ColumnNasir Naqvi

اور قاضی آ ہی گیا

ناصر نقوی
آدم زادے ’’بندہ خدا‘‘ ہونے کے باوجود ’’بندہ‘‘ نہیں بنتے کیونکہ انہیں دنیاوی طاقت و منصب اور شیطان غلط فہمی پیدا کر کے ’’ رحمان‘‘ کے مدمقابل لاکھڑا کرتا ہے۔ ماضی میں نظر دوڑائیں تو یہی منظر قاضی فائز عیسیٰ سے دکھائی دے گا۔ حضرت علی شیر خدا کا قول ہے کہ حق سچ کی بات کرنے والا ہمیشہ تنہا رہ جاتا ہے لیکن مالک کائنات کا وعدہ ہے کہ صبر و استقامت پر قائم رہنے والے کو ہی کامیابی نصیب ہو گی اس لیے ’’ جیت‘‘ اسی کی ہوتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج سپریم کورٹ کوئٹہ کچہری سانحے اور فیض آباد دھرنے کی تحقیقات کے بعد جو فیصلے دئیے وہ صاحب منصب آدم زادوں کو نہ صرف پسند نہیں آئے بلکہ انہیں وقت کے سرکاری پہلوانوں نے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر ’’ قاضی‘‘ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ان زور آوروں نے حکومتی سرپرستی میں بڑے دنگل کا فیصلہ کیا اور پھر سب نے دیکھا کہ اس خاندان کے ساتھ عدلیہ اور سرکار نے کیا کچھ نہیں کیا۔ الزامات ناجائز دولت سے اثاثے بنانے اور اختیارات سے تجاوز کرنا تھا۔ مقصد انا کی تسکین میں دونوں میاں بیوی کو بے عزت کرنا اور انھیں نااہل کرانا تھا۔ صدارتی دستخطوں سے ریفرنس بھی بھیجا گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک نہ ختم ہونے والی مہم بھی چلائی گئی۔ دعویٰ تھا کہ ایک جج اور سکول ٹیچر کی محدود آمدنی میں موجودہ اثاثے کیسے بن گئے۔ جونہی انہیں چیلنج کیا گیا کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کی مالی اور معاشرتی حیثیت دیکھو، یہ کسی سرکاری ملازم یا عام لوگوں کی اولادیں نہیں، تو ماضی میں انگریزوں کی غلامی، ان کی نوکری چاکری میں حاصل کی جانے والی مراعات کے گڑے مردے اکھاڑے گئے۔ معاملہ صرف اتنا تھا کہ ’’ قاضی‘‘ نے حکومت کی ہاں میں ہاں کیوں نہیں ملائی؟ اور اس نے صاحب منصب لوگوں سے ٹکر لینے کی جرات کیسے کی؟ دونوں شریک حیات صبر و استقامت سے شریک مقدمات بھی رہے اور بنا کسی ماہر قانون کی مشاورت ازخود حالات کا سامنا کیا۔ بیٹی نے بھی ماں کا ساتھ دیا۔ قاضی صاحب نے اپنی اصولی گرج چمک تو دکھائی لیکن بیگم سرینا نے جس طرح انصاف کے ٹھیکیداروں کو للکار کر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اذیت ناک دور خاصا طویل رہا لیکن جونہی حالات بدلے، سیاسی موسم بدلا تو ثابت قدم قاضی اسی صدر مملکت کے مدمقابل کھڑا ہو کر ریاست کے سب سے بڑے عہدے کا حلف اٹھاتا دکھائی دیا، بلکہ قاضی نے حق سچ کی فتح پر اپنی شریک حیات کو بھی لاکھڑا کر کے خاموش پیغام دے دیا کہ ’’ اللہ ہی عزت و ذلت دیتا ہے‘‘۔ جھوٹ کی جگ ہنسائی اور سچ کی پذیرائی ضرور ہوتی ہے یقینا یہ آدم زادوں اور صاحب منصب و اختیار لوگوں کے سمجھنے کے لیے بڑا پیغام تھا کہ کسی کو اپنے منصب اور اختیار پر اترانا نہیں چاہیے، وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا؟؟
لڑتا جھگڑتا، حق سچ کی بات کرتا قاضی آخر کار اس منصب پر آ گیا جہاں تک پہنچنے سے روکنے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ ایک تجربہ کار آل رائونڈر کی طرح قاضی نے اپنے بلند ترین منصب کی اننگ کا آغاز کر دیا۔ ابتداء میں ہی ماضی کی روایات سے بہت کچھ مختلف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ دوسرا صاحب منصب ہے جس نے اپنے اختیارات میں اضافے کی بجائے کمی کا مظاہرہ عملی طور پر کر دیا۔ قاضی کا دعویٰ ہے کہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جس سے ملک کو نقصان ہو، قبل ازیں مملکت کے سپریم کمانڈر سابق صدر آصف علی زرداری اپنے اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے حوالے کر چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ میں فیصلوں کا نہیں، آئین کا تابع ہوں اور رہوں گا۔ انہوں نے پروٹوکول اور بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑی لینے سے انکار کیا اور روایتی گارڈ آف آنر بھی نہیں لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کام سے کام رکھنے کا عادی ہوں لہٰذا ’’ گارڈ آف آنر‘‘ کی ضرورت نہیں، بلکہ قاضی نے ’’ نیم پلیٹ‘‘ پر کورٹ نمبر 1کے باہر چیف جسٹس کی تختی لگانے سے بھی روک دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ’’ برادر ججز‘‘ کی ٹیم کا حصہ ہوں ۔ سب جج برابر ہیں۔ کافی عرصے سے مختلف مقدمات کے لیے ’’ فل کورٹ‘‘ کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جو سابق چیف جسٹس ( ر) عمر عطا بندیال نہیں مانتے تھے۔ قاضی صاحب نے ’’ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ کی سماعت کے لیے فل کورٹ کا مطالبہ نہ صرف تسلیم کر لیا بلکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسے نشر بھی کرایا جس سے پوری قوم نے دیکھا کہ ’’ عدالت عظمیٰ‘‘ میں تقسیم کی جڑیں کتنی مضبوط موجود ہیں۔ مجموعی طور پر اس نئی روایت پر قوم کی اکثریت خوش ہے کیونکہ دنیا میں یہ رواج پرانا ہے ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوا اس لیے تعریف اور تنقید کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے اندیشہ لاحق ہے کہ قاضی مخالف اس کے منفی اثرات ڈھونڈ کر کوئی نیا پھڈا ڈال سکتے ہیں۔ بہرکیف قاضی کی ابتدائی گفتگو، اقدامات اور انداز اپنے پیش رو سے بالکل مختلف ہیں۔ جب وہ پہلے روز بطور چیف سپریم کورٹ پہنچے تو ملازمین نے روایتی انداز میں گلدستے پیش کئے جواب میں قاضی کا کہنا تھا کہ ہم تو ملازمین ہیں حقیقی مہمان وہ سائل ہیں جو مشکل حالات سے گزر کر یہاں آتے ہیں۔ ان سے حسن سلوک اور میزبانی کا انداز اپنایا جائے۔
انہوں نے کہا یہاں ہزاروں افراد انصاف کی تلاش میں مجبور آتے ہیں، خوشی سے کوئی نہیں آتا، ہمیں ان کے ساتھ ایسے پیش آنا چاہیے کہ ان کے چہرے کی اداسی کم ہو جائے۔
قاضی آ ہی گیا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اقدامات سے عدالت عظمیٰ کی ساکھ بحال کر کے عوامی اعتماد بحال کر سکیں گے کہ نہیں، یہ خدشہ صرف اس لیے ہے کہ پہلی ہی براہ راست نشریات سپریم کورٹ کے فل کورٹ میں جتنے بھی ججز بولے، سوال جواب کیے ان میں واضح اختلاف پایا جا رہا تھا۔ قاضی صاحب نے ایک طویل سماعت کے بعد ’’ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ میں حکم امتناعی ختم نہیں کیا اور سینئر ججز کی مشاورت سے مختلف بینچ تشکیل دے دئیے جس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ فیصلہ آنے سے پہلے ہی اس ترامیمی ایکٹ پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے اس موقع پر قاضی صاحب نے دو اہم غلطیوں کا اعتراف کیا بلکہ یہ بات برملا کہہ دی کہ ہم سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں جیسے ماضی میں بھٹو کیس اور ریکوڈک کیس کے فیصلوں سے ملک و قوم کو نقصان پہنچایا گیا۔ سابق چیف جسٹس ( ر) عمر عطا بندیال جاتے جاتے آبدیدہ آنکھوں سے یہ کہہ گئے کہ میں ’’ ڈوبتا ہوا سورج ہوں‘‘ لیکن قاضی صاحب کی آمد تو13ماہ کے لیے ہے لیکن امید طلوع سحر لگ رہی ہے۔ قوم نے ان سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کر لی ہیں اس لیے قوم کے اعتماد پر پورا اترنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا، سیاسی مقدمات اور ریاستی لڑائی جھگڑوں کے فیصلے اپنی جگہ، حقیقی عوامی مفاد عامہ کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر آئینی و قانونی حدود میں لا کر ایسے فیصلے کرنے ہوں گے جن سے ان کے بعد آنے والے بھی منہ نہ موڑ سکیں۔ سپریم کورٹ کے ہزاروں مقدمات اور میدان انصاف میں عالمی ریٹنگ میں تنزلی کی ایک بڑی وجہ ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ ، گلزار اور ان کے بعد عمر عطا بندیال کے من مرضی کے فیصلے، سیاسی معاملات میں مداخلت اور حقیقی مقدمات کو نظرانداز کرنا ہے۔ ان تمام شخصیات نے ایک خاص ایجنڈے کے مطابق نان ایشوز کو ایشوز بنا کر سہولت کاری کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کیا جس کے نتیجے میں زیر التواء عوامی مقدمات میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ سائل حصول انصاف کے لیے بھٹکتے رہے اور انھیں باوجود کوشش کئی کئی سال سماعت کے لیے تاریخ بھی نہیں مل سکی، عمر عطا بندیال یقین دہانی کے باوجود زیرِ التواء مقدمات میں کمی نہیں کر سکے۔ جو اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی لیکن قاضی صاحب سے ایسی امید ہرگز نہیں وہ اپنے 13مہینوں کی حکمت عملی کیسی بناتے ہیں اور اس کو قابل عمل کیسے بناتے ہیں؟ حقیقی کام یہی ہے کیونکہ جب کسی بھی ادارے میں ذمہ داری سے کام کرنے اور آئین و قانون کی حدود پر سختی کی جاتی ہے تو وہاں ’’ ہڈ حرام‘‘ سفارشی اور سیاسی تعیناتی والے صرف ذمہ داری سے بچنے کے لیے ’’ نیا محاذ ‘‘ کھول دیتے ہیں۔ جس سے ملازمین تقسیم در تقسیم اور پسند و ناپسند کے حوالے سے گروہ بندی قدرتی طور پر بن جاتی ہے لہٰذا قاضی صاحب جو کچھ بھی نیا کرنا چاہیں گے آدم زادے اپنی عادت کے مطابق ٹانگ ضرور اڑائیں گے۔ ہوشیار قاضی جی۔۔۔۔۔ حق سچ اور اصولی موقف پر قانون و انصاف کے لیے اپنی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کریں۔ آپ مشکل ترین حالات سے نبرد آزما ہو کر اس اہم منصب تک پہنچے ہیں تو وقت ضائع کئے بغیر وہ کچھ کر جائیں جو آپ کو تاریخ میں زندہ جاوید رکھے۔ یقینا 13ماہ کا محدود عرصہ کم ہے کسی ادارے اور نظام میں انقلابی اقدامات کرنے کے لیے لیکن جب نیت نیک ہو تو اس میں اللہ اپنی برکت ڈال دیتا ہے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو گا قوم آپ کے ساتھ ہے۔ اور نظام انصاف کی بے ضابطگیوں کا ازالہ چاہتی ہے تاکہ اسے انصاف اسی دنیا میں مل جائے۔ آخرت کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ آخر میں اسی خواہشات اور جذبات کے حوالے سے ہمارے دوست شہباز انور خان کا قطعہ آپ کی نذر ہے:
چیف جسٹس بن گئے ہیں آپ بیشک ملک کے
اب سبھی کے واسطے انصاف ہونا چاہیے
دوسرے شعبوں کے بارے فیصلوں سے پیشتر
عدلیہ کا ہر عمل شفاف ہونا چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button