیل کرتی تھیں۔
میری اپنی زندگی کسی کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے ہے اور اس کا شاید ایک ایک ورق خوف کی سیاہی سے لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ خوف کے کتنے پہلو ہیں اور اس کے اثرات کتنے گہرے عمیق اور دیرپا ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں ، کچھ بھی تو میرے نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ میں نے نہم جماعت علی پور ہائی اسکول سے پاس کی ۔ اس وقت نہم کے کل سات سیکشن تھے۔ میں کلاس میں اول رہا اور اوور آل میری پوزیشن دوسری تھی۔ جن دنوں رزلٹ انائونس ہونا تھا ۔ میں اوچ شریف میں تھا اور اس خوف سے کہ مجھے سٹیج پر بلایا جائے گا اور کچھ بولنے کے لیے بھی کہا جائے گا، میں نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھے اس تقریب میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ سو میں نے یہ تقریب مس کر دی۔ میرے کلاس انچارج کافی عرصہ مجھ سے اس وجہ سے ناراض رہے کہ تم نے ہماری محنت ضائع کر دی ، ہماری خوشی کم کر دی۔
یہ سب کیا تھا اور کیوں تھا ؟ صرف اور صرف اعتماد کی کمی احساس کمتری ۔ دوسرے لفظوں میں خوف کی کارستانی ۔۔۔ دنیا کا ہر مذہب اپنے ماننے والوں سے ایک ہی مطالبہ کرتا ہے اور وہ ہے خود اعتمادی، جو خود آگاہی کا لازمہ ہے ۔ انسان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی خود اعتمادی ہے اسکی خود آگاہی ۔ یہی چیز انسان کو صاحب حال بناتی ہے۔ اپنا لکھا ہوا جملہ کیا اچھے موقع پر یاد آیا’’ جو صاحب حال نہ ہو اس کا حال دیکھنے والا ہوتا ہے ‘‘۔ کتاب ہدایت کہتی ہے کہ خدا فراموش کو خود فراموشی گھیر لیتی ہے۔ راقم اس کالم میں اپنے ذاتی تجربات شئیر کر رہا ہے۔ انسان آج اگر ذہنی خلفشار کا شکار ہے تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے یعنی خدا فراموشی۔ انسان کا اپنی ذات سے جب جب رابطہ ٹوٹتا ہے تو اس کی شخصیت تحت الثریٰ میں جا گرتی ہے۔ اس کا اپنی ذات سے ربط تب ٹوٹتا ہے جب اس کا تعلق اور ربط اپنے رب سے ٹوٹتا ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ انسان ٹوٹ کر، بکھر کر، اجڑ کر رہ جاتا ہے۔ اس کی حالت اس سیارے جیسی ہو جاتی ہے جو اپنے مدار سے نکل جائے اور اب وہ ’’ فری فال باڈی‘‘( آزادانہ گرتا ہوا جسم ) کی طرح فضا میں گرتا چلا جاتا ہے اور یہ کٹی پتنگ پستی کی طرح گہرائیوں میں جا پڑتا ہے۔ اب ایسی حالت میں انسان دو طرح کی کیفیت میں منقسیم ہو جاتا ہے۔ داخلیت پسند تنہائی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور خارجیت پسند گلیوں کی خاک چھانتا پھرتا ہے۔ علاج دونوں کا ایک سا ہے۔ اپنے رب کے ساتھ ٹوٹے تعلق کو پھر سے استوار کرنا اور یہ صرف سوچنے سے نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ عمل واحد ماسٹر کی ہے جو ہر طرح کا تالا کھول دیتی ہے۔ صراط مستقیم پر لازماً قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ صبر اور نماز سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ یوں رفتہ رفتہ شخصیت میں ٹھہرائو سا اترتا ہے۔ اپنی ذات سے ٹوٹا ربط پھر سے استوار ہونے لگتا ہے ۔ کٹی پتنگ میں پھر سے ڈور پڑ جاتی ہے، اس کا سرا اس کے ہاتھ میں آجاتا جس نے پوری کائنات کو سنبھال رکھا ہے ۔ ( اور اس سے پہلے اس نے وہ سرا چھوڑ دیا ہوتا ہے ) اعتماد کی قوت عود کر آتی ہے ۔ انسان غفلت سے بیداری کی طرف لوٹ آتا ہے۔ گتھی سلجھ جاتی ہے۔ گنجلک ڈور کا وہ سرا ہاتھ آ جاتا ہے جو سارے دھاگے پھر سے سیدھا کر دیا کرتا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا جب چھوٹے بچے کو آپ ہوا میں اچھالتے ہیں تو بجائے رونے کے وہ ہنستا ہے، کھلکھلاتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے جن ہاتھوں نے ہوا میں اچھالا ہے وہی ہاتھ اسے سنبھال بھی لیں گے۔ تو کیا خیال ہے جس نے ہمیں وجود بخشا اور اس بے انت کائنات میں اچھالا ہے کیا وہ اپنے بندے کو گرنے دے گا ؟، نہیں ہرگز نہیں، بالکل بھی نہیں۔ میں جہاں کہیں بھی پھسلا، وہیں گرتے گرتے سنبھل گیا۔ مجھے ٹھوکروں سے پتہ چلا میرا ہاتھ ہے کسی ہاتھ میں ہے۔ نوٹ ۔۔ زیر نظر تحریر میں خوف کا صرف منفی پہلو زیر بحث آیا ہے، جسے اندیشہ کہنا ہو گا ورنہ تو خوف خدا کی نعمت ہے، جو غیر معمولی حالات میں انسان کو محتاط کر دیا کرتا ہے اور یوں انسان خود کو کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے چوکس ہو جاتا ہے ۔