تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

کلاشنکوف : یہ خطرناک رائفل کیسے ایجاد ہوئی ؟ دلچسپ کہانی

آپ نے یہ مثال تو سن رکھی ہو گی ، ایک موت اور دوسری کلاشنکوف کبھی دھوکہ نہیں دیتی ۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتامی دنوں میں تیار کیے گئے اس ہتھیار نے کیسے پوری دنیا میں اپنے اثرات چھوڑے اور کیا وجہ ہے کہ یہ آج بھی اتنے بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے ؟ اس کی پائیداری کے چرچے آج کل ہر خاص و عام کو پتہ ہیں ۔

کلاشنکوف کی کہانی 1941 میں سوویت یونین کے ایک عسکری ہسپتال سے شروع ہوتی ہے۔ ٹینک ڈویژن کا ایک سپاہی میخائل کلاشنکوف زخمی ہونے کے بعد تندرستی کی جانب گامزن تھا۔ ہسپتال میں اس نے صحت یاب ہونے والے کئی دوسرے سپاہیوں کو اپنی ناقابل اعتماد رائفلوں کا ماتم کرتے سنا، جو اکثر جام ہو جاتی تھیں۔ دوسری طرف ان کے مدمقابل نازی پہلے ہی سٹرمگیویر 44 استعمال کر رہے تھے جو ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے سبب وہ نسبتاً قریب کے اہداف پر درست طریقے سے کئی گولیاں داغ سکتے تھے۔

میخائل کلاشنکوف انجینیئر تھے، تاہم انہوں نے ہتھیاروں کی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ انہوں نے سٹرمگیویر 44 اور دوسری جنگ عظیم کے دوران متعارف ہونے والی دیگر اسالٹ رائفلز سے متاثر ہو کر ایک نئی سب مشین گن تیار کرنے کے لیے کمر کس لی۔ انہوں نے سوویت یونین کی ریڈ آرمی کے ہتھیاروں کے یونٹ میں کام کرنا شروع کیا اور بالآخر 1946 میں فوج کے لیے ایک نئی بندوق تیار کرنے کا مقابلہ جیت لیا۔

’اے کے 47: دی سٹوری آف دی پیپلز گن‘ کے مصنف مائیکل ہوجز کہنا ہے ایک بار انہیں میخائل کلاشنکوف نے بتایا کہ انہوں نے یہ بندوق ’اپنی دھرتی ماں کے دفاع اور فاشسٹوں کو شکست سے دوچار کرنے‘ کے لیے تیار کی تھی۔ ان کی ایجاد میں ذہانت سے بھرپور متعدد اختراعات تھیں۔ اس میں محض سات حرکت پذیر حصے، ایک گیس سے چلنے والا پسٹن اور زنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے کروم لائن چیمبر استعمال کیا گیا تھا۔ 300 میٹر کے فاصلے تک اس کا نشانہ درست بیٹھتا، یہ وزن میں ہلکی اور قابل اعتماد تھی اور فائر کے بعد پیچھے کو نسبتاً کم دھکا دیتی تھی۔

کلاشنکوف 1947 میں بننا شروع ہوئی اور بہت جلد سوویت فوج کا پسندیدہ ہتھیار بن گئی۔ روسی زبان بولنے والے ممالک میں ’کلاش‘ کے نام سے مشہور اس بندوق کا لائسنس وارسا معاہدے میں شامل کئی دوسرے ممالک (روس اور دیگر کئی مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے ممالک جو سوویت اتحاد کا حصہ تھے) کو بھی جاری کیا گیا۔ اگرچہ گذشتہ کئی برسوں میں یہ ہتھیار متعدد تبدیلیاں سے گزرا اور اس کی کئی چیزیں بہتر کی گئیں لیکن بنیادی ڈیزائن وہی رہا جو میخائل کلاشنکوف نے متعارف کروایا تھا۔

ہوجز کہتے ہیں: ’اس کی ایجاد کو 75 برس گزر چکے مگر آج بھی کلاشنکوف مغربی برتری کے بیانیے کو خاک میں ملانے کی خوفناک صلاحیت رکھتی ہے۔‘ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ بندوق ’اگر آپ تسلیم کریں تو ایک سپر پاور کی حیثیت رکھتی ہے اگرچہ یہ شیطانی چیز ہے۔‘

کلاشنکوف اس مقام تک کیسے پہنچی ؟

ڈیوڈ لاک ہیڈ کے مطابق دنیا بھر میں اس کے پھیلاؤ کا پہلا سبب یہ تھا کہ اس کو بنانا نسبتاً بہت آسان ہے اور اس بندوق کا تکنیکی مواد وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے کئی ممالک کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔ نتیجتاً کئی ممالک کی افواج بہت کم وقت میں اسے تیار کر کے آن کی آن میں اپنے سپاہیوں کو ایک طاقتور آلے سے مسلح کر سکتی تھیں۔

لاک ہیڈ اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں، مگر یہ ’سرد جنگ کے عروج کے دنوں میں‘ صحیح طور پر نمایاں ہوئی۔ سوویت یونین نے یہ بندوق اپنے اتحادی ممالک کی افواج سمیت دنیا بھر کے اپنے پراکسی لشکروں، باغی گروہوں اور مختلف جنگجو دستوں میں تقسیم کی۔ مغرب بھی اس وقت شرافت سے خاموش نہیں بیٹھا تھا، اس نے امریکی ساختہ ایم 16، بیلجیئم ساختہ FN FAL اور جرمن ساختہ G3 سمیت اپنی اسالٹ رائفلز کئی گروہوں اور حکومتوں کو تقسیم کیں، جن کی وہ پشت پناہی کر رہا تھا۔

کلاشنکوف: یہ قاتل رائفل کیسے ایجاد ہوئی اور دنیا کو کیسے متاثر کیا؟
اوتومات کلاشنکوف کا 1947 میں تیار ہونے والا پہلا ماڈل ممکنہ طور پر دنیا کا مہلک ترین ہتھیار ہے۔ اس میں ایسا کیا ہے کہ یوکرین اور روس کے حالیہ تنازعے سمیت یہ دنیا بھر کی جنگوں میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوا؟
لین ولیمز ہفتہ 3 ستمبر 2022 13:15
sharethis sharing button

نو دسمبر، 2020 کی اس تصویر میں ایتھوپیا کے علاقے تگرے میں آفار سپیشل فورسز کا ایک اہلکار اپنی کلاشنکوف کے ہمراہ نظر آ رہا ہے (اے ایف پی)

جینیوا میں قائم ’سمال آرمز سروے‘ سے وابستہ سینیئر محق ڈیوڈ لاک ہیڈ اپنے گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’جن دنوں میری رہائش جنوبی سوڈان میں تھی اس وقت ہفتے میں تین یا چار مرتبہ مجھے رات کو (کلاشنکوف سے) گولیاں برسنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔

’اگر یہ تھری راؤنڈ برسٹ ہوتا تو آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، کیوں کہ چند گولیاں چلانا بعض سوڈانیوں کے لیے استقبال کی ایک اسراف پسندانہ شکل ہے۔‘

جب فائرنگ کا سلسلہ طول پکڑتا تو لاک ہیڈ کو پریشانی لاحق ہونے لگی۔

کلاشنکوف یقیناً دنیا کی سب سے زیادہ جانی پہچانی رائفل ہے۔ کیلے کی شکل جیسی میگزین والی یہ بندوق دنیا بھر کی پیشہ ورانہ افواج، ملیشیا، مجرم اور انقلابی استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ مختلف اندازے، مختلف اعداد و شمار دیتے ہیں لیکن ایسا مانا جاتا ہے کہ اس وقت کم از کم یہ 10 کروڑ کی تعداد میں گردش کر رہی ہیں اور لاتعداد لوگ اس کے سبب ہلاکت یا معذوری سے دوچار ہو چکے ہیں۔

ثقافتی اعتبار سے بھی اس کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ یہ ویڈیو گیمز، فلموں، میوزک ویڈیوز حتیٰ کہ موزمبیق کے جھنڈے پر بھی نظر آتی ہے۔ بہت سے ممالک میں یہ ایک قیمتی وراثت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ مثال کے طور پر لاک ہیڈ کا کہنا ہے کہ مشرقی افریقہ کے گلہ بانوں کی ثقافت میں یہ ہتھیار ویسے ہی نسل در نسل منتقل ہوتا ہے جیسے ماضی میں خاندانی تلواریں ہوا کرتی تھیں۔

لاک ہیڈ کے بقول، ’مجھے ایسے مقامات پر کام کرنے کا اتفاق ہوا ہے جہاں لوگ مختلف تقریبات، شادیوں حتیٰ کہ یہ بتانے کے لیے اس سے گولیاں برساتے کہ میں گاؤں میں واپس آ گیا ہوں۔‘

دوسری جنگ عظیم کے اختتامی دنوں میں تیار کیے گئے اس ہتھیار نے کیسے پوری دنیا میں اپنے اثرات چھوڑے اور کیا وجہ ہے کہ یہ آج بھی اتنے بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے؟

کلاشنکوف کی کہانی 1941 میں سوویت یونین کے ایک عسکری ہسپتال سے شروع ہوتی ہے۔ ٹینک ڈویژن کا ایک سپاہی میخائل کلاشنکوف زخمی ہونے کے بعد تندرستی کی جانب گامزن تھا۔ ہسپتال میں اس نے صحت یاب ہونے والے کئی دوسرے سپاہیوں کو اپنی ناقابل اعتماد رائفلوں کا ماتم کرتے سنا، جو اکثر جام ہو جاتی تھیں۔ دوسری طرف ان کے مدمقابل نازی پہلے ہی سٹرمگیویر 44 استعمال کر رہے تھے جو ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے سبب وہ نسبتاً قریب کے اہداف پر درست طریقے سے کئی گولیاں داغ سکتے تھے۔

میخائل کلاشنکوف انجینیئر تھے، تاہم انہوں نے ہتھیاروں کی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ انہوں نے سٹرمگیویر 44 اور دوسری جنگ عظیم کے دوران متعارف ہونے والی دیگر اسالٹ رائفلز سے متاثر ہو کر ایک نئی سب مشین گن تیار کرنے کے لیے کمر کس لی۔ انہوں نے سوویت یونین کی ریڈ آرمی کے ہتھیاروں کے یونٹ میں کام کرنا شروع کیا اور بالآخر 1946 میں فوج کے لیے ایک نئی بندوق تیار کرنے کا مقابلہ جیت لیا۔

’اے کے 47: دی سٹوری آف دی پیپلز گن‘ کے مصنف مائیکل ہوجز کہنا ہے ایک بار انہیں میخائل کلاشنکوف نے بتایا کہ انہوں نے یہ بندوق ’اپنی دھرتی ماں کے دفاع اور فاشسٹوں کو شکست سے دوچار کرنے‘ کے لیے تیار کی تھی۔ ان کی ایجاد میں ذہانت سے بھرپور متعدد اختراعات تھیں۔ اس میں محض سات حرکت پذیر حصے، ایک گیس سے چلنے والا پسٹن اور زنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے کروم لائن چیمبر استعمال کیا گیا تھا۔ 300 میٹر کے فاصلے تک اس کا نشانہ درست بیٹھتا، یہ وزن میں ہلکی اور قابل اعتماد تھی اور فائر کے بعد پیچھے کو نسبتاً کم دھکا دیتی تھی۔

کلاشنکوف 1947 میں بننا شروع ہوئی اور بہت جلد سوویت فوج کا پسندیدہ ہتھیار بن گئی۔ روسی زبان بولنے والے ممالک میں ’کلاش‘ کے نام سے مشہور اس بندوق کا لائسنس وارسا معاہدے میں شامل کئی دوسرے ممالک (روس اور دیگر کئی مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے ممالک جو سوویت اتحاد کا حصہ تھے) کو بھی جاری کیا گیا۔ اگرچہ گذشتہ کئی برسوں میں یہ ہتھیار متعدد تبدیلیاں سے گزرا اور اس کی کئی چیزیں بہتر کی گئیں لیکن بنیادی ڈیزائن وہی رہا جو میخائل کلاشنکوف نے متعارف کروایا تھا۔

ہوجز کہتے ہیں: ’اس کی ایجاد کو 75 برس گزر چکے مگر آج بھی کلاشنکوف مغربی برتری کے بیانیے کو خاک میں ملانے کی خوفناک صلاحیت رکھتی ہے۔‘ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ بندوق ’اگر آپ تسلیم کریں تو ایک سپر پاور کی حیثیت رکھتی ہے اگرچہ یہ شیطانی چیز ہے۔‘

کلاشنکوف یقیناً اپنی نوعیت کا ابھی تک سب سے کامیاب ہتھیار ہے۔

مگر یہ ہتھیار اس مقام تک پہنچی کیسے؟

ڈیوڈ لاک ہیڈ کے مطابق دنیا بھر میں اس کے پھیلاؤ کا پہلا سبب یہ تھا کہ اس کو بنانا نسبتاً بہت آسان ہے اور اس بندوق کا تکنیکی مواد وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے کئی ممالک کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔ نتیجتاً کئی ممالک کی افواج بہت کم وقت میں اسے تیار کر کے آن کی آن میں اپنے سپاہیوں کو ایک طاقتور آلے سے مسلح کر سکتی تھیں۔

لاک ہیڈ اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں، مگر یہ ’سرد جنگ کے عروج کے دنوں میں‘ صحیح طور پر نمایاں ہوئی۔ سوویت یونین نے یہ بندوق اپنے اتحادی ممالک کی افواج سمیت دنیا بھر کے اپنے پراکسی لشکروں، باغی گروہوں اور مختلف جنگجو دستوں میں تقسیم کی۔ مغرب بھی اس وقت شرافت سے خاموش نہیں بیٹھا تھا، اس نے امریکی ساختہ ایم 16، بیلجیئم ساختہ FN FAL اور جرمن ساختہ G3 سمیت اپنی اسالٹ رائفلز کئی گروہوں اور حکومتوں کو تقسیم کیں، جن کی وہ پشت پناہی کر رہا تھا۔

ویت نام جنگ کلاشنکوف کے لیے ممکنہ طور پر فیصلہ کن موڑ تھا۔ کمیونسٹ گروہ کو چین اور روس کی جانب سے لاکھوں کلاشنکوفیں فراہم کی گئی تھیں۔ ویت نام کے بھاپ والے جنگلوں میں یہ ہتھیار انتہائی موثر رہا۔ امریکی ساختہ ایم 16 کے برعکس کلاشنکوف پانی کے اندر بھی کام کرتی ہے۔ اسے دیکھ بھال یا صفائی کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے، دوبدو مقابلے کے لیے انتہائی مناسب اور شاذ و نادر ہی جام ہوتی ہے۔ دراصل ایسی کئی اطلاعات تھیں جن کے مطابق امریکی دستوں نے اپنی ایم 16 کو ویت نامی کمیونسٹوں سے چھینی گئی کلاشنکوفوں سے تبدیل کر لیا کیونکہ یہ میدان جنگ میں زیادہ موثر تھیں۔

اس وقت کلاشنکوف تمام ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں پھیل رہی تھی۔ یہ ہتھیار نوآبادیات کی مخالفت اور سرد جنگوں کے تنازعات میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوا۔ مثال کے طور پر 1980 کی دہائی کی سوویت افغان جنگ میں مجاہدین نے اپنے امریکی پشت پناہوں سے التجا کی کہ وہ انہیں چینی ساختہ کلاشنکوفیں لے دیں جو بالآخر امریکہ نے لے کر دیں۔

بلاشبہ متعدد جنگوں نے اس رائفل کے پھیلاؤ میں کردار ادا کیا لیکن 1990 کی دہائی کی بلقان جنگیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے سے پہلے ملکی فوج Zastava M70 استعمال کرتی رہی جو کلاشنکوف طرز کا اسلحہ تھا اور جسے تمام گروہوں نے بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد بہت سے جنگجو اپنی بندوقیں گھر لے گئے اور یوں اسلحے کی غیر قانونی تجارت شروع ہو گئی، مختلف گینگسٹر اور دہشت گرد بلیک مارکیٹ سے یہ ہتھیار خریدنے لگے۔

کلاشنکوف کا دہشت گردی کے ساتھ خاصا مضبوط رشتہ ہے۔ لاک ہیڈ کہتے ہیں، ’وہ دہشت گردوں کا ترجیحی ہتھیار اس لیے ہے کہ ہر جگہ موجود ہے۔‘ عسکری انتہا پسند گروہ القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی مشہور تصویر ہے جس میں وہ یہ بندوق تھامے بیٹھے ہیں اور ایسا ہی برطانیہ سے تعلق رکھنے والے داعش کے دہشت گرد ’جہادی جان‘ کا معاملہ ہے۔ آئرش ری پبلک آرمی سے لے کر شائنگ پاتھ، داعش، بوکو حرام اور تامل ٹائیگروں سمیت کئی مسلح گروہوں نے دنیا بھر میں یہ اسلحہ استعمال کیا۔

ہوجز کہتے ہیں: ’(فرانسیسی طنزیہ میگزین) چارلی ایبدو کے دفتر پر 2015 کے حملے کے دوران حملہ آوروں شریف اور سعید کواشی نے 12 افراد کو قتل کرنے کے لیے کلاشنکوفیں استعمال کی تھیں۔ اس واقعے کے بعد فرانس پولیس یونین الائنس کے ایمانوئل کویمینر نے کہا تھا، ’ان کے پاس کلاشنکوف سمیت جنگی ہتھیار تھے۔‘ انہوں نے اس طرح بات کی جیسے کلاشنکوف کے استعمال نے قاتلانہ حملے کی سفاکی میں اضافہ کیا ہو۔‘ اسی برس کچھ عرصے بعد کلاشنکوف کی دو مختلف قسمیں ان دہشت گردوں کے ہتھیاروں میں شامل تھیں جنہوں نے باتاکلان کنسرٹ ہال پر حملہ کر کے 90 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

اگر آپ نے حقیقی زندگی میں کبھی کلاشنکوف کی فائرنگ دیکھی یا سنی نہیں تو اس کے اثرات کا تصور کرنا مشکل ہے، لیکن کوئی شخص جس نے اس ہتھیار کے استعمال کا سنجیدگی سے تجربہ کیا ہے تو وہ ہیں اولی اولرٹن، سپیشل فورسز کے سابق آپریٹر اور ایک کارپوریٹ ٹریننگ کمپنی کے بانی۔ اولی اولرٹن کہتے ہیں، ’میری زندگی کے خوفناک ترین لمحات میں وہ وقت ہے جب میں مشرق وسطیٰ میں ایک معاہدہ کر رہا تھا۔ میں کچھ اہم شخصیات کو عمان سے بغداد لیے جا رہا تھا کہ ہمارے قافلے پر ایک سیاہ شیشوں والی مرسیڈیز سے حملہ شروع ہو گیا۔ جب وہ گاڑی بالکل ہمارے پیچھے سیدھی بمپر سے آ لگی تو کلاشنکوفیں نکلیں اور گولیاں برسنے لگیں۔‘

اولرٹن جو چینل 4 ٹی وی کے شو SAS: Who Dares Wins میں بھی نمودار ہو چکے ہیں، اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’کلاشنکوف کا فائر الگ طرح کا اور انتہائی خوفناک ہے۔ ایک ہی وقت میں آپ پر چار مختلف کلاشنکوفوں سے فائرنگ اور آپ 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ رہے ہوں تو یہ ایسے تھا جیسے جہنم سے ایک نہایت اونچا آرکیسڑا بج اٹھا ہو، انتہائی پرشور اور ناگوار۔ درحقیقت واقعی میں یہ ایسے تھا جیسے برفانی تودہ ٹوٹ رہا ہو۔ یہ انتہائی بھیانک تھا اور ایک ایسی چیز ہے جو میں زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں دیکھنا چاہوں گا۔‘

لاک ہیڈ مجھے بتاتے ہیں کہ اب بھی کلاشنکوف ’تمام عصری مسلح تنازعات میں انتہائی مقبول‘ ہے۔ یوکرین اور روس کے درمیان موجودہ جنگ میں دونوں فریقوں کے پاس یہی یا ان کی قبیل کے ہتھیار دیکھے گئے ہیں۔ لاک ہیڈ کہتے ہیں کہ اپنے کام کی نسبت سے انہوں نے تمام تنازعات کو قریب سے دیکھا ہے اور وہاں تمام فریق یہ بندوقیں استعمال کر رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button