جھانسے میں آئیں

سیدہ عنبرین
مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والے دو جلسے آنے والے کئی برسوں تک موضوع گفتگو رہیں گے۔ ایک شیطانوں کا جلسہ تھا جو چند برس قبل ہوا اس میں کسی حکومت کا کوئی عمل دخل نہ تھا جو سیاسی جماعت یہ جلسہ کر رہی تھی وہ کبھی اقتدار میں نہ آئی تھی اسکا سیاسی تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا اسکے لیڈر کو بات بھی کرتا نہ آتی تھی وہ کئی برس سے ہر جلسے میں ایک ہی تقریر کرتا چلا آرہا تھا لیکن پھر بھی اس کی تقریر سننے کیلئے لاکھوں افراد پہنچ گئے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہاں انہیں بریانی کی پلیٹ تو بہت دور کی بات ہے شاید دو گھونٹ پانی پوچھنے والا کوئی نہ ہوگا۔ دوسرا جلسہ کہہ سکتے ہیں فرشتوں کا دودھ سے دھلے ہوئوں کا جلسہ تھا وسائل بے شمار، تجربہ وسیع ، وقت تیاری کیلئے لامحدود رائٹر ڈائریکٹر ایک سے بڑھ کر ایک نگران حکومت میں ہر شخص طرف دار کہانی کار لاجواب ایکٹر ایسے جو دلیپ کمار کو کریں مات، جلسہ کیا تھا ولیمے کا سماں تھا ہر گول میز کے گرد بیٹھنے کیلئے چھ چھ آرام دہ کرسیاں میزوں پر مشروبات اور اسکے ساتھ بہت کچھ شادی کی تقریبات میں بارات کا دن ہو یا ولیمہ آنے والے مہمان سلامی دیتے ہیں یہاں آنے والوں کو نقد سلامی بھی ملی مگر بتانے والوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے مطابق یہاں ایک لاکھ سے زیادہ افراد نہ آئے۔ یہ تعداد بھی ان کے مطابق سے جو دودھ میں پانی ملانے کے فن میں یکتا ہیں۔ لوگوں کو جلسہ گاہ تک لانے کیلئے تین روز سے رکشوں اور پک اپس پر لائوڈ سپیکر لگا کر گلی گلی گھما کر اہل لاہور کا سر کھایا جاتا رہا اور سمجھایا جاتا رہا کہ پاکستان ڈوب رہا ہے اسے بچانے والا آرہا ہے، لگتا ہے لوگوں کو پہلی بات پر تو یقین تھا انہیں دوسری بات پر یقین نہ تھا پس انہوں نے گھر بیٹھ کر ٹک ٹاک تماشا دیکھنا بہتر سمجھا حالانکہ ہر گلی کی نکڑ پر دو دو گاڑیاں لا کر کھڑی کر دی گئی تھیں۔ جو جلسہ سننے گئے وہ پچھتائے جو گھر بیٹھے رہے وہ فائدے میں رہے سفر کی کوفت سے بچے پھر انکا وقت بھی بچا۔ جلسہ سننے جانے والے اس امید پر گئے کہ وہ اپنے محبوب لیڈر کے کندھے پر سر رکھ کر رو سکیں گی اور پانچ سال میں ہونے والی مہنگائی لوٹ مار اور استحصال کی کہانی سنا سکیں گے جن میں آخری ڈیڑھ سال میں کی گئی ڈکیتیوں کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ لے سکیں گے۔ انکی حیرانی و پریشانی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ انکے لیڈر نے تو انکے کندھے پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا ہے اور عوام کو جی بھر کے لوٹنے والے اسکے دائیں بائیں بیٹھے ہیں۔
شریف خاندان کا ہر فرد آیا اور اپنا رونا روکر چلا گیا۔ قوم کا رونا دیکھنے کی کسی کو فرصت نہ تھی ایسے میں ایک مظلوم بہت یاد آیا جو سٹیج پر آکر رو سکا نہ کسی کو اپنی فریاد سنا سکا، اسکا نام جنید صفدر ہے کاش کوئی آتا اور اسکے گھر اجڑنے کا سبب بھی بتاتا۔ اسکا باپ جتنا دکھی رہا ہے، دنیا جانتی ہے اب بیٹے کی زندگی بھی دکھوں سے بھر گئی ہے، بتانا چاہیے تھا کہ یہ سب کیا دھرا بھی فیض اور باجوہ کا ہے دونوں نے مل کر جانے کس بات کا بدلہ لیا ہے، یہ کام تنہا کوئی تھری سٹار نہیں کر سکتا تھا اسے یقیناً کسی فور سٹار کی معاونت حاصل ہوگی لہذا دونوں پر اس زیادتی کا مقدمہ سب سے پہلے چلنا چاہیے۔ اپنے درد کی دوا لینے کیلئے مینار پاکستان جانے والوں کو وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ بے درد کا اپنا درد دل ابھی باقی ہے یہ شاید اب عمر بھر باقی رہے کیونکہ کسی کے دل میں جھانک کر جانچا نہیں جاسکتا کہ درد کتنا ہے، ہے بھی یا نہیں یوں لندن جانے کا تازہ دم بہانہ ہر دم موجود رہے گا ہر مرتبہ نئی کہانی نہیں سنانا پڑے گی۔
خیال کیا جارہا تھا کہ جیب سے ملک کی تقدیر بدلنے کا نسخہ نکال کر قوم کے سامنے پیش کیا جائے گا لیکن وہ خالی جیب لیکر آئے ہیں جب جائیں گے تو جبیں خالی نہ ہونگی۔ تقدیر بدلنے والا نعرہ بھی دم توڑ گیا ہے سوال کیا جاتا ہے اگر کچھ تھا تو بھائی کو بتا کر اپنے آنے سے پہلے ہی قوم کی تقدیر بدل دیتے ایسا نہیں کیا گیا تو اسکی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں پہلی یہ کہ برادر خورد کے خلاف سازش کی گئی ہے اسے یہ نسخہ دیدہ دانستہ نہیں دیا گیا مبادا وہ پہنچنے سے پہلے ہی قوم کی تقدیر بدل دے تو قوم پوچھے ہماری تو تقدیر بدل چکی اب تم کیا لینے آئے ہو جائو بھاگ جائو ہمیں تمہاری ضرورت نہیں رہی۔ دوسری وجہ جو حقیقت کے زیادہ قریب محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ سرے سے کچھ ہے ہی نہیں ورنہ جلسہ عام کے شرکاء کو صرف کبوتر پر نہ ٹرخاتے اور جاتے جاتے جیب سے ایک بل نکال کر نہ لہراتے، یہ عقدہ حل نہ ہو سکا کہ بل کس کا تھا، منتظمین جلسہ نے بڑی زیادتی کی وہاں فوٹو کاپیئر رکھنے چاہیے تھے اس بل کی فوٹو کاپیاں کرا کر شرکاء میں بطور سیاسی تبرک تقسیم کر دیتے یہ تبرک گھر گھر پہنچ جاتا، غریب آدمی آئندہ کئی برس تک اس سے روٹی کا لقمہ مس کر کے پیٹ بھر لیتا۔ موسم گرم میں بجلی نہ ہونے یا حد سے زیادہ مہنگی ہونے پر اسی سے پنکھا جھل لیتا موسم سرما میں اسے اوڑھ لیتا اور سرما کی شدت سے محفوظ رہتا۔
مقدمات و قید و بند سے فرار کے بعد پانچ برس موج میلے کے بعد واپسی پر بتایا جاتا کہ اب وہ بہت بدل گیا ہے کانوں کا کچا نہیں رہا۔ اب اسے دل کے دورے نہیں پڑتے، اب اگر دل میں کوءی درد ہے بھی تو صرف ملک و قوم کا درد ہے حصول اقتدار کے پہلے روز ہی معاملہ کھل جاتا ہے جب بھائی وزیراعلیٰ پنجاب سمدھی وزیر خزانہ اور پرانے یاجوج ماجوج دائیں بائیں آگے پیچھے نظر آتے ہیں اب اقتدار ملا تو کچھ گھر کے نئے چراغ بھی نظر آئیں گے، ایک وہ ہو گا جس کا گھر نیا نیا اجڑا ہے، ایک وہ ہو گا جو کئی گھر اجاڑ چکا ہے، ایک وہ جسے جیل میں استری نہ ملی، ایک چی گیورا ہو گا اور ایک انکل سرگرم۔ انکل سرگرم نئی دریافت نہیں ہے اسکا کام ہو گا وہ ہر گھنٹے بعد جیب سے نسوار کی ڈبیہ نکالے چٹکی منہ میں رکھے اور مشورہ دے کونسا ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔ ٹی وی فیس کے بعد وہ پی ڈی ایم حکومت میں وزیراعظم کو ریڈیو ٹیکس کے نفاذ کا مشورہ دے چکا ہے یہ بالکل اسی طرح کا ٹیکس ہو گا کوئی ریڈیو سنے نہ سنے، اس نے زندگی میں ریڈیو کی شکل دیکھی ہو نہ دیکھی ہو اسے یہ ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ جیسے پرائیویٹ پروڈیوسر سے بجلی خریدیں نہ خریدیں انہیں کپیسٹی چارجز کے نام پر ہر سال کئی سو ارب روپے دیئے جاتے ہیں جو ہمارے اور آپ کے ٹیکس کا پیسہ ہے مال مفت سمجھ کر ریوڑیوں کی طرح بانٹا جا رہا ہے یہ ایسے معاہدے ہیں جو 2050ء تک مبینہ طور پر ہماری جان نہ چھوڑیں گے، قوم کی تقدیر بدلنے والے صرف یہ بتا دیں یہ معاہدے انہوں نے اپنے علاوہ کس کس کی تقدیر بدلنے کیلئے کئے تھے کیا وہ مستقبل میں ایک مرتبہ پھر اقتدار اس لئے چاہتے ہیں کہ ان کے خاندان سمدھیانے کی تقدیر میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کر لیں ۔
قوم کو اب انکی تقدیر سی زیادہ اپنی تقدیر کی فکر کرنا چاہئے جو ایک مرتبہ پھر تباہ ہونے والی ہے، اپنا ذہن تبدیل کریں پھر جھانسے میں نہ آئیں۔