
سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور نواز شریف کو بدعنوانی کے مقدمات میں ریلیف حاصل کرنے پر توجہ دینے کی کوشش میں، مسلم لیگ (ن) نے سابق مخلوط حکومت میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ ’’قریبی رابطہ کاری‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس فیصلے کے پیچھے اصل محرک شہباز شریف کی جانب سے مفاہمت پر زور ہے۔
یہ فیصلہ اتوار کو جاتی امرا میں ہونے والے اجلاس کے دوران کیا گیا جس میں شریف خاندان کے افراد کے علاوہ قانونی ماہرین نے بھی شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق نواز شریف اس ہفتے پی پی پی، جے یو آئی-ایف اور غیر فعال پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی دیگر جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ "ابتدائی طور پر، نواز شریف سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، اختر مینگل اور دیگر کو فون کریں گے اور ان سے الگ الگ ملاقاتیں کرنے سے پہلے، ان کی آزمائش کے دوران اخلاقی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کریں گے۔”
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) عدلیہ کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے سپریمو کو دیے گئے ریلیف پر مؤخر الذکر کی شدید تنقید کا جواب نہ دے کر پیپلز پارٹی کے ساتھ تصادم سے گریز کرے گی۔