ColumnRoshan Lal

صفائی والے اور گندگی والے

روشن لعل
زندگی میں اکثر ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جن کی حرکتیں دیکھ کر سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ سادہ لوح ہیں یا انہیں احمق سمجھا جائے۔ شاید کسی کو یہ بات درست نہ لگے مگر اپنی نظر میں سادہ لوح اور احمق لوگوں کا فرق یہ ہے کہ احمقوں کا تقریباً ہر کام احمقانہ ہوتا ہے جبکہ سادہ لوح وہ ہوتے ہیں جنہیں بڑی آسانی سے حماقتیں کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ جب ان دونوں قسم کے لوگوں کی قدر مشترک حماقتیں ہیں تو پھر کہا جاسکتا ہے ان میں تفریق کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی اگر کسی کو سادہ لوح اور احمقوں میں تفریق کرنا آسان لگتا ہے تو وہ یہ بتا دے کہ ہمارے ہاں جو لوگ گھروں سے کچرا اٹھانے کے لیے آنے والوں کو’’ صفائی والے‘‘ کی بجائے ’’ کوڑے والا‘‘ کہتے ہیں ان کے لیے سادہ لوح یا احمق میں سے کون سے الفاظ استعمال کئے جائیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ جو لوگ ہمارے گھروں کی گھنٹی بجا کر کچرے کی ٹوکری خالی کرنے یا گلی میں ہمارا پھیلایا ہوا گند صاف کرنے کے لیے آتے ہیں، انہیں ہمارے ہاں بڑوں سے بچوں تک ہر کوئی صفائی کرنے والے کی بجائے کوڑے والا کہتا ہے۔ کوڑا یا کچرا وہ گند ہوتا ہے جس کی پیداوار سے ان لوگوں کا برائے نام تعلق بھی نہیں ہوتا جو اسے صاف کرنے آتے ہیں ، اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ کون گند پیدا کرنے اور کون صفائی کرنے والا ہے مگر اس کے باوجود ہم گندگی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرنے والوں کو صاف سمجھتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کو گند ایا کوڑے والا کہتے ہیں۔ اپنا تو یہ خیال ہے کہ صفائی کرنے والوں کو کوڑے والے کے نام سے پکارنے والوں کو احمق یا سادہ لوح کہنے کی بجائے اگر جاہل سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
ہمارے ہاں ایسے لوگ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں جنہیں ادراک ہو کہ صفائی والے کو، کوڑے والا کہنا کتنی بڑی جہالت ہے۔ کسی اور کی بات کیا کی جائے خو د اپنی ذات کافی عرصہ تک اس جہالت میں مبتلا رہی۔ بھلا ہو ایک دوست کے والد کا جنہوں نے احساس دلایا کہ جسے ہم کوڑے والا کہتے ہیں وہ اصل میں صفائی والا ہے جبکہ اصل کوڑے والے تو ہم خود ہیں۔ جس دوست کا ذکر کیا ہے وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک ایسی کھلی بند گلی میں رہتا تھا جس کی صفائی اور سیکیورٹی کا انتظام وہاں کے مکینوں نے کمیونٹی کی بنیاد پر کر رکھا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ کافی عرصہ پہلے اپنے اس دوست کے گھر جانے پر دیکھا کہ ان کی جو گلی ہمیشہ صفائی میں مثالی لگتی تھی وہاں ہر گھر کے سامنے پڑی ہوئی کچرے کی ٹوکریوں اور شاپروں کے ساتھ آوارہ بلیوں نے چھیڑ چھاڑ کر کے اچھا خاصا گند پھیلایا ہوا تھا۔ دوست کے گھر کی بیٹھک میں اس کے والد صاحب بھی بیٹھے تھے، ان سے بات چیت کا آغاز کرنے کے لیی گلی میں بکھرے گند کا حوالہ دے کر جب ان سے یہ کہا کہ لگتا ہے آج کوڑے والا نہیں آیا تو ان کا جواب تھا کہ جس کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ بیماری کی وجہ سے صرف آج نہیں بلکہ دو تین دن سے نہیں آرہا اور ہاں وہ کوڑے والا نہیں صفائی والا ہے، کوڑے والے تو ہم خود ہیں۔ جو بات ، بات چیت آگے بڑھانے کے لیے کی گئی تھی اس کے جواب میں اپنی جہالت کی نشاندہی ہونے پر کچھ مزید کہنے کی بجائے خاموش رہنا بہتر سمجھا ۔ اس خاموشی کو دوست کے والد نے توڑا اور کہا کہ مجھے بھی اس بات کا احساس گلی میں کل سے پڑے ہوئے گند کو دیکھ کر ہوا کہ جسے ہم کوڑے والا کہتے رہے وہ اصل میں صفائی والا ہے۔ انہوں نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران انہیں صرف یہ ادراک نہیں ہوا کہ صفائی والا کون اور گند والا کون ہے بلکہ یہ احساس بھی ہوا کہ ہم بلاوجہ اس لیے بھی گند پھیلاتے ہیں کیونکہ جانتی ہیں کہ اپنا ڈالا ہوا گند ہمیں خود نہیں اٹھانا پڑے گا بلکہ ہمارے لیے یہ کام کوئی اور کرے گا۔میرے دوست کے والد کوئی دانشور نہیں بلکہ عام پڑھے لکھے انسان تھے جنہوں نے اب سے کئی برس پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے بلاوجہ گند پھیلانے کی اپنی بگڑی ہوئی عادت کو ختم نہ کیا اور اپنے کردار کو گند ڈالنے والوں کی بجائے صفائی کا خیال رکھنے والوں میں تبدیل نہ کیا تو یہ عادت اور کردار کسی اور کی بجائے اجتماعی طور پر ہمارے اپنے لیے بہت بڑا عذاب بن جائے گا۔
دوست کے والد نے کافی عرصہ پہلے جب گند ڈالنے کے ہمارے عمومی کردار اور عادت کی نشاندہی کی تھی اس وقت ان کی باتوں کا کافی اثر ہوا تھا لیکن بعد ازاں اہم ہونے کے باوجود یہ باتیں اس طرح سے تحریروں کا موضوع نہ سکیں جس طرح انہیں بننا چاہیے تھا۔ عام لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے جابجا بکھری ہوئی گندگی کو دیکھ کر عرصہ پہلے سنی ہوئی باتیں آج کل شدت سے یاد آرہی ہیں۔ ان باتوں کے یاد آنے کی وجہ بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کا افسوسناک کردار بھی ہے جو جا بجا پڑی ہوئی گندگی کی نشاندہی کرنے کی بجائے کسی خاص شہر کو ٹارگٹ کر کے کسی خاص پارٹی یا حکومت کو ہدف تنقید تو بناتے ہیں۔
مگر اس گندگی کو پھیلانے میں عام لوگ جس لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کا ذکر کبھی نہیں کیا جاتا ۔ وطن عزیز میں لوگوں نے کچرے کا شاپر کوڑا جمع کرنے کے لیے رکھے گئے کنٹینر میں ڈالنے کی بجائے دور سے اس میں پھینکنے کی عادت بنا ئی ہوئی ، ایسا کرتے ہوئے اکثر نشانہ خطا ہوتا ہے اور پھینکا ہوا شاپر کینٹینر میں جانے کی بجائے نیچے گر جاتا ہے ۔ ایسا پورے ملک میں ہوتا ہے مگر میڈیا ہائوسز صرف کسی ایک شہر کو نشانہ بنا کنٹینر کے گرد پڑے ہوئے کچرے کو اپنی سکرین پر دکھاتے رہتے ہیں مگر انہیں کبھی یہ آگاہی دینے کی توفیق نہیں ہوتی کہ کچرے کو ٹھکانے لگانا اگر حکومت کا کام ہے تو عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلاوجہ گندگی پھیلانے سے گریز کریں۔ یہاں گٹروں سے بڑے بڑے پتھر ، ریت ، مٹی کی بوریا ں اور حتیٰ کہ گدے ، رضائیاں بھی نکلتے ہیں مگر سب سے پہلے خبر دینے کا دعویٰ کرنے والے میڈیا ہائوسز نے کبھی یہ سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کون ہے جو جان بوجھ کر گٹروں اور سیوریج لائنوں کو بند کر دیتا ہے۔ گندے نالوں میں اپنے گھر کے کچرے کے شاپر پھینکنا یہاں لوگوں کی عام عادت ہے ، میڈیا ہائوسز پورے ملک کی بجائے صرف ایک شہر میں گندے نالوں کی صفائی پر زور تو دیتے رہتے ہیں مگر انہوں نے کبھی اس بات کو ترجیح نہیں دی کہ وہ اپنے کسی پروگرام کے ذریعے عام لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ گندے نالوں میں کچرا پھینکنے سے برسات کے موسم میں خود ان کے نقصان کا کتنا زیادہ امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ ان میڈیا ہائوسز کی نشریات دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے وہ صفائی کرنے والوں کی بجائے گندگی پھیلانے والوں کے ساتھی ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button